... loading ...
عماد بزدار
پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ میں ”طاقت کے مراکز”سے مراد وہ ادارے اورشخصیات ہیں جو پس منظر میں رہتے ہوئے ملکی سیاست اور معاشرت پر کنٹرول رکھتے ہیں۔یہ مراکز نہ صرف ریاستی مشینری، معیشت، اور عدلیہ پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ میڈیا اور عوامی رائے کے دھارے کو بھی اپنی مرضی کے مطابق ڈھالتے ہیں۔یہ مراکز اپنی طاقت کو مستحکم رکھنے کے لیے دانشوروں، لکھاریوں، اور تجزیہ کاروں کا سہارا لیتے ہیں۔ کچھ لکھاری اور دانشور کھلے عام ان کے حامی ہوتے ہیں،اور ان کی حمایت واضح اور بے نقاب ہوتی ہے ۔ ایسے لوگ زیادہ خطرناک نہیں سمجھے جا سکتے کیونکہ ان کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہوتا ہے ، اور وہ کسی نقاب کے پیچھے نہیں چھپتے ۔ تاہم، سب سے زیادہ خطرناک وہ ہیں جو غیر جانبداری کا لبادہ اوڑھ کر اپنی اصل حقیقت چھپائے رکھتے ہیں۔ یہ لوگ درپردہ طاقتوروں کا بیانیہ پیش کرتے ہیں اور عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ ان کی دوغلی روش عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے ، اور یہی چیز ان کے اثر و رسوخ کو مزید مہلک بنا دیتی ہے ۔ ان مراکز کا سب سے مؤثر اور خطرناک ہتھیار یہی سہولت کار ہیں جو اپنے قلم اور زبان کے ذریعے ایسے بیانیے تخلیق کرتے ہیں جو عام عوام کی سوچ کو گمراہ کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ کا جادو ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جس میں عام شہری یہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ پردے کے پیچھے اصل کھیل کیا ہو رہا ہے ۔کبھی وہ سیاسی پارٹی نمبر ایک پر نشانہ باندھتے ہیں، تو کبھی سیاسی پارٹی نمبر دو پر۔یہ سہولت کار اپنے آپ کو ”غیر جانبدار” اور ”سچائی کے علمبردار”کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن درحقیقت ان کا ہر قدم طاقت کے مراکز کی مرضی اور مفاد کے عین مطابق ہوتا ہے ۔ یہ لوگ اپنی تحریروں اور تجزیوں کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو نشانہ بناتے ہیں، لیکن کبھی ان مراکز پر تنقید نہیں کرتے جو اصل میں سیاسی نظام کے تانے بانے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ عوام کے لیے ان کی یہ ظاہری غیر جانبداری اکثر دھوکہ بن جاتی ہے ، کیونکہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ان کے مسائل کا حقیقی منبع کہاں ہے ۔
یہ سہولت کار خوب جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں پر تنقید کرنا سب سے آسان ہدف ہے ۔سیاسی پارٹی نمبر ایک پر ان کی تنقید ہمیشہ غیر مستقل فیصلوں اور ملک کو بحرانوں میں دھکیلنے کے الزامات کے گرد گھومتی ہے ۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس جماعت کے ”حامی” ”پوسٹ ٹروتھ” اور جذباتیت کا شکار ہیں، جو خواب دیکھتے ہیں کہ راتوں رات انقلاب آ جائے گا۔ ان کے مطابق، یہ جماعت اقتدار حاصل کرکے اپنی مرضی عوام پر مسلط کرنا چاہتی ہے ۔ یہ نقاب پوش جمہوریت کے علمبردار کبھی”دلیل”کے نام پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے جیسے معاشروں میں صرف مقبولیت کافی نہیں بلکہ قبولیت بھی لازمی شرط ہے ۔ لیکن ان سہولت کاروں کا تضاد اس وقت واضح ہو جاتا ہے جب وہ ایک طرف جمہوریت کی بلند بانگ باتیں کرتے ہیں اور دوسری طرف قبولیت کے نام پر غیر جمہوری رویوں کا جواز پیش کرتے ہیں۔ اس دوغلے پن سے نہ صرف ان کی غیر سنجیدگی آشکار ہوتی ہے بلکہ ان کے خفیہ عزائم بھی عیاں ہو جاتے ہیں۔دوسری جانب، سیاسی پارٹی نمبر دو ان کی تنقید کے نشانے پر کرپشن، اقربا پروری، اور وعدہ خلافی کے الزامات کے ساتھ آتی ہے ۔ ان کا بیانیہ یہ ہوتا ہے کہ اس جماعت
کے رہنما عوامی مسائل کو حل کرنے کے بجائے اپنی جیبیں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں۔یہ سہولت کار عوامی غم و غصے کو بھڑکانے کے لیے ایسے نکات اٹھاتے ہیں جو پہلے ہی عوام میں مقبول ہیں، یوں اپنے بیانیے کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ تنقید محض ظاہری غیر جانبداری کا تاثر دیتی ہے ، جبکہ درپردہ یہ طاقت کے مراکز کے مفادات کی تکمیل کا ایک حصہ ہوتی ہے ، جو ان کے حقیقی عزائم کو بے نقاب کرتی ہے ۔
ان دونوں سیاسی جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے یہ سہولت کار کبھی ان مراکز کو نشانہ نہیں بناتے جو اصل میں ان مسائل کی جڑ ہیں۔ ان کی تحریریں اور تجزیے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت عوام کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، تاکہ طاقت کے اصل کھلاڑی پردے کے پیچھے رہ کر اپنے مفادات حاصل کر سکیں۔
یہ تنقید سننے میں جتنی دلکش اور غیر جانبدار لگتی ہے ، درحقیقت یہ طاقت کے مراکز کے مقاصد کو تقویت دینے کے لیے کی جاتی ہے ۔ اس کا مقصد عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا اور طاقت کے مراکز کے کردار کو پس پردہ رکھنا ہوتا ہے ۔ جب ان سہولت کاروں سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ طاقت کے مراکز پر تنقید کیوں نہیںکرتے ، تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ ہم تو سب پر برابر تنقید کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ”برابر تنقید” کے دعوے کی حقیقت تب کھلتی ہے جب آپ دیکھتے ہیں کہ ان کی تحریروں میں طاقت کے مراکز کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا ہے ۔ یہ سہولت کار اپنے آپ کو عوام دوست اور غیر جانبدار کہلواتے ہیں، لیکن ان کا اصل مقصد عوام کو تقسیم کرنا اور طاقت کے مراکز کی اجارہ داری کو برقرار رکھنا ہوتا ہے ۔ ان کی تحریریں اور بیانیے ہمیشہ ان مسائل کو ابھارتے ہیں جو عوام کو الجھا کر رکھتے ہیں لیکن کبھی ان پالیسیوں یا اقدامات پر بات نہیں کرتے جہاں طاقت کے مراکزکے مفادات پر زک پڑتی ہو۔ان دانشوروں کی خاموشی طاقت کے مراکز پر تنقید نہ کرنے کے پیچھے ایک سوچاسمجھا منصوبہ ہے ۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ طاقت کے مراکز پر انگلی اٹھانے کا مطلب ہے اپنے کیریئر اور مراعات کو خطرے میں ڈالنا۔ لہٰذا وہ ہمیشہ اپنے نشانے کو سیاسی جماعتوں اور عوامی نمائندوں تک محدود رکھتے ہیں۔عوام کو چاہیے کہ وہ ان سہولت کاروں کے دوہرے معیار کو پہچانے اور سوال اٹھائے ۔سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر ان سے جواب طلبی کی جائے کہ وہ طاقت کے مراکز پر تنقید کیوں نہیں کرتے ؟ عوام کو اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے خود سوچنا ہوگا اور ایسے جھوٹے غیر جانبداروں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ان سہولت کاروں کی حقیقت کو سمجھیں جو غیرجانبداری کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ ان کا اصل ہدف عوام کو بے وقوف بنانا اور طاقت کے مراکز کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے ۔ جب تک عوام ان کے دوہرے معیار کو پہچانے گی نہیں، تب تک یہ کھیل جاری رہے گا۔ لہٰذا ہمیں اپنے قلم، زبان، اور سوچ کو استعمال کرتے ہوئے ان لوگوں کو بے نقاب کرنا ہوگا جو طاقت کے مراکز کے پٹھو بنے
ہوئے ہیں لیکن خود کو غیر جانبدار ظاہر کرتے ہیں۔