وجود

... loading ...

وجود

گولی چلنے کی بحث اور نیا وزیراعظم؟

پیر 09 دسمبر 2024 گولی چلنے کی بحث اور نیا وزیراعظم؟

رفیق پٹیل

پاکستان کے موجودہ حالات خصوصاًملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں ان خدشات میں مزید اضافہ ہورہا ہے کہ عوام کا جمہوریت ، جمہوری اداروں اور عدلیہ پر اعتماد ختم ہورہا ہے جس کی وجہ دہشت گرد تنظیمیں ، انتہا پسند قوتّیں اور عسکریت پسند گروہ نوجوانوں کو جمہوریت سے مزید برگشتہ کرکے اپنی جانب راغب کریں گے جس سے انتشار اور بدترین عدم استحکام جنم لے سکتا ہے جو ایک بہت بڑا المیہ ہوگا۔
ملک میں فوری طور پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے عوام میں جمہوریت اور جمہوری اداروں پر اعتماد بحال ہو ۔یہ بہت خوش آئند ہے کہ بعض نئے اعلانات کے مطابق حکومت سچ کو پروان چڑھائے گی اور جھوٹ کو بے نقاب کرے گی۔ اس لیے امید ہے کہ اس سال فروری میں ہونے والے انتخابات کے نتائج میںجس طرح کی ہیرا پھیری اور فراڈ کا الزام دنیا بھر کے میڈیا اور اپو زیشن کی سیاسی جماعتوںکی جانب سے لگایا گیا ہے۔ اس کی شفاف تحقیقات کرکے عوام کے سامنے اصل حقائق پیش کیے جائیں گے حکومت سرخرو ہوکر دنیا بھر کے میڈیا کی جانب سے لگایا گیا فراڈ الیکشن کا داغ دھو ڈالے گی اور دنیا کے میڈیا ہائوس کے الزامات کی نفی کرتے ہوئے ہرجا نے کا مطالبہ کرے گی دیگر صورت یہ کیسے ممکن ہے الیکشن چوری کے اس الزام سے پیچھاچھڑایا جائے کیا عوام اس بات کو سچ تسلیم کر لیں گے کہ انتخابات شفّاف تھے اور موجودہ پارلیمنٹ عوام کی حقیقی نمائندہ ہے؟ مولانا فضل الرحمان آج کل سب سے زیادہ زور دے کر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ عوام کی حقیقی نمائندہ نہیں ہے وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دولت کے ذریعیاسمبلیاں خریدی گئی ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو ایسی پارلیمنٹ اور اس کی کارروائی کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کیا ہے اس کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے جائز ہونے کافیصلہ کون کرے گا؟ کیا یہ جھوٹ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر حکومت کے خلاف انتخابی دھاندلی پر بات کرنے پر پابندی لگا ئی گئی۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا موقف پوری طرح پیش نہیںکرنے دیا جاتا ؟ حکومت کو یہ سچ سامنے لانا ہوگا کہ کس بات کی اجازت ہے کیا بات ممنوعہ قرار دی گئی ہے۔ حکومت کو ملکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں ، ایمینسٹی انٹر نیشنل اور دیگر اداروں کی جانب سے لگائے گئے۔ الزامات خصوصاً انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں رپورٹس میں کی جانے والی نشاندہی کے بارے ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت سامنے لانے ہونگے تاکہ ان عالمی تنظیموں کے الزامات کی صحیح معنوں میں نفی کی جا سکے۔ محض یہ کہنا کہ ہم سچ کہہ رہ ہیں یہ سب الزامات جھوٹ ہے کا فی نہیں ہے۔ اگر سچ کو سامنے لایا جائے تو لوگوں کو بی بی سی ،سی این این ،الجزیرہ اور دیگرمیڈیا سے معلوما حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ سچ کو چھپانے کی وجہ سے غیرملکی میڈیا اور سوشل میڈیا کی جانب لوگ راغب ہوتے ہیں اور مقامی میڈیا پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں۔ حال ہی میں ڈی چوک پر مظاہرین پر فائرنگ کے بارے میں حکومت کا موقف سامنے آیا کہ مظاہرین پر سیکورٹی اداروں نے فائرنگ نہیں کی۔ اس کے برعکس دنیا بھر کے معتبر میڈیا نے الزام عائد کیا کہ فائرنگ ہوئی لوگوں کی جانیں گئیں اور لاشوں کو غائب کیا گیا۔ اگر فوری طور پر حقائق سامنے لائے جاتے تو مسئلہ اس قدر نہ الجھتا۔ اب ایسی بحث شروع ہوگئی ہے جس کو روکنے کے جو اقدامات کیے جارہے ہیں وہ لاحاصل ہونگے ۔ا ن اقدامات سے اس بحث کا دائرہ کار مزید پھیل جائے گا اس کے عالمی سطح پراثرات سے پاکستان مزید دبائو کا شکار ہوگا۔ اس مسئلے کا واحد حل ایسا سیاسی عمل ہے جس میں عوام کی خواہشات کا احترام شامل ہو پاکستان عوام کو سیاسی عمل سے علیحدہ کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پر اختیارات سے تجاوز انتظامی طریقہ کارکے ذریعے غیر اعلانیہ پابندی لگانے سے ملک سیاسی اورمعاشی عدم استحکام کے دلدل میںدھنستا ہی چلا جارہا ہے۔ غلط سمت میں پاکستان کا سفر نقصان دہ ہے۔
پاکستان میں کثیر الجماعتی نظام کا خاتمہ بھی نہیں کیا جاسکتا نہ ہی پاکستان کے آئین کو ختم کرکے تمام سیاسی جماعتوں کو کسی ایک سرکاری سیا سی جماعت میںضم کرکے ایک جماعتی نظام قائم کیا جاسکتا ہے۔ ایک ایسی جماعت جو مسلسل عوامی حمایت سے محرومی کی وجہ سے قریب المرگ ہو اپنا وجود کھو رہی ہے۔ انتخابات کا نام سن کر اس کے رہنمائوں پر کپکپی طاری ہو جاتی ہو ایسی جماعت جو عوامی مینڈیٹ سے محرومی کے باعث عملاً ایک سیاسی لاش کی حیثیت اختیار کر چکی ہواسے انتظامی سہارے سے زندہ رکھنے کی کوشش مردہ گھوڑے کو انجکشن لگا کر زندہ کرنے کی ناکام کو شش ہے ،جس کے بوجھ کی وجہ سے پورا انتظامی ڈھانچہ بری طرح سے متاثر ہورہاہے۔ اس کی مثال ایک ایسے بڑے برتن کی ہے جس میں سے بھری ہوئی بدنامی کی کالی سیاہی باہر آرہی ہے اور جس نے بھی یہ برتن سر پر اٹھا رکھاہے اس پر سیاہی چھلک کر گررہی ہے ۔اس کے کپڑے اور جسم پر سیاہی اس لیے صاف نہیں ہورہی ہے کہ اس برتن کو علیحدہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔حکمران طبقہ یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت ٹی وی میں بیان کردہ سرکاری موقف کو سننا ہی نہیں چاہتی یا اسے جھوٹ تصّور کرتی ہے اور اس کے برعکس موقف پر یقین کرتی ہے۔ پاکستان میں ماضی میں سنسر لگا کر خبروں پر پابند لگائی گئی تھی۔ نتیجہ یہ ہواتھا کہ فٹ پاتھوں اور گلیوں محلّوں میں غیر ملکی ریڈیوکی خبر سننے کے لیے ہجوم جمع ہوجاتے تھے ۔لوگوں کا حکومت پر اعتماد اسی وقت قائم ہوتا ہے جب وہ عوام کی امنگوں کی ترجمان ہوتی ہے اور اسے عوامی مینڈیٹ حاصل ہوتا ہے ۔اگر معا ملہ اس کے برعکس ہو ،ساتھ ہی لوگوں کومہنگائی ،بے روزگاری،کاروبار میں کمی،بڑھتی ہوئی غربت ،صحت ،تعلیم ، ٹرانسپورٹ کی سہولیا ت میں کمی اور امن و امان کے مسائل کا بھی سامناہو وہ یہ محسوس کررہے ہوں کہ وہ بنیادی حقوق سے محروم ہو رہے ہوں، ایسی صورت میں پابندیاں مزید پیچیدگی اور مسائل کو جنم دیں گی۔
سب سے بہتر طریقہ کار یہ ہے کہ دنیا کی کامیاب جمہوری حکومتوں کے نظام سے سبق حاصل کیا جائے ۔جمہوریت کے علاوہ دوسراکوئی طریقہ کار اگر مسئلے کا حل ہوتا تو دنیا سے بادشاہت کا نظام ختم نہ ہوتا ۔ہم شمالی کوریا نہیںبن سکتے پاکستان کو ایک شفاف جمہوری نطام سے ہی خوشحالی کی جانب آگے بڑھایا جا سکتاہے۔ طاقتور اشرافیہ کو بھی اس کا احساس کرنا ہوگا کہ حکمران طبقات کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی نفرت خطرناک رخ بھی اختیا ر کرسکتی ہے۔ ایسی صورت میں نقصان زیادہ ہوگا۔ بعض مبصّرین کا خیا ل یہ ہے کہ اعلیٰ سطحی حلقوں اور فیصلہ ساز بھی موجودہ حکمراں جماعت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیںاور متبادل کے طور پر بلاول بھٹو یا کسی اور کو وزیر اعظم بنانے کے لیے اتفاق رائے پر مبنی کسی فامولے کی تلاش میں ہے جس میں ڈی چوک اسلام آباد کے سانحے کا حل بھی موجود ہو۔عرصہ دراز سے خصوصاً گزشتہ تین سالوں
میں جو اقدامات ہوئے ہیں وہ ایک ملبے کے ڈھیرکی شکل میں موجود ہے ۔اس کی صفائی انتہائی مشکل عمل ضرور ہے۔ امید ہے کہ داشمندانہ فیصلے ہونگے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لاس اینجلس پلک جھپکتے راکھ میں بدل گیا! وجود جمعرات 16 جنوری 2025
لاس اینجلس پلک جھپکتے راکھ میں بدل گیا!

مسائل کا بہتر حل وجود جمعرات 16 جنوری 2025
مسائل کا بہتر حل

بھارتی مذہبی اقلیتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں وجود جمعرات 16 جنوری 2025
بھارتی مذہبی اقلیتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

عشق حقیقی وجود بدھ 15 جنوری 2025
عشق حقیقی

جیل کی موت یا کٹھ پتلی وزیر اعظم وجود بدھ 15 جنوری 2025
جیل کی موت یا کٹھ پتلی وزیر اعظم

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر