وجود

... loading ...

وجود

حالات اورہیں بیان اور

جمعرات 19 دسمبر 2024 حالات اورہیں بیان اور

حمیداللہ بھٹی

عالمِ اسلام میں تحقیقی صحافت کافقدان ہے ایسا احساس ویسے تو کئی دہائیوں سے ہے مگر سقوطِ دمشق نے اِس احساس کومزید قوی تر کردیا ہے۔ ایک مسلم ملک کے حصے بخرے کیے جارہے ہیں ۔پیش قدمی کرتی صیہونی افواج وحشیانہ بمباری میں مصروف ہے ۔اسرائیلی حملوں سے شام کی فضائیہ ،بحری اور بری فوج تباہ کی جا چکی ہے لیکن زرائع ابلاغ میں زیادہ تر حافظ الاسد اور مفرور صد ر بشارالاسدکے ظلم و فسطائیت کا تذکرہ ہورہا ہے ۔ایساطرزِ عمل دانستہ طورپر حقائق چھپانے کے مترادف ہے ۔ایسا نہیں کہ سبھی اصل منصوبوں سے ناواقف ہیں بلکہ ایسے لوگوں بھی ہیںجنھیں شام میں کھیلے جانے والے اصل کھیل کا بخوبی علم ہے مگرچُپ سادھے ہوئے ہیں۔اِس کی وجہ خوف دامن گیر ہے یا ذرائع ابلاغ تک عدم رسائی ، جوبھی ہے سکوت توڑکر سچ طشت ازبام کرنے کی ضرورت ہے ۔شام کی تقسیم نوشتہ دیوار ہے سعودی عرب اور عرب لیگ کی طرف سے شامی وحدت و سلامتی کاتحفظ کرنے کا مطالبہ سامنے آیا ہے لیکن کمزور کی بچھی بساط پرکوئی حیثیت یااہمیت نہیں ہوتی کیونکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے جیسے مطالبات عرب لیگ سمیت او آئی کی طرف سے ایک سے زائد بار کیے جا چکے مگر کسی عالمی طاقت نے ایسے مطالبات کو پزیرائی نہیں دی۔ غزہ اوربیروت پر اسرائیلی بمباری روکنے کے مطالبات بھی ہوئے لیکن اسرائیل نے اپنی مرضی کی جبکہ امریکہ جوبظاہر انسانی حقوق کا علمبردار ہے نے اسرائیل کے خلاف یواین اومیں پیش ہونے والی ہر قراردادکو ویٹو کرناہی اپنا اولیں فرض سمجھاہے۔ بشارالاسد کوملک سے فرارہونے کا محفوظ راستہ دیکرشام میں اسرائیل کو جارحیت کے لیے جس طرح میدان ہموار کیا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں مگر تباہی کی رقم ہوتی داستانیں دیکھنے کے باوجودعالمی اورمسلم ذرائع ابلاغ پر 1970سے جاری ظلم و ستم بیان کرنے کامقابلہ ہے آج بھی اسرائیلی وحشت و ظلم کے حوالے سے زرائع ابلاغ میں سکوت ساطاری ہے۔
مجھے نہ تو حافظ الاسد سے کوئی ہمدردی ہے نہ ہی میرامقصد بشارالاسد کے مظالم کو جواز کا پیراہن پہنا کر مسیحا ثابت کرنا ہے۔ باپ بیٹا دونوں اگر اکثریت کی پسند کا خیال رکھتے تو آج یوں رسوائیوں میں گم نہ ہوتے کیونکہ جلد بدیر ظلم و جبرکاخاتمہ ہوکر رہتا ہے۔ دانشمندی یہی ہے کہ اچھے کام کیے جائیں تاکہ رُرے انجام سے محفوظ رہاجا سکے مگر باپ نے جس ظلم و جبر کا آغاز کیا اُسے بیٹے نے اقتدار میں آکر مزید وسعت دی جس سے نہ صرف ملک میںباپ کے لیے موجود نفرت میں اضافہ ہوابلکہ وہ خود بھی بدترین انجام کی پاتال میں جاگرے اور ایسے حالات میں فرار ہوئے کہ مستقبل میں واپسی کا کوئی امکان تک نہیں رہا ۔ایسے انجام سے بچا جا سکتا تھا اگر آمریت سے گریز کیاجاتا آزادی اظہار پرقدغن نہ لگائی جاتی نیزفسطائیت کاراج قائم کرنے کی بجائے ملک کو فلاحی ریاست بنایا جاتا مگر ایسا نہ کیاگیا جس کی پاداش میں آج ملک بدر ہیں۔ عوامی نفرت اُس کے والد کی ہریادگار کو ملیا میٹ کررہی ہے۔ یہاں تک تو پھر بھی گواراتھا کہ جوجیسا کرتا ہے ویسا بھرتا ہے دکھ کی بات یہ ہے کہ شامی وحدت و سلامتی کو لاحق خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ آج شام عملی طورپر تین حصوں میں تقسیم ہے جبکہ بڑے علاقے پر اسرائیل نے نہ صرف بزورقبضہ کر لیا ہے بلکہ مزید پیش قدمی جاری ہے لیکن جارحیت روکنے اور ملکی سرحدوں کا تحفظ کرنے پر کسی کی توجہ نہیںصاف معلوم ہوتا ہے کہ ایسے حالات باقاعدہ منصوبہ بندی سے بنائے گئے ہیں۔ اپوزیشن نے اقتدارکے لالچ میں بیرونی آقائوں کی اطاعت کی اورملک کوعدمِ استحکام سے دوچار کرنے میں معاون بنی جبکہ صدارت کے منصب پر براجمان نے عوامی رائے جاننے سے اجتناب کیا اُس کی حرکتوں سے آبادی کو اِس حد تک بدظن ہوتی چلی گئی کہ بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ہر قیمت چکانے پر آمادہ ہو ئی عوامی جذبات کاادراک کرتے ہوئے بیرونی طاقتیں حرکت میں آئیں اور آزادی دلانے کی آڑ میں اپوزیشن سے ہاتھ ملایا مگر یہ ایسی آزادی ہے جس سے ملک خاک و خون میں لت پت کھنڈارت بنتا جارہا ہے لیکن عالمی زرائع ابلاغ اسدخاندان کو ظالم ثابت کرنے میں مصروف ہے جبکہ مسلم زرائع ابلاغ بھی حقیقت بیانی کی بجائے سنی سنائی باتوں کی تشہیر کازریعہ بن چکا ہے۔
خلافتِ عثمانیہ کے آخری ایام میں بھی عربوں میں قوم پرستی کا بیج بویا گیا اور آزادی دلانے میں اعانت کرنے کے عوض اقتدار دلانے کے وعدے کیے گئے جب عربوں میں بغاوت پھیلنے لگی تو آزادی دلانے کی آڑ میں صیہونی ریاست کا مقصد حاصل کر لیا گیا اورعظیم اسلامی سلطنت کو کئی حصوں میں بانٹ کرکچھ اِس طرح نام و نشان تک مٹا دیا گیا عرب آلہ کاروں کو اقتدار میں لانے کے لیے ایسی ریاستیں بنائی گئیںجواپنے دفاع کرنے سے بھی قاصرتھیں وہ طریقہ کارپھر دہرایا گیاہے کئی حصوں میں تقسیم شام کا اقتدارسنبھالنے والی ہیت التحریر بھی بیرونی جارحیت روکنے کی سکت نہیں رکھتی بشارالاسد ایک ظالم اور آمر ہی سہی لیکن اُسے اقتدارسے نکالنے کا شام کوبہت نقصان ہواہے شام کے دفاعی اثاثے تباہ اور عسکری نفوس کاوجودتک نہیں رہا جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسرائیل اپنی سرحدیں وسیع کررہا ہے مگر عالمی ذرائع تو ایک طرف مسلم زرائع ابلاغ کی بھی ساری توجہ اسدخاندان کی فسطائیت اُجاگر کرنے پر ہے کوئی بھی شام کے خلاف ہونے والی سازشوں کوسمجھ کرپردہ چاک نہیں کررہا۔ اگر تحقیقی صحافت ہوتی اور خبروں کی نقل کا رجحان نہ پاتا تو صورتحال کسی حدتک مختلف ہوتی افسوس کہ وقتی فوائد اور اقتدارکی ہوس میں مسلم رہنمااغیارکے ہاتھوں استعمال ہوجاتے ہیںاور اپنی ہی قوم کے خلاف سازشوں میں بطور آلہ کارحصہ بن جاتے ہیں ۔روس نے بظاہر معزول صدر بشارالاسد کو سیاسی پناہ دے دی ہے مگر ایسا امکان کلی طورپر رَد نہیں کیا جا سکتا کہ دولت مند صیہونی کمپنیوں کی طرف سے ملک کی خراب معیشت کو بہتر بنانے میںمددوتعاون کی پیشکش پر حامی بشارالاسد کو اقتدار سے الگ ہونے پر رضامند کیا ہو دلیل یہ ہے کہ روس ماضی میں خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بھی سرگرم رہ چکا اور اسرائیل کو معرضِ وجود میں لانے کے منصوبوں میں مددگار بھی، اب بھی ایسا ممکن ہے کیونکہ بشاالاسد کے اقتدار چھوڑنے سے ناصرف شام غیر مستحکم ہوا ہے بلکہ اسرائیل کولاحق خطرات کا مکمل طورپرخاتمہ ہو گیا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ اور غزہ کی حماس لاغرہو چکیں ۔اسرائیلی فوجیں دمشق سے محض پندرہ کلومیٹر کی دوری پر ہیں۔ اِس کے باوجود اقتدار میں آنے والی اپوزیشن کی توجہ ملک کے دفاع سے زیادہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے پر ہے۔ ہیت التحریرنے سرحدیں پامال کرتے خون آشام درندوں سے آنکھیں موندرکھی ہیں ۔عالمی ذرائع ابلاغ پر تو خیراغیار کاغلبہ سہی ستم ظریفی تویہ ہے کہ نقل کے رجحان کو ہی مسلم ابلاغی ذرائع بھی حقیقی صحافت سمجھ بیٹھے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حقیقی خطرات کواُجاگر کرنے پر توجہ دیتے ۔سوال یہ ہے کہ غزہ سمیت فلسطین ، بیروت اورشام کی تباہی کے بعد آخرکارہمارے ذرائع ابلاغ کو بیدارکرنے لیے اورکتنے زخموں کی ضرورت ہے ؟


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال وجود پیر 21 اپریل 2025
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال

ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا! وجود پیر 21 اپریل 2025
ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا!

ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے! وجود اتوار 20 اپریل 2025
ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے!

یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال وجود اتوار 20 اپریل 2025
یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال

تارکین وطن کااجتماع اور امکانات وجود اتوار 20 اپریل 2025
تارکین وطن کااجتماع اور امکانات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر