وجود

... loading ...

وجود

فوج کی موجودگی سے کشمیریوں کی تعلیم متاثر

جمعرات 12 دسمبر 2024 فوج کی موجودگی سے کشمیریوں کی تعلیم متاثر

ریاض احمدچودھری

مقبوضہ کشمیرمیں فوج کی بھاری تعداد میں موجودگی سے طلباء کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ بھارتی فوجی طلباء کے لیے تعلیم کا حصول آسان بنانے کی بجائے انہیں ہراساں کرتے اوران کی تذلیل کرتے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں فلاح عام ٹرسٹ کے زیر انتظام سینکڑوں اسکولوں پر پابندی ہے۔ اسکولوں میں مسلمان طلباء کو ہندو بھجن گانے اور سوریہ نمسکار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مودی حکومت کی تعلیمی پالیسی آر ایس ایس کے نظریے کی عکاس ہے۔ ضلع اسلام آباد میں ایک کشمیری کا رہائشی مکان قرق کرلیا گیا، شہری جاوید احمد بٹ پر منشیات فروشی کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا، قرق کی گئی املاک کی قیمت 50 لاکھ سے زائد بتائی جا رہی ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پینتیس سال سے شورش جاری ہے اور اس میں اب تک دسیوں ہزار شہری اور کشمیری عسکریت پسند شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں سال رواں کے دوران اب تک ہونے والی کم از کم 120 شہادتیں بھی شامل ہیں۔محترمہ مشعال حسین ملک نے کہا ہے کہ بھارت کشمیریوں کو خاموش کرنے کے لیے طرح طرح کے غیر انسانی حربے استعمال کر رہا ہے۔ بھارت غیر کشمیریوں کو وادی میں آباد کر کے غیر قانونی بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور کشمیری عوام کئی دہائیوں سے قابض افواج کے مظالم کا سامنا کر رہے ہیں لیکن بھارت سچائی کو دبانے میں ناکام رہا ہے۔ کشمیری نوجوانوں اور صحافیوں کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے سخت قوانین کا استعمال کیا جا رہا ہے، عالمی برادری کو آگے بڑھ کر نئی دہلی کو مقبوضہ علاقے میں اس کے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مودی کی زیرقیادت حکومت تمام سیاسی قیدیوں کو فوری طور پر رہا کرے اور کشمیری عوام کو اپنی مرضی کے مطابق قسمت کا فیصلہ کرنے دیں۔مشعال ملک نے اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں اور بھارتی ریاستی دہشت گردی کو روکنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کریں۔
بھارتی حکومت نے اس شورش زدہ علاقے میں اپنے ایک ملین سے زیادہ فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے 2019 میں اس مسلم اکثریتی خطے کی آئینی طور پر جزوی خود مختاری کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے تقریباً 12 ملین کی آبادی والے اس خطے میں نئی دہلی کی طرف سے مقرر کردہ ایک گورنر کی حکومت قائم کی گئی ۔نئی دہلی کا اصرار ہے کہ اس نے خطے میں ”امن، ترقی اور خوشحالی” لانے میں مدد کی۔ لیکن عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیری عسکریت پسندوں اور باغیوں کے چھوٹے گروہ، جو یا تو آزادی یا پھر بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرتے ہیں، ان بھارتی دعووں کا جواب حملوں سے دیتے ہیں۔ جنرل ریٹائرڈ ہوڈا نے کہا، ” ایک بڑا پیغام بھیجا جا رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ابھی زندہ ہے۔”کشمیر میں بہت سی جھڑپیں بڑی بستیوں سے دور پہاڑوں پر واقع جنگلوں میں ہوتی ہیں لیکن علاقے میں وسیع و عریض فوجی کیمپوں اور سڑکوں پر کھڑی کی گئی رکاوٹیں یہاں بڑی تعداد میں فوجی موجودگی کے حوالے سے ایک مستقل یاد دہانی کا کام کرتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کشمیر میں اوسطاً ہر 25 افراد پر تقریباً ایک ہندوستانی فوجی تعینات ہے۔ اس وجہ سے یہاں عام لوگوں کے معمولات زندگی بھی متاثر نظر آتے ہیں۔بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 720 عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں۔ علاقائی فوج کے کمانڈر ایم وی سچندر کمار نے گزشتہ ماہ اکتوبر میں کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ 130 سے بھی کم عسکریت پسند اب بھی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
27 اکتوبر 1947 جنوبی ایشیا کی تاریخ میں سیاہ باب ہے، اس دن بھارت نے جموں و کشمیر پر قبضے کے لیے فوج کشی کی۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کے سب سے زیادہ فوجی موجودگی والے علاقوں میں بدل دیا،کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر کی عوام بھارتی افواج کا وحشیانہ جبر برداشت کر رہے ہیں، اب تک ہزاروں بے گناہ کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ کشمیریوں کی اصل قیادت پابند سلاسل ہے، میڈیا کو بڑے پیمانے پر سنسر کیا جاتا ہے، جابرانہ ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیری عوام اپنی آزادی کی جدوجہد پر قائم ہیں۔ ہم بھارت کے جاری مظالم کی شدید مذمت کرتے ہیں، کشمیری عوام کی جدوجہد کے لیے غیرمتزلزل اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں، پاکستان کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ان کے حق خود ارادیت کے حصول تک کھڑا رہے گا۔ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیاں اور تنازعات کو نظرانداز کرنا دیرپا امن کی ضمانت نہیں، دنیا اب اپنی ذمہ داری کو مزید نظر انداز نہیں کر سکتی۔ عالمی برادری بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکے اور بھارت اقوام ِمتحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرے۔عالمی طاقتوں اور اداروں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر دو ایٹمی طاقتوں کے مابین بنیادی مسئلہ ہے۔ اگر خطے اور دنیا میں پائیدار امن کی طرف قدم بڑھانا ہے تو پھر عالمی طاقتوں اور اداروں کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کی طرف توجہ دینا ہو گی اور یہ مسئلہ کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق ہی حل ہونا چاہیے۔ دنیا کو نریندر مودی اور ان کے متعصب، امن دشمن اور جارحانہ سوچ کے حامل ساتھیوں کا محاسبہ کرنا ہو گا۔ آزادی کشمیریوں کا بنیادی حق ہے اور لاکھوں کشمیریوں کا آزادی جیسا بنیادی حق غضب کرنے والا ملک خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نہیں کہہ سکتا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شام میں اپوزیشن کی غیر متوقع پیش رفت وجود جمعرات 12 دسمبر 2024
شام میں اپوزیشن کی غیر متوقع پیش رفت

ہمارے حکمران عوامی مسائل سے بے خبرہیں! وجود جمعرات 12 دسمبر 2024
ہمارے حکمران عوامی مسائل سے بے خبرہیں!

فوج کی موجودگی سے کشمیریوں کی تعلیم متاثر وجود جمعرات 12 دسمبر 2024
فوج کی موجودگی سے کشمیریوں کی تعلیم متاثر

شام میں عوامی انقلاب اور پاکستان کے حالات وجود بدھ 11 دسمبر 2024
شام میں عوامی انقلاب اور پاکستان کے حالات

یہ رہبانیت ہے! وجود بدھ 11 دسمبر 2024
یہ رہبانیت ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر