... loading ...
ریاض احمدچودھری
مقبوضہ کشمیرمیں فوج کی بھاری تعداد میں موجودگی سے طلباء کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ بھارتی فوجی طلباء کے لیے تعلیم کا حصول آسان بنانے کی بجائے انہیں ہراساں کرتے اوران کی تذلیل کرتے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں فلاح عام ٹرسٹ کے زیر انتظام سینکڑوں اسکولوں پر پابندی ہے۔ اسکولوں میں مسلمان طلباء کو ہندو بھجن گانے اور سوریہ نمسکار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مودی حکومت کی تعلیمی پالیسی آر ایس ایس کے نظریے کی عکاس ہے۔ ضلع اسلام آباد میں ایک کشمیری کا رہائشی مکان قرق کرلیا گیا، شہری جاوید احمد بٹ پر منشیات فروشی کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا، قرق کی گئی املاک کی قیمت 50 لاکھ سے زائد بتائی جا رہی ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پینتیس سال سے شورش جاری ہے اور اس میں اب تک دسیوں ہزار شہری اور کشمیری عسکریت پسند شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں سال رواں کے دوران اب تک ہونے والی کم از کم 120 شہادتیں بھی شامل ہیں۔محترمہ مشعال حسین ملک نے کہا ہے کہ بھارت کشمیریوں کو خاموش کرنے کے لیے طرح طرح کے غیر انسانی حربے استعمال کر رہا ہے۔ بھارت غیر کشمیریوں کو وادی میں آباد کر کے غیر قانونی بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور کشمیری عوام کئی دہائیوں سے قابض افواج کے مظالم کا سامنا کر رہے ہیں لیکن بھارت سچائی کو دبانے میں ناکام رہا ہے۔ کشمیری نوجوانوں اور صحافیوں کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے سخت قوانین کا استعمال کیا جا رہا ہے، عالمی برادری کو آگے بڑھ کر نئی دہلی کو مقبوضہ علاقے میں اس کے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مودی کی زیرقیادت حکومت تمام سیاسی قیدیوں کو فوری طور پر رہا کرے اور کشمیری عوام کو اپنی مرضی کے مطابق قسمت کا فیصلہ کرنے دیں۔مشعال ملک نے اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں اور بھارتی ریاستی دہشت گردی کو روکنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کریں۔
بھارتی حکومت نے اس شورش زدہ علاقے میں اپنے ایک ملین سے زیادہ فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے 2019 میں اس مسلم اکثریتی خطے کی آئینی طور پر جزوی خود مختاری کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے تقریباً 12 ملین کی آبادی والے اس خطے میں نئی دہلی کی طرف سے مقرر کردہ ایک گورنر کی حکومت قائم کی گئی ۔نئی دہلی کا اصرار ہے کہ اس نے خطے میں ”امن، ترقی اور خوشحالی” لانے میں مدد کی۔ لیکن عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیری عسکریت پسندوں اور باغیوں کے چھوٹے گروہ، جو یا تو آزادی یا پھر بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرتے ہیں، ان بھارتی دعووں کا جواب حملوں سے دیتے ہیں۔ جنرل ریٹائرڈ ہوڈا نے کہا، ” ایک بڑا پیغام بھیجا جا رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ابھی زندہ ہے۔”کشمیر میں بہت سی جھڑپیں بڑی بستیوں سے دور پہاڑوں پر واقع جنگلوں میں ہوتی ہیں لیکن علاقے میں وسیع و عریض فوجی کیمپوں اور سڑکوں پر کھڑی کی گئی رکاوٹیں یہاں بڑی تعداد میں فوجی موجودگی کے حوالے سے ایک مستقل یاد دہانی کا کام کرتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کشمیر میں اوسطاً ہر 25 افراد پر تقریباً ایک ہندوستانی فوجی تعینات ہے۔ اس وجہ سے یہاں عام لوگوں کے معمولات زندگی بھی متاثر نظر آتے ہیں۔بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 720 عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں۔ علاقائی فوج کے کمانڈر ایم وی سچندر کمار نے گزشتہ ماہ اکتوبر میں کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ 130 سے بھی کم عسکریت پسند اب بھی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
27 اکتوبر 1947 جنوبی ایشیا کی تاریخ میں سیاہ باب ہے، اس دن بھارت نے جموں و کشمیر پر قبضے کے لیے فوج کشی کی۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کے سب سے زیادہ فوجی موجودگی والے علاقوں میں بدل دیا،کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر کی عوام بھارتی افواج کا وحشیانہ جبر برداشت کر رہے ہیں، اب تک ہزاروں بے گناہ کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ کشمیریوں کی اصل قیادت پابند سلاسل ہے، میڈیا کو بڑے پیمانے پر سنسر کیا جاتا ہے، جابرانہ ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیری عوام اپنی آزادی کی جدوجہد پر قائم ہیں۔ ہم بھارت کے جاری مظالم کی شدید مذمت کرتے ہیں، کشمیری عوام کی جدوجہد کے لیے غیرمتزلزل اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں، پاکستان کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ان کے حق خود ارادیت کے حصول تک کھڑا رہے گا۔ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیاں اور تنازعات کو نظرانداز کرنا دیرپا امن کی ضمانت نہیں، دنیا اب اپنی ذمہ داری کو مزید نظر انداز نہیں کر سکتی۔ عالمی برادری بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکے اور بھارت اقوام ِمتحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرے۔عالمی طاقتوں اور اداروں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر دو ایٹمی طاقتوں کے مابین بنیادی مسئلہ ہے۔ اگر خطے اور دنیا میں پائیدار امن کی طرف قدم بڑھانا ہے تو پھر عالمی طاقتوں اور اداروں کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کی طرف توجہ دینا ہو گی اور یہ مسئلہ کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق ہی حل ہونا چاہیے۔ دنیا کو نریندر مودی اور ان کے متعصب، امن دشمن اور جارحانہ سوچ کے حامل ساتھیوں کا محاسبہ کرنا ہو گا۔ آزادی کشمیریوں کا بنیادی حق ہے اور لاکھوں کشمیریوں کا آزادی جیسا بنیادی حق غضب کرنے والا ملک خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نہیں کہہ سکتا۔