... loading ...
رفیق پٹیل
پاکستان کے موجودہ حالات خصوصاًملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں ان خدشات میں مزید اضافہ ہورہا ہے کہ عوام کا جمہوریت ، جمہوری اداروں اور عدلیہ پر اعتماد ختم ہورہا ہے جس کی وجہ دہشت گرد تنظیمیں ، انتہا پسند قوتّیں اور عسکریت پسند گروہ نوجوانوں کو جمہوریت سے مزید برگشتہ کرکے اپنی جانب راغب کریں گے جس سے انتشار اور بدترین عدم استحکام جنم لے سکتا ہے جو ایک بہت بڑا المیہ ہوگا۔
ملک میں فوری طور پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے عوام میں جمہوریت اور جمہوری اداروں پر اعتماد بحال ہو ۔یہ بہت خوش آئند ہے کہ بعض نئے اعلانات کے مطابق حکومت سچ کو پروان چڑھائے گی اور جھوٹ کو بے نقاب کرے گی۔ اس لیے امید ہے کہ اس سال فروری میں ہونے والے انتخابات کے نتائج میںجس طرح کی ہیرا پھیری اور فراڈ کا الزام دنیا بھر کے میڈیا اور اپو زیشن کی سیاسی جماعتوںکی جانب سے لگایا گیا ہے۔ اس کی شفاف تحقیقات کرکے عوام کے سامنے اصل حقائق پیش کیے جائیں گے حکومت سرخرو ہوکر دنیا بھر کے میڈیا کی جانب سے لگایا گیا فراڈ الیکشن کا داغ دھو ڈالے گی اور دنیا کے میڈیا ہائوس کے الزامات کی نفی کرتے ہوئے ہرجا نے کا مطالبہ کرے گی دیگر صورت یہ کیسے ممکن ہے الیکشن چوری کے اس الزام سے پیچھاچھڑایا جائے کیا عوام اس بات کو سچ تسلیم کر لیں گے کہ انتخابات شفّاف تھے اور موجودہ پارلیمنٹ عوام کی حقیقی نمائندہ ہے؟ مولانا فضل الرحمان آج کل سب سے زیادہ زور دے کر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ عوام کی حقیقی نمائندہ نہیں ہے وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دولت کے ذریعیاسمبلیاں خریدی گئی ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو ایسی پارلیمنٹ اور اس کی کارروائی کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کیا ہے اس کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے جائز ہونے کافیصلہ کون کرے گا؟ کیا یہ جھوٹ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر حکومت کے خلاف انتخابی دھاندلی پر بات کرنے پر پابندی لگا ئی گئی۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا موقف پوری طرح پیش نہیںکرنے دیا جاتا ؟ حکومت کو یہ سچ سامنے لانا ہوگا کہ کس بات کی اجازت ہے کیا بات ممنوعہ قرار دی گئی ہے۔ حکومت کو ملکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں ، ایمینسٹی انٹر نیشنل اور دیگر اداروں کی جانب سے لگائے گئے۔ الزامات خصوصاً انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں رپورٹس میں کی جانے والی نشاندہی کے بارے ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت سامنے لانے ہونگے تاکہ ان عالمی تنظیموں کے الزامات کی صحیح معنوں میں نفی کی جا سکے۔ محض یہ کہنا کہ ہم سچ کہہ رہ ہیں یہ سب الزامات جھوٹ ہے کا فی نہیں ہے۔ اگر سچ کو سامنے لایا جائے تو لوگوں کو بی بی سی ،سی این این ،الجزیرہ اور دیگرمیڈیا سے معلوما حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ سچ کو چھپانے کی وجہ سے غیرملکی میڈیا اور سوشل میڈیا کی جانب لوگ راغب ہوتے ہیں اور مقامی میڈیا پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں۔ حال ہی میں ڈی چوک پر مظاہرین پر فائرنگ کے بارے میں حکومت کا موقف سامنے آیا کہ مظاہرین پر سیکورٹی اداروں نے فائرنگ نہیں کی۔ اس کے برعکس دنیا بھر کے معتبر میڈیا نے الزام عائد کیا کہ فائرنگ ہوئی لوگوں کی جانیں گئیں اور لاشوں کو غائب کیا گیا۔ اگر فوری طور پر حقائق سامنے لائے جاتے تو مسئلہ اس قدر نہ الجھتا۔ اب ایسی بحث شروع ہوگئی ہے جس کو روکنے کے جو اقدامات کیے جارہے ہیں وہ لاحاصل ہونگے ۔ا ن اقدامات سے اس بحث کا دائرہ کار مزید پھیل جائے گا اس کے عالمی سطح پراثرات سے پاکستان مزید دبائو کا شکار ہوگا۔ اس مسئلے کا واحد حل ایسا سیاسی عمل ہے جس میں عوام کی خواہشات کا احترام شامل ہو پاکستان عوام کو سیاسی عمل سے علیحدہ کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پر اختیارات سے تجاوز انتظامی طریقہ کارکے ذریعے غیر اعلانیہ پابندی لگانے سے ملک سیاسی اورمعاشی عدم استحکام کے دلدل میںدھنستا ہی چلا جارہا ہے۔ غلط سمت میں پاکستان کا سفر نقصان دہ ہے۔
پاکستان میں کثیر الجماعتی نظام کا خاتمہ بھی نہیں کیا جاسکتا نہ ہی پاکستان کے آئین کو ختم کرکے تمام سیاسی جماعتوں کو کسی ایک سرکاری سیا سی جماعت میںضم کرکے ایک جماعتی نظام قائم کیا جاسکتا ہے۔ ایک ایسی جماعت جو مسلسل عوامی حمایت سے محرومی کی وجہ سے قریب المرگ ہو اپنا وجود کھو رہی ہے۔ انتخابات کا نام سن کر اس کے رہنمائوں پر کپکپی طاری ہو جاتی ہو ایسی جماعت جو عوامی مینڈیٹ سے محرومی کے باعث عملاً ایک سیاسی لاش کی حیثیت اختیار کر چکی ہواسے انتظامی سہارے سے زندہ رکھنے کی کوشش مردہ گھوڑے کو انجکشن لگا کر زندہ کرنے کی ناکام کو شش ہے ،جس کے بوجھ کی وجہ سے پورا انتظامی ڈھانچہ بری طرح سے متاثر ہورہاہے۔ اس کی مثال ایک ایسے بڑے برتن کی ہے جس میں سے بھری ہوئی بدنامی کی کالی سیاہی باہر آرہی ہے اور جس نے بھی یہ برتن سر پر اٹھا رکھاہے اس پر سیاہی چھلک کر گررہی ہے ۔اس کے کپڑے اور جسم پر سیاہی اس لیے صاف نہیں ہورہی ہے کہ اس برتن کو علیحدہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔حکمران طبقہ یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت ٹی وی میں بیان کردہ سرکاری موقف کو سننا ہی نہیں چاہتی یا اسے جھوٹ تصّور کرتی ہے اور اس کے برعکس موقف پر یقین کرتی ہے۔ پاکستان میں ماضی میں سنسر لگا کر خبروں پر پابند لگائی گئی تھی۔ نتیجہ یہ ہواتھا کہ فٹ پاتھوں اور گلیوں محلّوں میں غیر ملکی ریڈیوکی خبر سننے کے لیے ہجوم جمع ہوجاتے تھے ۔لوگوں کا حکومت پر اعتماد اسی وقت قائم ہوتا ہے جب وہ عوام کی امنگوں کی ترجمان ہوتی ہے اور اسے عوامی مینڈیٹ حاصل ہوتا ہے ۔اگر معا ملہ اس کے برعکس ہو ،ساتھ ہی لوگوں کومہنگائی ،بے روزگاری،کاروبار میں کمی،بڑھتی ہوئی غربت ،صحت ،تعلیم ، ٹرانسپورٹ کی سہولیا ت میں کمی اور امن و امان کے مسائل کا بھی سامناہو وہ یہ محسوس کررہے ہوں کہ وہ بنیادی حقوق سے محروم ہو رہے ہوں، ایسی صورت میں پابندیاں مزید پیچیدگی اور مسائل کو جنم دیں گی۔
سب سے بہتر طریقہ کار یہ ہے کہ دنیا کی کامیاب جمہوری حکومتوں کے نظام سے سبق حاصل کیا جائے ۔جمہوریت کے علاوہ دوسراکوئی طریقہ کار اگر مسئلے کا حل ہوتا تو دنیا سے بادشاہت کا نظام ختم نہ ہوتا ۔ہم شمالی کوریا نہیںبن سکتے پاکستان کو ایک شفاف جمہوری نطام سے ہی خوشحالی کی جانب آگے بڑھایا جا سکتاہے۔ طاقتور اشرافیہ کو بھی اس کا احساس کرنا ہوگا کہ حکمران طبقات کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی نفرت خطرناک رخ بھی اختیا ر کرسکتی ہے۔ ایسی صورت میں نقصان زیادہ ہوگا۔ بعض مبصّرین کا خیا ل یہ ہے کہ اعلیٰ سطحی حلقوں اور فیصلہ ساز بھی موجودہ حکمراں جماعت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیںاور متبادل کے طور پر بلاول بھٹو یا کسی اور کو وزیر اعظم بنانے کے لیے اتفاق رائے پر مبنی کسی فامولے کی تلاش میں ہے جس میں ڈی چوک اسلام آباد کے سانحے کا حل بھی موجود ہو۔عرصہ دراز سے خصوصاً گزشتہ تین سالوں
میں جو اقدامات ہوئے ہیں وہ ایک ملبے کے ڈھیرکی شکل میں موجود ہے ۔اس کی صفائی انتہائی مشکل عمل ضرور ہے۔ امید ہے کہ داشمندانہ فیصلے ہونگے۔