وجود

... loading ...

وجود

بھارتی پولیس کسانوں پر ٹوٹ پڑی

پیر 09 دسمبر 2024 بھارتی پولیس کسانوں پر ٹوٹ پڑی

ریاض احمدچودھری

بھارت میںکسان یونینز اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کی دہلی چلو تحریک 6 دسمبر سے دوبارہ شروع ہو گئی، “دہلی چلو مارچ” کسان مزدور مورچہ اور کسان یکجہتی مورچہ کے زیر اہتمام ہو رہا ہے۔ہریانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مزاحمت کے بعد کسانوں نے ٹریکٹر کی بجائے چھوٹے جتھوں میں دہلی پیدل جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کسانوں کے “دہلی چلو” مارچ کے پیش نظر دارالحکومت کی سرحدوں اور اس سے متصل پورے علاقے میں سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔
بھارت میں کسانوں کے ‘دہلی چلو’ مارچ پر پولیس ٹوٹ پڑی۔ جھڑپوں میں 8 کسان زخمی ہوگئے جبکہ آنسو گیس کے استعمال سے کئی کسانوں کی حالت خراب ہوگئی۔ پولیس نے کسانوں کو دہلی سے 2 سو کلو میٹر دور پنجاب اور ہریانہ کی سرحد پر شمبھو کے مقام پر روکنے کی کوشش کی جس کے باعث ہائی وے پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ کسانوں کی جانب سے حکومت سے قرض معافی کی ضمانت، کسانوں کی ریاستی مدد اور آمدن بڑھانے کا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ہریانہ کے سرحدی ضلع انبالہ میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔پولیس سے ہونے والی جھڑپوں کے بعد کسانوں نے دہلی کی جانب اپنا مارچ بھی روک دیا ہے۔
کسان رہنما سرون سنگھ پانڈھر کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کسانوں کے جائز مطالبات کو نظرانداز کر رہی ہے حالانکہ کسان گزشتہ 10 مہینوں سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں، ہم نے احتجاج دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ہریانہ پولیس کو آگاہ کیا کہ ہمارا مارچ پرامن ہوگا۔ وزیر مملکت برائے ریلوے روینت سنگھ بٹّو اور ہریانہ کے وزیر زراعت نے کسانوں کو دہلی پیدل جانے کا اشارہ دیا، وقت آگیا ہے حکومت وعدوں کو پورا کرے، اگر دہلی جانے کی اجازت نہ ملی تو تصادم ہوگا۔خیال رہے کہ اس سے قبل فروری میں کسانوں کی دہلی جانے کی پہلی کوشش ہریانہ میں سکیورٹی فورسز کی سخت مزاحمت کا شکار ہوئی جس میں کئی کسان ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
بھارت میں “دہلی چلو مارچ” کسانوں کے اتحاد اور مودی سرکار کی زرعی پالیسی میں کی جانے والی ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت کی علامت بنی ہوئی ہے، مودی سرکار کسان مارچ تحریک اور آزادی حق رائے کا گلا گھو نٹ کر اپنی انتہا پسندانہ پالیسیوں کو پروان چڑھانا چاہتی ہے۔ ہزاروں احتجاج کرنے والے بھارتی کسانوں کو سیکورٹی فورسز کے تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، نہنگ سکھوں کے تحفظ میں آ گئے ہیں۔سکھ کسان رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ہریانہ پولیس نے شمبھو اور کھنوری میں پولیس کی رکاوٹوں کو توڑنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے نہتے عوام پر آنسو گیس کے گولے برسائے۔دوسری جانب بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی کسانوں کے مطالبات پر غور کرنے میں ناکامی پر مرکزی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔مودی سرکار کی جانب سے احتجاج کو مہرہ بنا کر بھارت کے سات اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولیات پر مکمل پابندی عائد کی گئی، اس اقدام کے خلاف پنجاب سے باہر بھی کسان یونینز نے احتجاج کو وسیع کرنے کی کال دے دی۔
کسانوں نے شمبھو سرحد پر پولسی کی جانب سے لگائے جانے والے بریکیڈس ہٹا دیئے تھے۔ہریانہ حکومت نے کسانوں کے احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے امبالہ ضلع کے 11 گاؤں میں9دسمبر تک موبائل انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات معطل کی ہیں۔ یہ پابندیاں امبالا کے لوہگڑھ، دادیانا، مانک پور، سلطان پور، ککرو گاؤں ، دیوی نگر، لہارس، کالومجرہ اور دیگر گاؤں میں لگائی گئی ہیں۔کسان اپنے مطالبات منوانے کیلئے احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کے مطالبات میں ایم ایس پی پر قانونی گرینٹی، بجلی کے نرخوں میں کوئی اضافہ نہیں،کسانوں کے قرض معاف کرنا، کسانون اور دیگر ملازمین کیلئے معاوضہ اور لکھیم پوری تشدد کے متاثرین کیلئے انصاف شامل ہیں۔ کسانوں کے احتجاج کے پیش نظر شمبھو سرحد پر سیکورٹی سخت کی گئی ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ ہم پریشان ہیں، انتہائی پریشان ہیں، ہمارے بچے بھوک سے مر جائیں گے، اس سے بڑی پریشانی اور کیا ہوسکتی ہے۔ نئی زرعی اصلاحات کے تحت بڑی بڑی کارپوریشنز قیمتیں کم کردیں گی اور ان کا روزگار تباہ ہوجائے گا۔متعارف کروائے گئے قوانین کے تحت کسانوں کو اپنی فصل کم سے کم قیمت کی ضمانت دینے والی سرکاری تنظیموں کے بجائے اوپن مارکٹ بشمول سپرمارکیٹ چینز میں فروخت کرنے کی اجازت دی جائے گی۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کی صنعت کو بڑی کمپنیاں قبضے میں لے لیں گی جو قیمتوں کو کم کرنے پر مجبور کریں گی۔سونی پت زرعی مارکیٹ تاجروں کی ایسوسی ایشن کے صدر پاون گوئل کے مطابق حکومت کچھ کمپنیوں خواہ وہ بھارتی ہوں ہو یا غیر ملکی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کسانوں کو گمراہ کررہی ہے۔ اگر یہ قانون مستقبل میں جاری رہتا ہے تو کسان، مزدوروں تک محدود ہوجائیں گے اور صرف بڑی کمپنیوں کے ورکرز بن جائیں گے۔تاہم حکومت کا اصرار ہے کہ یہ تبدیلیاں زراعت کے لیے ضروری ہیں جو اب تک بھارت کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔کسانوں کا ایک اہم مطالبہ یہ ہے کہ ان کی پیداوار کی کم از کم قیمت خرید کا جو سابقہ نظام تھا اسے برقرار رکھا جائے۔ کسان حکومت کی طرف سے ہر طرح کی یقین دہانی تحریری شکل میں دینے کا بھی مطالبہ کررہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ترقی کا پیمانہ وجود جمعه 17 جنوری 2025
ترقی کا پیمانہ

طالبان اور خطے کے ممالک: ایک نئی تزویراتی حقیقت وجود جمعه 17 جنوری 2025
طالبان اور خطے کے ممالک: ایک نئی تزویراتی حقیقت

بھارت میں جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ وجود جمعه 17 جنوری 2025
بھارت میں جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ

لاس اینجلس پلک جھپکتے راکھ میں بدل گیا! وجود جمعرات 16 جنوری 2025
لاس اینجلس پلک جھپکتے راکھ میں بدل گیا!

مسائل کا بہتر حل وجود جمعرات 16 جنوری 2025
مسائل کا بہتر حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر