وجود

... loading ...

وجود

شام کی کہانی

جمعرات 19 دسمبر 2024 شام کی کہانی

دریا کنارے /لقمان اسد
کیا یہ وہی شام ہے جہاں 2009 میں ایک رپو رٹ کے مطابق 6 ملین سیاح آئے۔ آج شام کو دیکھ کے ایسا گمان ہوتا ہے شاید زندگی کا یہاں سے کبھی گزر نہیں ہوا۔ہر طرف موت کے سائے منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ شام کا شہر ایلیپو جو کہ یو نیسکو ورلڈ ہر یٹیج سائٹ ہے تبا ہی کا دردناک منظر پیش کر تا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چا ہیے کہ شام کا مسئلہ اس طر ح حل نہیں ہو سکتا کیو نکہ اس میں شکار صر ف عام شہری ہی ہوتے ہیںشام کی موجودہ صورتحال کا ایک پس منظر ہے ۔
2011 میں ہی یہ نام نہاد انقلابی تحریک مسلح بغاوت میں بدل گئی اور پوری دنیا پر بھی یہ بات آشکار ہوگئی کہ شام کا مسئلہ دراصل اندرونی نوعیت کا نہیں بلکہ بیرونی مداخلت کا نتیجہ ہے اور دہشت گردوں کا استعمال صرف اس لئے کیا گیا ہے تاکہ مزاحمت کی کمر توڑی جائے اور اپنے فیصلوں میں ایک آزاد اور خود مختار خیال کے حامل ملک شام کو بعض دیگر عرب ریاستوں کی طرح امریکہ اور مغرب کی کٹھ پتلی بنا دیا جائے۔چونکہ شام نے کبھی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی اور اسرائیل مخالف موقف اپناتے ہوئے ہمیشہ فیصلے اپنے لوگوں کا فائدہ دیکھ کر کئے، اس لئے بشار الاسد کی زیر قیادت شام کی حکومت ان کے راستے کا کانٹا بن گئی جس کو ہٹانے کیلئے انہوں نے دنیا بھر سے دہشت گردوں کو شام میں جمع کرکے انہیں مہلک ہتھیاروں سے لیس کیا اور یہی وجہ رہی کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد سب سے زیادہ ہجرت ہوئی اور تین لاکھ سے زائد افراد کی جانیں تلف ہوئیں۔شام جو کہ انبیاء کی سر زمین بھی کہلاتا ہے ۔ وہ ایسے خو نی مسائل کا شکار ہوا کہ آ ج تک ہزاروں جا نیںقر بان کرنے کے با وجود کو ئی حل نظر نہیں آتا۔پر امن احتجاج کو خو نیں بنانے میں شام کے صدربشا ر الا سد کا بھر پور ہاتھ ہے جب مختلف ممالک میں عرب اسپر نگ کا آغاز ہو ا تو شام میں بھی جمہو ریت کے حامیوں نے پر امن احتجاج کا آ غاز کیا۔ اس پر امن احتجا ج کو حکو مت نے تسلیم نہ کیا اور لو گو ں کو پکڑنے کے بعد انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنا یا،قتل کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں انسانیت و امن دشمنوں کو مو قع مل گیا اور پھر تقسیم در تقسیم ہو گئی۔مختلف گرو پس بن گئے۔شام میںکبھی فر قہ وارانہ تقسیم نہ تھی لیکن ان تضادات کے دوران فرقہ واریت کو بھی خو ب ہوا دی گئی۔ان حا لات میں عا لمی طا قتوں نے بھی بھر پور حصہ ڈالا۔ مسلمان مما لک نے آپس میں اس مسئلے کو حل کرنے کے بجا ئے فر قوں کی بنیاد پر گروپس بنا لئے۔ امر یکہ اور روس نے اس میں ان کا ساتھ دیا۔بشا ر الا سد کو ایران،لبنان کی حز ب اللہ اور عر اق کی حما یت جبکہ ترکی اور قطر بشا ر الا سد کے مخا لفین کی حما یت میں شام میں موجود ہیں۔اس سارے عمل میں داعش نے بھی اس دہشت ذدہ جنگ میں شام اور عر اق کو تبا ہی کے دہا نے پر پہنچا دیا۔
شامی حکومت کیلئے 2012 اور2013 کے سال انتہائی مشکل تھے جس دوران نہ صرف بڑی تعداد میں شہری ہلاکتیں ہوئیں بلکہ فوج کا قبضہ بھی آہستہ آہستہ سکڑنے لگا اور داعش، القاعدہ (موجودہ النصرہ فرنٹ)، احرار الشام اور نہ جانے کیسی کیسی درندہ صفت دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آئیں جنہوں نے اپنے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں نام نہاد خلافتیں قائم کرکے لوگوں کا بے دردی سے قتل کیا اور پچھلے کچھ برسوں میں ایسی دل دہلادینے والے ویڈیوز اور مناظر دیکھے گئے جن کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال ہی نہیں ملتی۔پس منظر میں جھانکیں تو پچھلے سال کے اواخر میں ملک کے سب سے بڑے صنعتی شہر حلب کی دہشت گردوں کو شکست فاش دے کر آزادی حاصل کرنا تھا جب مغرب نواز میڈیا نے اپنے تمام تر وسائل کا استعمال کرتے ہوئے واویلا مچایا اور دنیا بھر میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ حلب شہر کا سقوط ہوگیا ہے۔ شام کے دشمن ممالک کی نظر میں اس ملک کے شہروں پر اقتدار کا جائز حق دنیا بھر سے آئے ہوئے دہشت گردوں کا ہے نہ کہ شام کی قانونی اور جمہوری حکومت کا۔
شام کے معاملے میں پروپیگنڈا تو بہت کیا گیا لیکن مسلمان یہ تک بھی نہیں سمجھ پائے کہ وہاں کون کس کا اتحادی ہے۔ یہ بات عام فہم ہے کہ جس فریق کو اسرائیل اور امریکہ جیسی غاصب حکومتیں مدد کررہی ہوں، وہ اسلامی اقدار کے منافی ہی کام کرے گا کیونکہ ان صہیونی اور سامراجی طاقتوں کا مقصد ہی مسلمانوں اور اسلام کو نقصان سے دوچار کرنا ہے۔دراصل شام میں دہشت گردوں کو جمع کرکے یہی مقصد حاصل کرنا مقصود تھا کہ اسلام کو کمزور کیا جائے اور اس جنگ کو شیعہ سنی کا نام دے کر دونوں فرقوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا جائے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال وجود پیر 21 اپریل 2025
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال

ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا! وجود پیر 21 اپریل 2025
ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا!

ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے! وجود اتوار 20 اپریل 2025
ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے!

یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال وجود اتوار 20 اپریل 2025
یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال

تارکین وطن کااجتماع اور امکانات وجود اتوار 20 اپریل 2025
تارکین وطن کااجتماع اور امکانات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر