وجود

... loading ...

وجود

یورپ میں چین کی بڑھتی موجودگی

بدھ 04 دسمبر 2024 یورپ میں چین کی بڑھتی موجودگی

سمیع اللہ ملک
جنوری2018میں برسلزکاشانداربوزارتھیٹرتاریخی لمحات سے متعلق عوامی جمہوریہ چین کی ویڈیوکابیک ڈراپ تھا۔یہ موقع تھاچینی نئے سال کے جشن کا۔ ایک گلوکارفن کامظاہرہ کررہاتھااوراس کی پشت پرچلائی جانے والی ویڈیو میں چین کی کامیابیوں کونمایاں طور پر پیش کیاجارہاتھا۔ویڈیومیں چین کے پہلے جوہری دھماکے،عالمی تجارتی تنظیم میں شمولیت، پہلے طیارہ بردار جہاز کی تیاری اوردیگر معاملات سے دنیاکوآگاہ کیاجارہاتھا۔حاضرین میں موجود سفارت کار،فوجی نمائندے اوردیگر حکام دم سادھے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ سوال یہ نہیں تھاکہ وہ چین کی کامیابیوں کودیکھ کرمتاثر ہورہے تھے یا نہیں۔ہوسکتاہے کہ متاثرہوبھی رہے ہوں مگراِس سے کہیں بڑھ کروہ حیرت زدہ بھی تھے اورتشویش میں بھی مبتلا تھے۔چین کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت، معیشت کے پنپتے ہوئے حجم اورٹیکنالوجی میں پیش رفت نے یورپ کے بہت سے پالیسی سازوں کوخوابِ غفلت سے جگادیاہے۔ یورپی یونین ایک زمانے سے غیراعلانیہ طورپر،مشنری اندازسے چین کے بارے میں سوچتی آئی ہے۔چین کے مستقبل کے حوالے سے مختلف اندازے لگائے جاتے رہے ہیں مگراب اندازہ ہوتاہے کہ بیشتر اندازے خام خیالی یاخوش فہمی پرمشتمل تھے۔
چین کی معاشی وعسکری قوت میں غیرمعمولی اضافے کے ساتھ بیجنگ،واشنگٹن اوربرسلزکی اسٹریٹجک تکون میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ٹرمپ کی صدارت کے دوران امریکانے چین کو اسٹریٹجک مدمقابل کے روپ میں زیادہ دیکھاہے۔یورپ کے بیشتر قائدین ٹرمپ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ دینے کی وجہ سیان پرمکمل بھروسہ نہیں کرتے تھیجس کے نتیجے میں بیشتر یورپی ممالک نے حکمت عملی کے حوالے سے زیادہ خودمختاری کاراستہ اختیار کیا۔ٹرمپ نے افغانستان اور شام سے فوج نکالنے کااچانک اعلان کرکے امریکاکی17سالہ ملٹری ڈاکٹرائن کے حوالے سے یو ٹرن لیکرجیمزمیٹس نے کواستعفی دینے پرمجبورکردیااوربعدازاں یورپ کی سلامتی کے حوالے سے معاملات کو پریشان کن کرنے میں بھی ٹرمپ کے بیانات کابڑاعمل دخل رہا ہے۔ایک مرتبہ پھرچارسال تک ڈونالڈٹرمپ دونوں ایوانوں میں اکثریت کے ساتھ وائٹ ہاس میں براجمان ہوں گے،کیایہ اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق دنیاکوامن کاگہوارہ بناسکیں گے،اس کاجواب آنے والے پروقت پرموقوف ہے۔
دسمبر2018میں بیجنگ نے یورپی یونین سے تعلقات کے حوالے سے وائٹ پیپرشائع کرتے ہوئے بتایاکہ کس طرح چین نے یورپی طاقتوں کے ساتھ مختلف شعبوں میں مل کر کام کیابالخصوص ہائی ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔ اب بیجنگ تائیوان اور تبت کے مسئلے پربرسلزسے کیا امیدرکھتاہے اورکس طور چین نے اظہاررائے کی آزادی کیلئے خطرہ بننے والی جعلی اورمن گھڑت خبروں کے سدباب کیلئے بھی یورپی یونین کے ساتھ مل کرکام کیاہے۔وائٹ پیپر میں یہ بھی درج ہے کہ امریکاکے یکطرفہ اقدامات کے آگے بند باندھنے کیلئے یورپ کوچین کاساتھ دیناچاہیے۔چینی قیادت نے اس وائٹ پیپرمیں یہ عندیہ بھی دیاکہ جہاں کہیں بھی امریکاکے انخلاسے خلاپیداہوگا،وہاں وہ اپنا کردار ادا کرکے خلاپرکرنے کوتیار ہے۔جرمی رفکن کے مطابق چین نے مابعدِجدیدیت کے لمحاتِ سعیدمیں دوعشروں تک یورپی خواب کوشرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے۔یورپی یونین کے بعض حکام کہتے ہیں کہ یورپی یونین جیوپالیٹکس نہیں کرتی اورجوکچھ بھی یورپی یونین کرتی ہے، اس کے سیاسی عواقب برآمد نہیں ہوتے۔یوں یورپی یونین اپنے علاقے کوبڑی طاقتوں کیلئے پلے گراونڈ کے طورپرپیش کرتی ہے۔یورپ نے خاصی مشقت سے جوخوئے اطاعت پروان چڑھائی ہے،اس نے چین کوبھی کھل کرکھیلنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے ہیں۔ روس نے یوکرین کے حوالے سے طاقت کاغیر معمولی مظاہرہ کیااوریوکرین سے جڑے ہوئے چند اوریورپی ممالک کوبھی کسی حدتک متاثر کیا مگر یورپی یونین کے مجموعی ماحول پراس کا کچھ خاص منفی اثرمرتب نہیں ہوا۔
یورپی یونین کے حکام بھلے ہی کہتے رہیں کہ یورپی یونین کے اقدامات کے سیاسی نتائج برآمد نہیں ہوتے مگر حقیقت یہ ہے کہ اب بعض یورپی ممالک نے انفرادی سطح پراوریورپی یونین نے اجتماعی سطح پرچین کوایک بڑے حریف کے روپ میں دیکھنا شروع کردیاہے۔چین کی میڈاِن 2025حکمت عملی نے یورپ کی ہائی ٹیک انڈسٹری کیلئے بیداری کاکردار اداکیاہے۔ یورپ اوربھارت دونوں ہی چین کوسنجیدگی سے لے رہے ہیں۔دونوں کیلئیچین کی بڑھتی ہوئی سیاسی،عسکری اورمعاشی قوت نے ویک اپ کال کی سی حیثیت اختیارکرلی ہے۔ایسے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیابھارت کایواشکتی آدرش اوریورپین ڈریم متصادم ہوں گے؟دسمبر2018میں یورپین کونسل نیای یو اسٹریٹجی آن انڈیاکے حوالے سے اخذ کیے جانے والے خیالات کو قبول کیا۔کیااِس سے یورپی یونین اوربھارت کے تعلقات کاایک نیادورشروع ہوا؟اب تک عام خیال یہ تھاکہ یورپی یونین نے چین کو زیادہ اہمیت دی ہے اوربھارت کومجموعی طورپرنظراندازکیاہے۔بھارت کے حوالے سے نئی حکمت عملی اپنانے سے یہ تاثر ابھرے گا کہ یورپی یونین بھارت کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک ایسے نئے عالمی نظام کو پروان چڑھانے کے حق میں ہے،جواصولوں کی بنیادپرکام کرتاہو۔علاوہ ازیں یورپی یونین سلامتی سے متعلق سیٹ اپ کوبہتر بنانے کی بھی کوشش کررہی ہے لیکن مودی سرکارکی طرف سے کینیڈاکے علاوہ دیگرممالک میں خفیہ ایجنسی”را”کے دہشتگردی میں ملوث ہونے کے بعدیورپی یونین کی سلامتی کے اداروں نے انڈیاسے فی الحال اپنے کئی تحفظات کااظہارکردیا ہے ۔ دوسری طرف ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس وائٹ پیپرکے مندرجات کی بنیادپرچینی قیادت کس نوعیت کے اقدامات کی راہ ہموارکرتی ہے۔
فروری2017میں فرانس،اٹلی اورجرمنی نے یورپی یونین سے کہاکہ وہ یورپ میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کی اسکریننگ سے متعلق سفارشات مرتب کرنے کیلئے کمیشن قائم کرے۔ تینوں یورپی طاقتوں نے اگرچہ کسی ملک کا نام نہیں لیا تاہم یہ بات طے ہے کہ وہ چینی باشندوں کی طرف سے کی جانے والی براہِ راست سرمایہ کاری کے حوالے سے غیر معمولی تشویش میں مبتلا تھے۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یورپ کے بعض ممالک میں چینیوں کی سرمایہ کاری اِتنی زیادہ ہے کہ فرانس،اٹلی اورجرمنی کی تجویزپرکھل کربحث نہیں کی جاسکی۔یورپی کونسل، یورپی کمیشن اوریورپی پارلیمانتینوں ادارے اس حوالے سے باضابطہ مذاکرات اوربحث کی منزل سے دوررہے۔ناقدین کہتے ہیں کہ اس حوالے سے پائی جانے والی موجودہ دستاویزمیں ذرابھی دم نہیں کیونکہ اس کی ساری طاقت ختم کردی گئی ہے۔
یورپ میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کی اسکریننگ کے حوالے سے تجویزایسے وقت سامنے آئی ہے،جب یورپی یونین کے بہت سے رکن ممالک کے لوگوں کویہ شکایت ہے کہ یورپی ممالک میں توبراہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت ہے تاہم اس کے مقابلے میں چین میں سرمایہ کاری کی گنجائش دی جاتی ہے نہ کھلی منڈی تک رسائی ہی دی جاتی ہے ۔ چین کے بیشتر کاروباری ادارے دراصل ریاستی مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔یورپ میں چینیوں کی سرمایہ کاری2008میں 70کروڑڈالرتھی۔ 2017میں یہ 30ارب ڈالر کی منزل تک پہنچ چکی تھی۔یونان کی بندرگاہ ”پیراس” میں چینیوں کی سرمایہ کاری اصل بلغراداور بڈاپیسٹ سے ہوتے ہوئے باقی یورپ تک راہداری کومعرضِ وجودمیں لانے کیلئے تھی،مگراب صاف محسوس ہوتاہے کہ اس سرمایہ کاری کے شدیداثرات یونان اورہنگری محسوس کررہے ہیں۔ ویسے چینیوں کی بیشترسرمایہ کاری جرمنی،فرانس اوربرطانیہ میں ہے اور زوراس بات پرہے کہ جوٹیکنالوجی امریکاسے حاصل نہ کی جا سکتی ہووہ یورپ سے حاصل کرلی جائے۔دوطرفہ سرمایہ کاری کے حوالے سے معاملہ اس وقت زیادہ اجاگر ہواجب جرمنی کے معروف روبوٹکس میکر”کوکا”کوچینی ملکیت کے ادارے”میڈیا”نے خریدا۔تجزیہ کاروں کومعلوم ہواکہ جرمن انجینئراب پیپلز لبریشن آرمی کیلئے روبوٹکس تیارکرتے ہیں، یہ کوئی اچھاسودانہیں تھا۔
اب جرمنی نے بھی براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری پرگہری نظررکھناشروع کردی ہے۔اس بات کوسمجھنااب کچھ دشوارنہیں کہ چینی قیادت اور پوری قوم چینی خواب کوشرمندہ تعبیرکرنے کی راہ پرگامزن ہے۔یورپ کے اپنے آنگن کے نزدیک بحیرہ اسود اوربحیرہ روم میں روس کے ساتھ جنگی مشقوں کے پروگرام اورساتھ ہی ساتھ بحیرہ بالٹک میں بھی مشقوں کے پروگرام،جس کے نتیجے میں متعدد یورپی ریاستیں بھی لرزش محسوس کیے بغیرنہ رہ سکیں ۔یورپی یونین کے حکام بھی اس بات کومحسوس کررہے ہیں کہ چین اب روس کے ساتھ مل کر یورپ کومتاثرکرنے والے ماحول میں کام کررہاہے۔ فروری2018میں جرمنی کے دوتھنک ٹینکس نے بھی اپنی رپورٹس میں بتایاکہ چین اب یورپ کے معاملات پرغیر معمولی حد تک اثراندازہونے کی بھرپورکوشش کررہاہے۔یہ سب کچھ اس قدرواضح ہے کہ یورپی یونین کے پالیسی سازاسے کسی طورنظراندازنہیں کرسکتے۔
جرمن چانسلرنے بلقان کے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے حوالے سے تشویش کااظہارکیاہے۔میونخ سیکورٹی کانفرنس 2018 میں جرمن وزیرخارجہ سگمار گیبریل نے چینی صدرشی جن پنگ کے پیش کردہ بیلٹ اینڈ روڈمنصوبے پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے کہاتھاکہ چین ایک ایسانظام تیارکررہاہے جوہمارے نظامِ جمہوریت،انسانی حقوق اورآزادی کے اصولوں کی بنیاد پر استوار نہیں۔ بہرکیف،چین نے اپنی بھرپورمعاشی قوت کوبروئے کارلاکر یورپ میں اختلاف رائے پیدا کردیاہے۔اب بہت سے معاملات پر تمام یورپی طاقتیں ہم آہنگ ہوکربات نہیں کررہی،مثلاًمارچ 2017 میں ہنگری نے ایک ایسے مشترکہ خط پردستخط سے انکارکیاجوزیرحراست وکلا پر تشددکے حوالے سے تھا۔ جون 2017میں یونان نے اقوام متحدہ میں ایک ایسے بیان کی راہ مسدود کر دی،جس میں چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی مذمت کی گئی تھی۔جولائی2016میں یورپی یونین کے ایک ایسے بیان کو ہنگری،یونان اورکروشیانے ویٹوکیا،جس میں بحیرہ جنوبی چین میں چین کے ملکیتی دعوؤں پرتنقید کی گئی تھی۔ان تمام مثالوں سے یورپی یونین کی پالیسیوں پراثر انداز ہونے سے متعلق چین کی صلاحیت کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔
کئی شعبے ایسے ہیں جن میں یورپ اب بھی واضح طورپربرتری کاحامل ہے۔نئی ہائی ٹیکنالوجی کے حوالے سے یورپ اپنی برتری برقرار رکھنے پرپوری تندہی سے کام کررہاہے اور یورپ سمجھتاہے کہ ایساکرناترقی اورسلامتی کے حوالے سے مستقبل کومحفوظ بنانے کی خاطر لازم ہے۔ ٹیکنالوجی کی منتقلی کے حوالے سے یورپ بہت زیادہ محتاط ہے۔5۔جی ٹیکنالوجی کے حوالے سے یورپ نے واضح حکمتِ عملی تیارکررکھی تھی اوراس پرمکمل طورپرکنٹرول برقرار رکھے ہوئے تھے لیکن شنیدہے کہ چین اس کامتبادل تیارکرنے میں نہ صرف کامیاب ہو چکاہے بلکہ اس کی صلاحیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔
یورپی یونین پرگہری نگاہ رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ہوسکتاہے کہ یورپی یونین کے حکام کواپنے آپشن بہت زیادہ پرکشش محسوس نہ ہوتے ہوں مگروقت آگیاہے کہ وہ محض تماشائی بنے رہنے کی روش ترک کریں اورمیدانِ عمل میں نکلیں۔یورپ کواب طے کرنا پڑے گاکہ مابعدِ جدیدیت کے دورمیں سلامتی اورترقی دونوں حوالوں سے مل جل کر کام کرنے کا طریقہ درست تھایایہ طریقہ ترک کرنا پڑے گااوریہ بھی دیکھناپڑے گاکہ یورپی طاقتوں کامل جل کرچلنانئے عالمی نظام کوکسی حدتک بہتربناسکے گایانہیں۔تاہم چین نے یہ طے کر رکھاہے کہ مستقبل میں دنیامیں سپرپاورکہلانے کیلئے جنگ اورجارحیت کی بجائے صلح جوئی سے تجارتی منڈیوں کواپنے حق میں استعمال کرنا انتہائی ضروری ہے،اس کیلئے چینی صدرنے2014 میں یورپی یونین کے صدردفتر کادور کرکے چین اوریورپی یونین کے مابین چاراہم شراکت داریاں قائم کرنے کی ٹھوس تجاویزپیش کرتے ہوئے اپنے مستقبل وژن کاتعارف کروایاجس پروہ آج بھی سختی سے قائم ہے۔ گزرتیوقت نے چینی صدرکی پیش کردہ تجاویزکودرست ثابت کردیااور موجودہ حالات میں اس کی عملی اہمیت اور بھی اہم ہوگئی ہے۔
افغانستان سے انخلا کے فوری بعدچین نے اپنی تجاری دانشمندی سے اس خلاکوبڑی تیزی کے ساتھ پرکیاہے اوراب اس خطے میں پاکستان،ایران، افغانستان کے ساتھ تمام ملحقہ ریاستوں میں اپنی تجارتی راہداری قائم کرکے ان ملکوں کی منڈیوں میں اپنا مضبوط مقام بنا لیاہے جبکہ امریکانے ایک بارپھریوکرین کے ذریعے روس کونیچادکھانے کیلئے اپنے کچھ یورپی اتحادیوں کی مددسے ایک نئی جنگ کا آغاز کر دیاہے لیکن جن مقاصدکے حصول کیلئے امریکاپرامیدتھا،وہ فی الحال خاک میں ملتے دکھائی دے رہے ہیں اورخودبین الاقوامی مالیاتی ادارے روس کی معیشت کوپہلے سے بہترقراردیتے ہوئے زمینی حقائق سے متفکرنظرآرہے ہیں جبکہ یوکرین کی جنگ کے آغازمیں سارے یورپ کوروس کی طرف سے گیس کی بندش کی سپلائی کاخدشہ لاحق ہو گیاتھااور یہی وجہ ہے کہ یورپ کھل کرامریکاکاساتھ دینے سے گریزاں نظرآتاہے۔
ادھردوسری طرف آج دنیامیں غیریقینی اورعدم استحکام بڑھتاجارہاہے جس کی وجہ سے چین اوریورپی یونین کے درمیان قریبی رابطے اور اس کے نتیجے میں باہمی تجارتی فوائداور مستقبل کے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے زیادہ توجہ دی جارہی ہے اورچینی صدرکی دس سال قبل دی گئی تجاویز اورچینی وژن نے ثابت کردیاہے کہ باہمی اتفاق اورتعاون اورملکی ترقی کیلئے اپنے ممالک کے عوام کیلئے خوشحالی کے نئے باب کھولے جا سکتے ہیں جس کیلئے غیرضروری خدشات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب چین یورپی یونین کے سب سے اہم تجارتی
شراکت داروں میں سے ایک ہے،اوراس کے برعکس عالمی تجارتی مندی کے منفی اثرات کے باوجودچین اوریورپی یونین کے مابین مجموعی تجارتی حجم2023 میں783بلین ڈالرتک جاپہنچاہے جس میں دوطرفہ سرمایہ کاری کااسٹاک250بلین ڈالرسے تجاوزکرچکاہے۔یورپی یونین کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ ہے، چین سے درآمدات برآمدات سے بہت زیادہ ہیں۔ 2023 میں، یورپی یونین نے چین سے 515.9 بلین یورو درآمد کیے، جبکہ 223.6 بلین یورو برآمد کیے۔
چین نے ثابت کیاہے کہ وہ کاروباری تعاون،سائنس اورٹیکنالوجی میں تعاون اورسپلائی میں یورپ کاقابل اعتماد،کلیدی،ترجیحی اور صنعتی شراکت دار بننے کیلئے تیارہے کیونکہ دونوں فریقین باہمی کامیابی اورمشترکہ خوشحالی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اوردونوں کے مابین تعاون ڈیجیٹل معیشت ،سبزترقی اورماحولیاتی تحفظ،نئی توانائی اورمصنوعی ذہانت جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں تیزی سے آگے بڑھنے کی مکمل صلاحیت ہے۔یورپی یونین چیمبر آف کامرس ان چائنا (ای یوسی سی سی)کی جانب سے جاری کردہ بزنس کانفیڈنس سروے 2023کے مطابق سروے میں شامل90فیصدسے زائدیورپی کمپنیاں چین کواپنی سرمایہ کاری کی منزل بنانے اورسروے میں شامل 80 فیصد سے زیادہ چینی کمپنیاں یورپ میں اپنے کاروبارکو بڑھانے کاہوم ورک مکمل کرچکی ہیں۔
چین دنیاکاسب سے بڑاترقی پذیرملک ہے اوریورپ کسی بھی دوسرے براعظم کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ممالک کاخطہ ہے۔ چین اوریورپی یونین دونوں بکھری ہوئی عالمی معیشت اورتحفظ پسندی کی بڑھتی ہوئی لہرکے سامنے محتاط رہ کرکھلے پن کے ساتھ منصفانہ مسابقت اورآزادتجارت کوبرقرار رکھنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کررہے ہیں ۔ سلامتی کے تصورکو بڑھاچڑھاکرپیش کرنے سے گریزکی پالیسی اختیارکرتے ہوئیگلوبلائزیشن کے خلاف مشترکہ مزاحمت کیلئے تیاری کے مراحل میں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چین بیلٹ اینڈروڈانیشی ایٹواورگلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹوکے حصول کیلئے مشترکہ ہدف کے تعاقب میں یورپی یونین اوردیگریورپی ممالک کی فعال شرکت کابھی خیرمقدم کررہاہے اوریورپی یونین کی گلوبل گیٹ وے حکمت عملی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کیلئے بھی تیارنظرآتاہے تاکہ ترقی پذیر ممالک ترقی کے اپنے سفرکوتیزکرنے میں مدد کیلئے متعلقہ طاقتوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔بدلتی ہوئی اورغیرمستحکم بین الاقوامی صورتحال کے پیش نظر چین اوریورپ کومزیدتعاون کی ضرورت ہے۔دونوں فریقوں کوکثیرالجہتی پرعمل کرنے،کھلے پن اورترقی کی وکالت کرنے اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے کو آسان بنانے کیلئے مل کرکام کرناہوگا۔انہیں مشترکہ طورپرایک مساوی اورمنظم کثیرقطبی دنیاکی تعمیرکرناہوگی اور عالمی سطح پرفائدہ مند اورجامع اقتصادی عالمگیریت کوفروغ دیناہوگا۔
قدرت نے پاکستان کوایک بارپھرایک سنہری موقع دیاہے کہ وہ اپنے جغرافیائی وجودکی وجہ سے ان فوائدکوسمیٹ سکے اوراب تک سی پیک پراجیکٹ کی تکمیل میں مجرمانہ تاخیرکافوری ازالہ کرتے ہوئے ایسے ہنگامی اورانقلابی اقدامات اٹھائے تاکہ برادرعرب ممالک کی طرف سے آنے والی سرمایہ کاری کوبھی ایک ایسارخ میسرآجائے جس کے بعدیورپی ممالک کی سرمایہ کاری بھی پاکستان کارخ کرے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی افراتفری اوربدامنی کوختم کرنے کاسازگارماحول پیداکیاجائے اورتمام سیاسی جماعتیں کم ازکم ملکی معیشت پراتفاق کرتے ہوئے ایک ایساباہمی لائحہ عمل تیارکریں کہ ملک میں جوبھی حکومت آئے لیکن ان معاشہ اہداف کوکبھی بھی سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھایاجائے گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مودی کے ساتھی اڈانی پر فراڈ کا الزام وجود جمعرات 05 دسمبر 2024
مودی کے ساتھی اڈانی پر فراڈ کا الزام

مندروں کے نیچے بدھ عبادت گاہوں کے آثار وجود جمعرات 05 دسمبر 2024
مندروں کے نیچے بدھ عبادت گاہوں کے آثار

سانحہ ڈی چوک ،اب کیا ہوگا؟ وجود بدھ 04 دسمبر 2024
سانحہ ڈی چوک ،اب کیا ہوگا؟

یورپ میں چین کی بڑھتی موجودگی وجود بدھ 04 دسمبر 2024
یورپ میں چین کی بڑھتی موجودگی

درگاہ اجمیر شریف کو مندر بنانے کی سازش وجود بدھ 04 دسمبر 2024
درگاہ اجمیر شریف کو مندر بنانے کی سازش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر