... loading ...
ُُ رفیق پٹیل
دنیا بھر کے اہم اور انتہائی معتبر میڈیا کے ادارے رپورٹ کر رہے ہیں کہ 26اور27 نومبر2024 کی درمیانی شب جب پی ٹی آئی کی احتجاجی ریلی اسلام آباد کے ڈی چوک میں داخل ہورہی تھی ،پولیس اور رینجرز نے گرؤانڈ آپریشن کرکے فائرنگ اور آنسو گیس کے استعمال کے ذریعے پی ٹی آئی کی ریلی کو منتشر کردیا جس میں پی ٹی آئی کے دعوے کے مطابق اس کے درجنوں کا رکنوں کی ہلاکت ہوئی اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ اس تمام آپریشن کو موجودہ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی مکمّل آشیر باد تھی سرکاری عہدیدار اوروزراء کا دعویٰ ہے کہ کوئی گولی نہیں چلی ۔دوسری جانب بعض سرکار کے حامی مبّصرین پی ٹی آئی کے کارکنوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کی ہلاکت پر اس طرح خوشی کا اظہار کر رہے تھے جیسے وہ اس خونی سانحے پر جشن منارہے ہو ں ،وہ اور حکومت کے اعلیٰ عہدیدار خوشی کی یہ کیفیت چھپابھی نہیں پا رہے تھے، اب بھی وہ اس طرح گفتگو کر رہے ہیں جیسے انہوں نے کوئی بڑا جنگی کارنامہ انجام دیا ہو کہ انہوں نے ڈی چوک خالی کرالیا ۔ سیاسی اجتماع پر مسلح سیکورٹی فورسزکا آپریشن کا نتیجہ یہی ہو سکتا تھا۔ پی ٹی آئی کو یقین تھا کہ حکومت اس حد تک نہیں جائے گی اور ان کے کارکن جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، اب حکومت شاید اس خام خیالی میں ہے کہ اس نے پی ٹی آئی کو کچل دیا ہے تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہوگی۔
سانحہ ڈی چوک موجودہ حکمرانوں کا کئی دہائیوں تک پیچھا کرتا رہے گا۔ ہو سکتا ہے ان کی نسلیں بھی اس سے متاثر ہوں۔ تاریخ گواہ ہے طاقت اور دولت کا منفی اور ناجائز استعمال حکمرانوں کے لیے زہرقاتل بھی ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے اس طرز عمل کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر جابرانہ تصور کیا جائے گا۔ کیا حکومت کے پاس اس بات کی صلاحیت ہے کہ وہ بی بی سی ،سی این این ،الجزیرہ ،گارڈین اور دیگر عالمی میڈیا کو پاکستانی میڈیا کی طرح کنٹرول کرے؟ کیا اس کے پاس ایسا کوئی اختیار ہے کہ وہ دنیا کے ترقّی یافتہ مما لک کے مرکزی مقامات اور وہاں کے حکمرانوں کی سرکاری اور دیگر رہائش گاہوں کے باہر پی ٹی آئی کے ہزاروں افراد کے مظاہروں کو گولیاں مار کر منتشر کر سکے، ان مظاہرین کو کنٹینر لگا کر روک سکے؟پاکستان کے حکمرانوں کو سیکھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح ان مہذب معاشروں میں لوگ احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں ۔ایسی صلاحیت اور ایسی جمہوریت کی ضرورت ہے موجودہ طرز عمل کی قومی او ر بین الاقوامی سطح پر پذیرائی کی توقع احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی ،شہروں کو پنجرہ بناکر محدود کرنا کسی مہذب معاشرے کی تصویر پیش نہیں کرتا۔ایسی حرکت کرنے والے خوش فہمی میں مبتلا ہو کر خود کوبلند مقام پر تصّور کر سکتے ہیں، فخر بھی کر سکتے ہیں، دنیا کیا سوچتی ہے اس سے لا پرواہ ہو سکتے ہیں ۔ بیرون ملک جب اس پر سوال ہوگا تو وہاں اسے غیر مہذّب اور ظالمانہ ہی تصّور کیا جائے گا۔ ایسے اقدامات سے موجودہ حکومت میں شامل حکمرانوں خصوصاً اتحادی جماعت کے رہنمائوں کو عالمی سطح پر مزید نقصان ہوگا ۔بظاہر یہ گولیاں یقیناپی ٹی آئی کے کارکنوں کو لگی ہیں لیکن یہ حکومت کا خودکش حملہ تھا جس سے حکومت کی ساکھ کو مزید خرابی سے اب کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے ۔اس طرزعمل سے اندرون ملک بھی عوام میں موجودہ حکمرانوں کے خلاف مزید نفرت کے جذبات پیدا ہونگے ۔دلوں پر حکمرانی گولی چلانے سے کبھی نہیں ہوتی ۔ممتا ز انقلابی شاعر حبیب جالب نے کہا تھا :
محبتّ گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
مشہور انگریزی کہاوت ہے کہ تشدّد سے تشدّد جنم لیتا ہے، فرض کریں کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگا دی جاتی ہے اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا جاتا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں گورنر راج لگا کر عمران خان کو پھانسی دے دی جاتی ہے ۔ایک سرکاری پی ٹی آئی کی تشکیل کی جاتی ہے، اس کے کئی گروپ بنائے جاتے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا ،کیا ملک کا نظا م ٹھیک ہوجائے گا؟ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی ختم ہوجائے گی؟ انتہا پسند اور عسکریت پسند تنظیمیں ملک چھوڑ کر چلی جائیں گی، عدلیہ آزاد ہوجائے گی انصاف کا بول بالا ہوگا ؟آئین اور قانون کی پاسداری ہوگی؟ آزادانہ منصفانہ انتخابات کا نظام رائج ہوگا ؟میڈیا آزادہو جائے گا؟ سرکاری اداروں میں رشوت اور بد عنوانی ختم ہو جائے؟ جمہوری اصول پروان چڑھیں گے؟ ملک میں اخلاقی قدریں عام ہونگیں؟ سچ اور شرافت کا دور دورہ ہوگا؟ مثالی امن و امان ہوگا؟ لوگ کھلے عام سونا اورنقدی لے کر گھوم سکیں گے، کوئی انہیں کچھ نہیں کہے گا ؟لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر کچھ وقت کے لیے جائیں گے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا کسی کو کروڑوں روپے کاتھیلا بھی ملے گا تو وہ فوراً پولیس کو اطلاع دے کر اس کے اصل مالک تک پہنچائے گا ،کیا مہنگا ئی کا خاتمہ ہوگا ؟ایسا نہیں ہوگا موجودہ حکمران طبقہ ان سب معاملات کے برعکس کا م کرسکتا ان سے اچھائی کی توقع رکھنا حقیقت سے انکار ہے۔ پی ٹی آئی کو وقتی طور پر نقصان پہنچا ہے لیکن اب اس میں ایک نئی تبدیلی آئے گی۔ وہ کالی بھیڑوں کا خاتمہ کرے گی اور خود کو ازسر نو منظم کر کے اپنی جماعت کو مزیدطااقتور بنائے گی ۔دوسری طرف اس کے مقابلے میں سو گنا بڑا نقصان حکومت کو ہوا ہے۔ کیا لاشوں کو غائب کرنے سے حکمرانوں کی عزّت میں اضافہ ہوا ہے ؟ کیا آئینی ترمیم سے حکومت کوبین الاقوامی سطح پرشدید تنقید نہیں ہوئی۔ حکومت کی ساکھ مزید خراب ہوگئی ہے۔ 8فروری کے انتخابات کو فراڈ کہا گیا ۔کیا اب پاکستان کو ایسا انوکھا ملک بنایا جارہا ہے جو اقوم متحدہ اور عالمی اداروں کی جانب سے کیے جانے ولے مطالبات کی پرواہ نہیں کرتااور دنیاکے دیگر ممالک سے کٹ کر رہنا چاہتا ہے ۔جدید دور میں یہ ممکن نہیں۔ موجودہ سانحہ ڈی چوک اسلام آباد پر بی بی سی نے ایمینسٹی انٹر نیشنل کے حوالے سے کہا کہ پی ٹی آئی کے مظاہرین کے خلاف سیکورٹی فورسزکی کارروائی سفاکانہ اور جان لیواتھی۔ ایک اور رپورٹ میں بی بی سی نے بتایا کہ ایک ہسپتال کے عملے نے تین لاشوں کی تصدیق کی تھی جبکہ بعد میں ہسپتالوں نے کسی قسم کی اطلاع دینے سے انکار کردیا ۔برطانیہ کا اہم اخبار دی گارڈین لکھتا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز پر الزام ہے کہ انہوں نے شہریو ں پر فائرنگ کی جس سے کئی لوگ جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ اس سے قبل عمران خان کے لاکھوں حامی اسلام آباد میں داخل ہوگئے تھے ۔رپورٹ کے مطابق 17 افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔حفاظت کی خاطر نام نہ بتا نے کی شرط پر اسلام آباد کے ایک ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ اموات کو چھپایا گیا ہے ۔تمام اموات اور زخمیوں کا ریکارڈ حکام نے ضبط کر لیاہے۔ تحریک انصاف پر پابندی لگانے اسے تقسیم کرنے کی فرسودہ حکمت عملی مزید انتشاراور تباہی پید کر ے گی۔ قومیں اخلاقی اقدار اور اتحاد سے ترقّی کرتی ہیں۔ جھوٹ سازش اور جبر سے عدم استحکام اورلاقانونیت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔