وجود

... loading ...

وجود

حسرتوں کے مینار

اتوار 08 دسمبر 2024 حسرتوں کے مینار

ایم سرور صدیقی

لگتاہے بہادرشاہ ظفرنے اپنے لئے نہیںشاید پاکستانیوں کے بارے میںکہا ہوگا
ان حسرتوںسے کہہ دو کہیں اور جا بسیں یہ
اتنی جگہ کہاں ہے دل ِ داغ ِ دار میں
اسلام کے نام پر بننے والی دنیا کی پہلی مملکت کے باسی بھی کیا قسمت لے کر آئے ہیں جن کے چاروں اوٹ تاریکی اور دلوں میں حسرتوں کے مینار کھڑے کھڑے زمیں بوس ہوتے جارہے ہیں ۔دور کہیں دور کوئی جگنو بھی ٹمٹماتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس میں کوئی شک نہیں مایوسی گناہ ہے ،ہر انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہر لحاظ سے آسودہ ہو،معاشرے میں اس کاایک مقام قدم قدم پر کامیابیاں اور کامرانیاں اس کے تعاقب میں ہوں تبھی زندگی خوب صورت محسوس ہوتی ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ جب عام پاکستانی کسی انٹرنیشنل کانفرنس کے فوٹو سیشن میں پاکستانی رہنما کو آخری قطارکی کسی نکرمیں کھڑا دیکھتے ہیں تو ان کے دل کیا گذرتی ہے، وہی جانتاہے ۔ان حالات میں یقینا ناکامیوںکی سر زمین پر اپنی حسرتوں کے محل تعمیر کرنے کی خواہش بھی شیخ چلی کے نقش ِ قدم پر چلنے والی بات ہوگی کیونکہ ایسے خوا ب دیکھنے والا ایک تماشہ بن کررہ جاتاہے جسے لوگ کچھ دیر تو دلچسپی سے دیکھتے ہیں پھر اس کی عقل پر ماتم کرتے قہقہہ لگاتے گذر جاتے ہیں ۔اسی لئے ہمارے حکمران قرض ملنے کو اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کی مرہون ِ منت قرار دیتے ہوئے اتراتے پھرتے ہیں۔
آسودگیاں حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان کے حصول کیلئے جدوجہدبھی کی جائے اس کے لئے ایک مربوط حکمت ِ عملی سے پروگرام ترتیب دیا جائے پھر اس پر عمل بھی لازم ہے کیونکہ عمل سے ہی جدوجہد کی منزل پائی جاسکتی ہے۔ اب تلک تو ہر حکمران نے اپنی حکومت کو بچانے کیلئے اپنے مخالف کو دیوار سے لگانے کیلئے تمام ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال اس انداز سے کیا ہے جیسے دشمنوںسے سلوک کیا جاتا ہو ۔اسی طرز ِ عمل کی باعث حکمرانوں نے اپنے اپنے دور میں لاشیں گرانا معمول بنالیا ۔کہاجاتاہے کہ جدوجہد منزل کی علامت ہے۔ جدوجہدکرنے والا کبھی نہیں تھکتا ،کبھی بے مراد نہیں رہتا ۔مشکلات اس کے گرد گھیرا ضرور ڈالتی ہیں لیکن مردانہ وار مقابلہ کرکے منزل تک پہنچا جاسکتاہے لیکن کیا کیجئے ہمارے حکمرانوںنے آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے قرض ملنے کو ہی منزل سمجھ لیا ہے ۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ جدوجہدانسان کو بوڑھانہیں ہونے دیتی۔ انسان کے جذبے جوان رہتے ہیں جب تک جذبے جوان ہوں بڑھاپا کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ،جدوجہدتومنزل کے حصول کی بنیادہے ۔اس بات کو پیش ِ نظرر کھنا ضروری ہے سفر ہزار کوس پر محیط ہو یا چند فرلانگ کا اس کو طے کرنے کیلئے پہلاقدم اٹھانا ناگزیرہے۔ تشنہ آرزوئوںکی تکمیل کے لئے جدوجہد پہلی شرط ہے۔ اپنے لئے اور ملک وقوم کیلئے اس جدوجہد کا ہر ذی شعورکو عزم کرنا ہوگا اور قوم اجتماعی قوت سے حکمرانوںکو مجبور کرسکتی ہے کیونکہ ہمارے حکمران صرف اپنے لئے سوچتے ہیں، غور کریں تو حیرت ہوتی ہے، غصہ آتاہے اوردل سے ایک ہوک سے اٹھتی ہے کہ پاکستان میں یہ ہوکیا رہاہے۔ ان حکمرانوںنے آئین، قانون، سیاست اور جمہوریت کو اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھاہے ۔اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ دوسری مرتبہ صدر ِ پاکستان منتخب ہونے والے آصف علی زرداری کی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری ،صاحبزادے بلاول بھٹو، بہنوئی منور تالپور ایم این اے جبکہ دونوں بہنیں ڈاکٹر عذرا اور فریال تالپور ایم پی اے ہیں۔
دوسری طرف وزیراعظم شہبازشریف کے بڑے بھائی میاں نوازشریف، صاحبزادے حمزہ شہبازشریف رکن قومی اسمبلی جبکہ بھتیجی مریم نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔ یوں خاندان کے سب سے زیادہ افراد کے ایم این اے یا ایم پی اے منتخب ہونے کے لحاظ سے صدر زرداری کا خاندان پہلے جبکہ وزیراعظم شہبازشریف کا خاندان دوسرے نمبر پر ہے ۔یہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت، سیاست اور اقتدار پر اشرافیہ کی مضبوط گرفت کی ایک روشن مثال ہے۔ اقتدار اقتدار کے اس کھیل میں مسائل کا ایک انبار عوام پر آن پڑا ہے۔ مہنگائی نے عوام کی کمرتوڑکررکھ دی، سیاست،معیشت اور جمہوریت زبوں حال ہے ،ملکی معیشت کا براحال ہے۔ ملک میںمہنگائی کا طوفان آیاہواہے۔ ہر چیز مہنگی ہوگئی ،ٹیکسز کے اہداف پورے نہ ہوئے تو منی بجٹ آنا یقینی بات ہے، جب نئے نئے ٹیکسز لگیں گے تو مزید لاکھوں پاکستانی غربت کی لکیر سے بھی نیچے چلے جائیںگے۔ یہ بھی جمہوریت کا کمال ہے کہ نیب نے ملک کی درجنوںبااثر شخصیات آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، میاںشہبازشریف،حمزہ شہباز، سیدخورشید شاہ،عبدالعلیم خان،احسن اقبال،خواجہ سعدرفیق، خواجہ آصف ، مولانا فضل الرحمن کے خلاف شکنجہ کس دیا تھا جنہوں نے اپنے خلاف تمام کیس ختم کروا کر ایک نئی روایت قائم کردی ہے۔ اب کوئی بھی بااثر شخصیت کا قانون بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن بدقسمتی یہ بھی ہے کہ قوم کو مہنگائی ،دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ سے نجات نہیں ملی ۔ان واقعات و حالات میں امید کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آرہی۔ حالانکہ حکومت سے امیدیں وابستہ کرنا اچھی بات ہے ،دوسرے لفظوں میں اسے خوش فہمی بھی کہا جا سکتاہے ۔یہ الگ بات ہے کہ امید گھٹاٹوپ اندھیرے میں چمکتے ہوئے جگنوئوںکی مانند ہوتی ہے۔ پاکستان بنانے کا خواب بھی ایک امید تھی جو اللہ کے فضل سے پوری ہوئی، اب اس وطن کو پر امن ، خوشحال اور ہر لحاظ سے مضبوط اور مستحکم بنانے کا خواب ہماری جاگتی آنکھیں اکثر دیکھتی رہتی ہیں۔ اللہ کرے یہ خواب بھی شرمندہ ٔ تعبیرہو۔ایک خواب ہے اس ملک سے عوام کی محرومیاں دو رہوں اس مملکت ِ خدادادکو کوئی ایسا حکمران مل جائے جو قوم کی محرومیاں اور مایوسیاں دور کرنے کیلئے اقدامات کرے ۔یہاںکی اشرافیہ اپنے ہر ہم وطن کو اپنے جیسا سمجھے ۔ پاکستان کا آج جو بھی حال ہے اس کیلئے حکمران بیورو کریسی ،اشرافیہ،قوم پرست،کرپٹ سب ذمہ دارہیں۔ ہمیں اس خول سے باہر نکلناہوگا۔ ورنہ حسرتوں کے مینار کی بجائے کھوپڑیوں کے مینار بننے میں دیر نہیں لگے گی ۔یہ بات اشرافیہ کی سمجھ میں جتنی جلدی آجائے اتنی ہی ان کے حق میں بہترہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارتی کسانوں کی ریل روکو تحریک وجود جمعرات 26 دسمبر 2024
بھارتی کسانوں کی ریل روکو تحریک

ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا وجود جمعرات 26 دسمبر 2024
ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا

قائد اعظم کی شخصیت کے روحانی و سماجی پہلو وجود بدھ 25 دسمبر 2024
قائد اعظم کی شخصیت کے روحانی و سماجی پہلو

قائد اعظم ، دنیا کے خوش لباس اور نفیس انسان وجود بدھ 25 دسمبر 2024
قائد اعظم ، دنیا کے خوش لباس اور نفیس انسان

رناں والیاں دے پکن پراٹھے وجود بدھ 25 دسمبر 2024
رناں والیاں دے پکن پراٹھے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر