وجود

... loading ...

وجود

گولیوں سے مسئلے حل نہیں ہوتے !

جمعه 06 دسمبر 2024 گولیوں سے مسئلے حل نہیں ہوتے !

جاوید محمود

گزشتہ ماہ 26نومبر کو اسلام اباد میں ہونے والے ہولناک واقعات کے باعث عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ مزید مجروح ہو رہی ہے۔ پہلے ہی پاکستان میں بلوچستان ،کرم ایجنسی کے علاوہ دیگر علاقوں میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں پاکستان پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ پی ٹی آئی کچھ بھی کہے، حکومت کچھ بھی، پاکستانی میڈیا بھی متعصب ہو سکتا ہے لیکن الجزیرہ، بی بی سی ،دی گارڈین، ٹی آر ٹی ،ڈی ڈبلیو کے علاوہ عالمی سطح کے نامور میڈیا نے زمینی حقائق پر اسلام آباد کی رپورٹنگ کرتے ہوئے جو حقائق پیش کیے، اگر وہ غلط ہیں تو حکومت پاکستان کو اسے چیلنج کرنا چاہیے۔ انہیں عدالت میں لے کے جانا چاہیے۔ الجزیرہ اور بی بی سی نے لائیو ٹیلی کاسٹ کرتے ہوئے فائرنگ کے واقعات دکھائے جس میں واضح طور پر دیکھا گیا ہے کہ مظاہرین نہتے تھے۔ کنٹینر پر نماز پڑھتے ہوئے ایک کارکن کو رینجرز نے جس بے دردی سے دھکا دیا ،عالمی میڈیا پر وہ موضوع بنا رہا۔ اس پر ستم یہ کہ بی بی سی ،الجزیرہ کے نمائندوں نے اسپتال سے ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد معلوم کرنے کی کوشش کی تو ڈاکٹروں نے انہیں حقائق بتانے سے انکار کر دیا ۔کچھ ڈاکٹروں نے نام نہ ظاہر کرنے کی صورت میں ہلاکتیں اور زخمیوں کے بارے میں بتایا جب میڈیا کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے تو پھر قیاس آرائیاں پیدا ہوتی ہیں، غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں بے چینی جنم لیتی ہے۔ اس کی وجہ سے انارکی پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف میڈیا نے طرح طرح سے رپورٹنگ کی۔ ایک میں یہ کہا گیا کہ 200افراد ہلاک ہوئے جبکہ ایک نے کہا کہ 100سے زیادہ اور دی گارڈین نے 17 ہلاکتوں کا ذکر کیا ۔حقیقت یہ ہے کہ ہلاکت ایک ہو یا 500 ۔ 26 نومبر کا دن پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اللہ کا فرمان ہے ایک معصوم انسان کی ہلاکت پوری انسانیت کی ہلاکت کے برابر ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب حکومت مسائل کا حل تلاش نہیں کرتی اور طاقت کے زور پرکسی بھی ایشو کو حل کرنا چاہتی ہے تو عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ اس سے حالات مزید گمبھیر شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال کرم ایجنسی ہے جہاں کئی مہینوں سے فسادات سر اٹھائے ہوئے ہیں ۔21نومبر کو خیبر پختوخوا کے ضلع کرم کے پارا چنار سے پشاور جانے والے شہری مسافروں کے قافلے پر حملے نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ گاڑیوں پر شدید فائرنگ سے مرنے والوں کی تعداد 49تک پہنچ گئی۔ اس کا نتیجہ جوابی حملوں اور خون ریزی کا ایک اور دور تھا جس میں اس تازہ ترین فرقہ وارانہ تصادم میں اپنی جانیں گوانے والوں کی مجموعی تعداد 100 سے زیادہ ہو گئی۔ کرم ایجنسی میں گزشتہ تین ماہ میں درجنوں اس نوعیت کے واقعات رونما ہو چکے ہیں جس میں سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں جو حکومت کے لیے گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے۔ معاملات کو اگر بیٹھ کر حل کر لیا جائے تو وہی بہتر راستہ ہوتا ہے۔ باہر کے لوگوں کے لیے کرم کی مشکلات پرانی رنجشوں یا فرقہ وارانہ تفریق کی وجہ سے ظاہر ہو سکتی ہیں۔ حقیقت میں تاہم جڑیں کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔ کرم امن کا راستہ طویل اور بہت سی رکاوٹوں سے بھرا ہوا ہے لیکن ناممکن نہیں ۔ ایک پائیدار امن کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے ۔ہتھیاروں کے بہاؤ کو روکنے کے لیے مضبوط حکومتی مداخلت، مری معاہدے جیسے امن معاہدوں کا نفاذ اور بین الفرقہ وارانہ بات چیت، سماجی و اقتصادی تفاوت کو دور کرنا اور کمیونٹی کی قیادت میں حفاظت کی کوششوں کو فروغ دینا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ موجودہ حکومت کو ماضی کے حکمرانوں کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے ۔26 اگست 2006کو پاکستانی فوج نے بکٹی قبیلے کے سربراہ اکبر بگٹی پر دھاوا بولا اور انہیں ہلاک کر دیا ۔وہ دن ہے اور آج کا دن، بلوچستان میں انارکی نے سر اٹھایا ہوا ہے۔ اگست 2024میں پاکستان میں سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں جب عسکریت پسندوں نے خیبر پختوخوا اور بلوچستان میں حملوں میں اضافہ کیا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عسکریت پسندوں کو افغانستان کے اندر سے مدد مل رہی ہے۔ پاکستان کو عسکریت پسندوں کے تشدد میں مہلک اضافے کا سامنا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2024 کے پہلے آٹھ مہینوں میں 757افراد ہلاک اور تقریبا اتنے ہی زخمی ہوئے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صرف اگست میں 254افراد ہلاک ہوئے اس میں 92عام شہری اور 52سکیورٹی اہلکار شامل ہیں جس کی وجہ سے یہ چھ سالوں میں سے سب سے مہلک مہینہ ہے ۔عسکریت پسند خاص طور پر خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے صوبوں میں سرگرم ہیں ،دونوں کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان حالات میںبھارت جلتی میں تیل کا کام کرتا ہے۔
ایک اور باغی گروپ بلوچ لبریشن آرمی بلوچستان میں مسلح ملیشیا ؤں کے درمیان ایک بڑے خطرے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ بی ایل اے وسائل سے مالا مال صوبے کی آزادی کا خواہاں ہے۔ یہ خطے میں چین کے زیر قیادت منصوبوں کی بھی مخالفت کرتا ہے، جس میں ایک بندرگاہ اور سونے اور تانبے کی کان بھی شامل ہے ۔اگست 2021میں افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار پر آنے کے بعد سے پاکستان ہر سال کم محفوظ ہوتا جا رہا ہے ۔لیکن گزشتہ ماہ بلوچستان میں پرتشدد واقعات میں تقریبا تین گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جہاں علیحدگی پسندوں نے پولیس اسٹیشنوں ریلوے کو نشانہ بناتے ہوئے مربوط حملوں میں کم از کم 74افراد کو ہلاک کیا ۔صوبے بھر میں لائنیں اور ہائی ویز جولائی میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں ٹی ٹی پی کو افغانستان میں سب سے بڑا دہشت گرد گروپ قرار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اسے پاکستان کے اندر سرحد پار سے حملے کرنے کے لیے کابل کے طالبان حکمرانوں کی جانب سے بے پناہ حمایت حاصل ہے۔ بروکنگز انسٹیٹیوٹ ٹیوشن کے مطابق طالبان کی حکومت ٹی ٹی پی کو دہشت گردی کے لیے لاجسٹک جگہ فراہم کرتی ہے لیکن وہ پاکستانی قیادت پر متصبانہ جھگڑوں اور سیاسی اپوزیشن کے خلاف سخت کریک ڈاؤن سے توجہ ہٹانے کا الزام بھی لگاتی ہے اور نوٹ کرتی ہیں کہ پاکستان کی معیشت اب بھی بدحالی کا شکار ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کو عسکریت پسندی کو روکنے کے لیے زیادہ لچکدارانہ انداز اختیار کرنا چاہیے جس میں عوام کی حمایت حاصل کرنا اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا شامل ہے۔ دو صوبوں میں متحدہ عسکریت پسندوں کے حملوں سے سیکورٹی کی حرکیات بدل گئی ہیں۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ فوجی آپریشن کے لیے مقامی عوام کی حمایت نہ ہونے کے برابر ہے۔ مقامی لوگ عسکریت پسندوں اور فوج دونوں کو نکالنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سماجی و معاشی زندگی درہم برہم ہیں اور ایک اعتماد کی کمی ہے۔ باغی ان فالٹ لائنوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ان بحرانوں کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان پی ٹی آئی کے ساتھ جس سوتیلے پن کا مظاہرہ کر رہی ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تجزیہ کاروں کی اکثریت اور عالمی سطح پر شائع ہونے والی رپورٹس میں یہ واضح کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے مطالبات جائز ہیں ۔ایسے میں مظاہرہ کرنا ان کا بنیادی حق ہے جس کی آئین بھی اُنہیں اجازت دیتا ہے۔ حکومت پاکستان جن القاب سے انہیں پکارتی ہے اور انہیں دیوار سے لگانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ 71کا سانحہ ابھی ہمارے ذہنوں پہ نقش ہے۔ کیا حکومت پاکستان کوئی اور تجربہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اب پاکستان کسی بھی ایسے تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ گولیوں سے مسئلے حل ہو سکتے تو موجودہ عسکریت پسند تنظیموں کا وجود ختم کر دیا جاتا۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان و بنگلہ دیش میں باہمی تعلقات کا فروغ وجود جمعه 27 دسمبر 2024
پاکستان و بنگلہ دیش میں باہمی تعلقات کا فروغ

بُری عادتیں مشکل سے ختم ہوتی ہیں! وجود جمعه 27 دسمبر 2024
بُری عادتیں مشکل سے ختم ہوتی ہیں!

تحریک ِ سول نافرمانی وجود جمعه 27 دسمبر 2024
تحریک ِ سول نافرمانی

بھارتی کسانوں کی ریل روکو تحریک وجود جمعرات 26 دسمبر 2024
بھارتی کسانوں کی ریل روکو تحریک

ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا وجود جمعرات 26 دسمبر 2024
ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر