... loading ...
اسلام آباد: آئی ایم ایف نے حکومت سے حاضرسروس ملازمین کو کنٹری بیوشن پنشن اسکیم میں لانے کا مطالبہ کردیا۔
زرایع کے مطابق ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حاضر سروس ملازمین کو نئے بھرتی ہونے والوں کی طرز پر کنٹری بیوشن پنشن سکیم کا حصہ بنایا جائے، اس مطالبے کے بعد وزارت خزانہ نے حاضر سروس ملازمین کو کنٹری بیوٹری پنشن سکیم میں شامل کرنے پر کام شروع کردیا، اس کے علاوہ ایک دہائی سے زائد فریز فیڈرل سیکرٹریٹ الاؤنس کو بحال کرنے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ 55 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کی تجویز پر وزیراعظم شہباز شریف کو بریفنگ دی گئی، تاہم اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا، 55 سال کی ریٹائرمنٹ کا اگر فیصلہ ہوا تو اس کا اطلاق صرف سول ملازمین پر ہوگا
اجلاس میں وزیراعظم کو 55 سال کی ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی حد مقرر کرنے پر مثبت رسپانس نہیں ملا، کیوں کہ اگر ریٹائرمنٹ کے لیے اس عمر کا تعین کیا گیا تو اس وقت متعدد بیوروکریٹس ریٹائر ہوجائیں گے اسی لیے بیوروکریسی ریٹائرمنٹ کے لیے 55 سال کی عمر کا تعین کرنے کی خواہشمند نہیں۔
وفاقی حکومت اس وقت سول اداروں کے پنشنرز کو 260 ارب روپے اور مسلح افواج کے پنشنرز کو 750 ارب روپے کی پنشن ادا کررہی ہے، حکومت کے بیورو کریسی کو چلانے کی لاگت سے زیادہ پنشن پر خرچ ہورہا ہے کیوں کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران وفاقی حکومت کے پنشن اخراجات میں تقریباً 4 اعشاریہ 4 گنا اضافہ ہوا، اس کے برعکس سول حکومت کے آپریشنل اخراجات میں 2 اعشاریہ 7 گنا اضافہ ہوا، حکومت کو وسیع تر پنشن اصلاحات کے حصے کے طور پر اپنے ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا۔
ریٹائرمنٹ کی عمر کو مرحلہ وار کم کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ علیحدگی کے اخراجات میں ابتدائی اضافے کا انتظام کیا جا سکے، پبلک سیکٹر کارپوریشنز، ریگولیٹری اتھارٹیز اور پروفیشنل کونسلز کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں اسی طرح کی کٹوتی کریں، متعلقہ ادارے وفاقی وسائل پر انحصار کیے بغیر ان اصلاحات کی مالی لاگت کا انتظام کریں گے۔
وفاقی حکومت نے کئی پنشن اصلاحات نافذ کی ہیں، جن میں سب سے قابل ذکر رواں مالی سال سے نئے سول سرکاری ملازمین اور اگلے مالی سال سے نئی فوجی بھرتیوں کے لیے کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ سکیم ہے، جس میں وفاقی ملازمین اپنی بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد حصہ ڈالیں گے اور حکومت فنڈ میں 20 فیصد حصہ ڈالے گی، حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی اصلاحات میں پنشن کا حساب لگانے کا نظر ثانی شدہ فارمولا، قبل از وقت رضاکارانہ ریٹائرمنٹ پر جرمانے، متعدد پنشنوں کا خاتمہ، فیملی پنشن کے نظام میں تبدیلی اور مستقبل میں اضافے کے طریقہ کار وغیرہ شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنشن کی ذمہ داریاں بڑی حد تک فنڈز سے محروم ہیں، گزشتہ دہائی کے دوران فوجی پنشن سمیت وفاقی پنشن اخراجات میں 5 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا جب کہ اسی عرصے کے دوران ٹیکس محصولات میں صرف 2 اعشاریہ 7 گنا اضافہ ہوا-
پنشن کے واجبات میں اضافہ عوامی محصولات میں اضافے سے بھی زیادہ ہے، جو وفاقی حکومت کی خالص محصولات کی وصولیوں کا 12 فیصد استعمال کر رہا ہے یہ ایک دہائی قبل 8 اعشاریہ 9 فیصد تھا۔