وجود

... loading ...

وجود

کیا ہونے والا ہے؟

اتوار 15 دسمبر 2024 کیا ہونے والا ہے؟

ایم سرور صدیقی

ایک وقت تھا اپوزیشن ۔۔حکومت کے خلاف تحریک چلانے کااعلان کرتی تو عوام میں ایک سنسنی اور برسر ِ اقتدار سیا ستدانوں میں سراسیمگی سی پھیل جاتی ۔حکومت مخالف سیاسی رہنما جوڑ توڑ میں مصروف ہوتے تو کئی لوگوںکی نیندیں حرام ہونے میں دیر نہ لگتی۔ تھڑے مارکہ ہوٹل،چائے کی دکانیں ،ہیرسیلون اوپن ائر حجام کے پھٹے بحث و مباحثہ کے مراکز سمجھے جاتے تھے ۔جہاں لوگ اپنے پسندیدہ سیاستدانوںکے حق میں عجیب و غریب دلائل اور سیاسی مخالفین کیلئے نفرت کا بر ملا اظہار کرتے رہتے ۔ جلسے ،جلوس عوام کا لہو گرمانے میں پیش پیش تھے سیدھے سادھے لوگ اپنی رائے کا برملا اظہار کردیتے۔ اس دوران ہلکے پھلکے اندازمیں نوک جھونک بھی ہوتی معمولی لڑائی جھگڑے بھی ۔لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود سیانے فریقین کو سمجھاتے تو وہ تھوڑی دیر بعد ہی شیرو شکرہو جاتے آج کے دور کی طرح منافقت کم کم تھی لوگوںمیں قوت ِ برداشت بھی۔سخت بات سن کر بھی مخالف کامسکراتا چہرہ دیکھ کردل محبت سے موم ہو جاتے۔ اب تو معمولی معمولی باتوںپر اسلحہ نکل آتاہے چرڑ۔۔چرڑ ۔۔ٹھاہ۔۔ٹھاہ اور بات کیا بندہ ہی ختم۔
پاکستان میں حکومت مخالف دو احتجاجی تحریکوں اور ایک دھرنے نے بہت نام کمایا ایک خان عبدالقیوم خان نے صدر ایوب خان کے خلاف پندرہ میل لمبا جلوس نکالا جس کاریکارڈ ۔ آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ اسے صدر ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کا نقطہ ٔ آغاز بھی کہا جا سکتاہے۔ دوسراذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک جسے تحریک نظام ِ مصطفےٰ ۖ کا نام دیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدارپرقبضہ کرلیا۔ زرداری دور ِ حکومت میں پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری نے ”سیاست نہیں ریاست بچائو” کے سلوگن کے تحت اسلام آبادمیں ایک دھرنا دیا جس میں نو جوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین ، بچوں اور بوڑھوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی ۔شدید سردی،دھند اور بارش میں بھی ہزاروں افرادکا دلجمعی سے بیٹھے رہنا بلاشبہ پاکستانی تاریخ کا ایک ناقابل ِ فراموش باب ہے۔ تینوں احتجاجی تحریکوں سے عوام کا تو کچھ فائدہ نہیں ہوا نتائج کے اعتبارسے یہ ناکام ہوگئیں۔ ویسے دیکھا جائے توپاکستان کی سیاسی تاریخ کے ہر منظر نامہ میں اپوزیشن نے برسر اقتدار حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کی کوشش ضرور کی جب تک نوابزادہ نصراللہ خان حیات تھے انہوںنے چھوٹی پارٹیوںکوبھی بڑی جماعتوں کے شانہ بشانہ احتجاجی سیاست کی رونق بنائے رکھا جس سے ان کے گلشن کا بھی کاروبار چلتارہااورانہیں نوآموز اورنومولود پرجوش کارکن میسرآتے رہے ۔نوابزادہ نصراللہ خان کے بعد کسی اور کو یہ” ہنر”نہ آیا بلکہ ان کے جانشین اپنے مرحوم والدکی سیاسی میراث کو ایک پارٹی میں مدغم کرکے سیاست سے ایسے” فارغ ”ہوئے کہ اب کوئی انہیں پوچھتا بھی نہیں اور نصف صدی تک سیاسی تحریکوںکا مرکزو محورپی ڈی پی کا دفتر آجکل لنڈا بازار بن گیاہے ۔یہ بھی ہو سکتا تھانوابزادہ کے لو احقین یہ جگہ خریدکر ان کے نام پر وقف کردیتے اور یوں ایک قومی وسیاسی یادگارکی حیثیت سے پہچانی جاتی یا حکومت اسے قومی یادگار قرار دے کر محفوظ کرلیتی۔دراصل اہلیت نہ ہوتو بہانے بہت سوجھتے ہیں۔ چندسال پہلے جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کی حکومت کو ناجائز قراردے کر اس کے خلاف علم بلند کیا جبکہ پھر اپوزیشن جماعتوںکے اتحادپی ڈی ایم نے یکایک وزیر ِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک ِ عدم اعتماد پیش کردی۔ میاں شہبازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی کوششیں بارآورثابت ہوگئیں اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تحریک ِ اعتماد کامیاب ہوئی اور عمران خان فارغ ہوگئے ۔اب وہ اپوزیشن میں ہیں اور کئی مہینوں سے قیدی نمبر804بن کر جیل میں ہیں اورپی ڈی ایم کے میاں شہبازشریف ایک بارپھر وزیر ِ اعظم ۔ جو کچھ تحریک ِ انصاف کے ساتھ ہورہاہے لگتاہے عمران خان ”پیالی میں طوفان” لانے کے متمنی ہیں ملک میں سیاسی بے چینی ، مہنگائی،بیروزگاری ،لوڈشیڈنگ اورعروج پرہونیکے باوجود سیاسی ماحول گرم ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی24 نومبر کو اسلام آباد میں حکومت نے پی ٹی آئی کے احتجاج کرنے والے مظاہرین کے ساتھ جتنی طاقت کا مظاہرہ کیا اس سے حکومت کے مخالفین میںشدید خوف و ہراس پھیلاہواہے۔ ایک طرف عمران خان نے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے کااعلان کررکھا ہے تو دوسری طرف مذاکرات بھی کئے جارہے ہیں آج لوگوںکے پاس کھانے کو روٹی نہیں، روزگارنہیں،بجلی نہیں حالات نے غریبوںکو ادھ مواء کرکے رکھ دیاہے ۔اس تناظرمیں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کیونکر کامیابی سے ہم کنارہوگی ۔ماضی میں بھی حکومت مخالف تحریکیں نتائج کے اعتبارسے ناکام ہوگئیں کیونکہ عوام کو کسی بھی لحاظ سے کبھی ریلیف نہیں ملا، صرف یہ ہوا ایک حکمران گیا اس کی جگہ نیا آگیا نظام تبدیل ہوا نہ عوام کے حالات اور نہ ہی سسٹم میں کوئی بہتری ہی آسکی۔
بہرحال ملکی سیاست میں ایک طلاطم آنے کوہے، سیاست میں نفرت عود آئی ہے جس سے جمہوریت،معیشت اورملک کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں جو انتہائی خوفناک طرز ِ عمل ہے۔ خود آرمی چیف کا کہناہے کہ وہ جمہوریت کے حامی ہیں اس کو کوئی خطرہ نہیں۔ عدالت ِ عظمیٰ نے تو واضح کررکھاہے اب جمہوریت کے علاوہ کوئی اور نظام کی کوئی گنجائش نہیں ۔ان حالات میں پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کیا رنگ لائے گی ،یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔دیکھتے ہیں کیا ہوتاہے۔ ویسے حالا ت بتاتے ہیں موجودہ حکومت پانچ سال سکون سے اپنی مدت پوری کرسکتی ہے۔ اب دیکھنایہ ہے کہ عمران خان کی آئندہ سیاسی حکمت ِ عملی کیا ہوگی ان کی سیاسی موومنٹ کیا واقعی کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگی یا نہیں اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔فی الحال تو عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوںکو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف ملٹری کورٹس میں سنگین نوعیت کے مقدمات کی تلوارلٹک رہی ہے ۔لہٰذا کیا ہونے والا کچھ نہیں کہاجاسکتا ۔البتہ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں جو بھی فیصلہ آیاملکی حالات، سیاست ،معیشت اور جمہوریت پر اس کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لاس اینجلس پلک جھپکتے راکھ میں بدل گیا! وجود جمعرات 16 جنوری 2025
لاس اینجلس پلک جھپکتے راکھ میں بدل گیا!

مسائل کا بہتر حل وجود جمعرات 16 جنوری 2025
مسائل کا بہتر حل

بھارتی مذہبی اقلیتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں وجود جمعرات 16 جنوری 2025
بھارتی مذہبی اقلیتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

عشق حقیقی وجود بدھ 15 جنوری 2025
عشق حقیقی

جیل کی موت یا کٹھ پتلی وزیر اعظم وجود بدھ 15 جنوری 2025
جیل کی موت یا کٹھ پتلی وزیر اعظم

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر