... loading ...
ریاض احمدچودھری
محترم لیاقت بلوچ، نائب امیر جماعت اسلامی، پاکستان نے کہا ہے کہ شام میں اسد خاندان کے 54 سالہ اقتدار کا ہی خاتمہ نہیں ہوا عالمی اسٹیبلشمنٹ اور استعماری قوتوں کا آلہ کار غاصب خاندان اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ دنیا بھر کے حکمران شامی اسد خاندان کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔ پاکستان کی قومی سیاست کو بھی خاندانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے شکنجے سے آزاد کرانا پاکستان کی سلامتی، وحدت اور استحکام کے لیے ضروری ہوگیا ہے۔ شام میں غاصب حکمران خاندان سے اقتدار طاقت کے ذریعے چھین لیا گیا۔اقتدار بچانے کے لیے پْرامن انسانوں کے قتلِ عام کا فلسفہ خود بْرے انجام سے دوچار ہوا۔ شام میں اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے والوں کو ماضی سے سبق اور شامی عوام کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا جمہوری حق تسلیم کرلیا جائے گا۔
شام کو نئی جنگ اور عالمی استعماری قوتوں کی کشمکش کی آماجگاہ نہ بننے دیا جائے۔ عوام کا آزادانہ جمہوری فیصلہ ہی شام کی طاقت بنے گا۔سعودی عرب، ترکی اور ایران مشترکہ کوششوں سے شام کو مستحکم کرنے اور شام کی اکثریتی عوام کو اعتماد دینے کا کردار ادا کریں۔ پاکستان اندرونی سیاسی، اقتصادی استحکام کے ذریعے ہی عالمِ اسلام اور عالمی محاذ پر مضبوط کردار ادا کرسکتا ہے۔صدر بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے شامی باغیوں کی تحریک حیات تحریر الشام نے 27اکتوبر کو جس بغاوت کا آغاز کیا تھا ،وہ 8دسمبر کو دارالحکومت دمشق پر قبضے سے مکمل فتح پر منتج ہوئی۔جس کے بعد صدر بشار الاسد فرار ہوکر روس پہنچ گئے،جس نے انھیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیاسی پناہ دی ہے۔اسرائیل نے موقع سے فائدہ اٹھاکر نہ صرف جولان میں شام کے علاقے پر قبضہ کرلیا بلکہ دمشق پر فضائی حملہ کرکے اسلحہ کے ذخائر تباہ کردئے۔امریکہ نے اس کی پوری مدد کی اور اس کی فضائیہ نے بھی وسطی شام میں 57تابڑتوڑ فضائی حملے کرکے شامی فوج کی قوت مزاحمت کو کچل دیا۔اس طرح باغی تحریک کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے ،جن کا اصل نام احمد الشرع ہیاور جو ماضی میں القاعدہ کے ساتھ وابستہ رہے ہیں ،دمشق پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور عہد کیا ہے کہ اس عظیم فتح کے بعد وہ شام کی نئی تاریخ رقم کریں گے۔
بشار الاسد کے وزیراعظم کو باغیوں نے برقرار رکھا ہے جو فی الحال ملک کا نظم ونسق چلائیں گے۔بشار الاسد کے فرار کے بعد شامی فوج نے اپنی وردیاں اتار پھینکیں اور شہریوں نے باغیوں کے ساتھ مل کر فتح کا جشن منایا۔صدارتی محل،سرکاری عمارات اور بڑے شاپنگ سینٹروں میں لوٹ مار کے مناظر دیکھے گئے۔نئے رہنما ابو محمد الجولانی نے جنگجوئوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ سرکاری اداروں پر قبضہ نہ کریں جبکہ سابق صدر کے حامی ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ کے ہزاروں ارکان شام سے چلے گئے ہیں۔شام میں الاسد خاندان 50 سال سے زائد عرصے تک برسراقتدار رہا، بشار الاسد کو اقتدار اپنے طاقتور فوجی والد سے وراثت میں ملا جو 1971 ئ سے لے کر جون 2000 ء میں اپنی موت تک برسر اقتدار رہے۔ جولائی 2000ء ، طب کے سابق طالبعلم بشار الاسد شام کے صدر، بعث پارٹی کے سربراہ اور فوج کے کمانڈر اِن چیف بن گئے۔11 سال بعد عرب بہار کے نتیجے میں شامی عوام جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلے تو بشار الاسد نے سخت کریک ڈاون کیا۔جیسے جیسے مزید شامی مظاہروں میں شامل ہوتے گئے، ویسے ویسے مخالفین کی اکثریت کو دہشت گرد قرار دینے والے صدر بشار الاسد طاقت کا استعمال بڑھاتے گئے جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔اس کے بعد کے برسوں میں لاکھوں شامی جاں بحق ہوئے اور بشار الاسد پر شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عاید کیا گیا۔جنگ کے سائے میں انہوں نے حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں انتخابات کرائے جنہیں بہت سے لوگوں نے غیر جمہوری قرار دے کر مسترد کر دیا۔جنگ کبھی نہ جیتنے کے باوجود بشار الاسد اپنے پیروکاروں بشمول اقلیتی علوی سیاسی جماعت کی حمایت سے اقتدار پر محدود طور پر قائم رہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے شام گیئر پیڈرسن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ شام کی تاریخ میں ایک اہم لمحہ ہے – ایک ایسی قوم جس نے تقریباً 14 سال کے انتھک مصائب اور ناقابل بیان نقصان کو برداشت کیا ہے۔ اس سیاہ باب نے گہرے داغ چھوڑے ہیں، لیکن آج ہم محتاط امید کے ساتھ ایک نئے آغاز کے منتظر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال شامیوں کی واضح خواہش کی نشاندہی کرتی ہے کہ مستحکم اور جامع عبوری انتظامات کیے جائیں۔ تمام شامی بات چیت، اتحاد اور بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق کے احترام کو ترجیح دیں۔ ہم ایک مستحکم اور جامع مستقبل کی جانب سفر میں شامی عوام کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایڈ چیف ٹام فلیچر نے کہا کہ شام میں واقعات قابل ذکر رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایک دہائی سے زیادہ کے تنازع نے لاکھوں افراد کو بے گھر کیا ہے۔ اب بہت سے لوگ خطرے میں ہیں۔ ہم ضرورت مند لوگوں کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ وائٹ ہاؤس سے اس حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے کہ، صدر بائیڈن اور ان کی ٹیم شام میں ہونے والے غیر معمولی واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ بشار الاسد اپنے ملک سے فرار ہو گیا۔ اس کا محافظ ولادیمیر پیوٹن کی قیادت میں روس تھا۔ روس اور ایران اس وقت کمزور حالت میں ہیں اور اب وہ اس کی (بشار الاسد) کی حفاظت میں دلچسپی نہیں رکھتے۔یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیین نے کہا ہے کہ ظالم اسد کی آمریت کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ خطے میں یہ تاریخی تبدیلی مواقع فراہم کرتی ہے لیکن خطرات سے خالی نہیں ہے۔ یورپ قومی اتحاد کے تحفظ اور تمام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے والی شامی ریاست کی تعمیر نو میں مدد کے لیے تیار ہے۔