... loading ...
بے لگام /ستار چوہدری
کسی کے مارے جانے سے بات ختم نہیں ہوتی،شروع ہوتی ہے۔ نہیں یقین تو اکبر بگٹی کے مارے جانے کا واقعہ یاد کرلیں۔طاقت سے نفرت پھیلتی ہے،نفرت سے بغاوت پیدا ہوتی ہے۔ نہیں یقین تو سقوط ڈھاکہ دیکھ لیں۔ کسی کی وقتی کامیابی پر جشن،کسی کی وقتی ناکامی پرمایوس نہیں ہونا چاہیے۔نہیں یقین توواقعہ کربلا پڑھ لیں،یزید تھا،حسین ہیں۔ ایک بار ہارنے پر دل چھوٹا نہیں کرناچاہیے،دوبارہ کوشش کرو،پھر کوشش کرو،پھر کوشش کرو،آخر کامیابی آپکے قدم چومے گی۔نہیں یقین تو قسطنطنیہ(ترکی) کی تاریخ پڑھ لیں،عربوں نے سات سو سال کی کوششوں سے ترکی کو فتح کیا تھا،ہزاروں بار ناکام ہوکر واپس لوٹے تھے۔ ایک بارناکامی کے بعدجب آپ دوسری بار کوشش کرتے ہیں تو زیروسے شروع نہیں ہوتے،پچھلی ہار کا تجربہ آپ کے پاس ہوتا ہے۔ضیاء الحق مزید کئی سال حکمرانی کرنے کامنصوبہ بنائے بیٹھے تھے،چند لمحوں میں سارے منصوبے آگ میں جل کر راکھ ہوگئے۔پرویز مشرف جوطاقت کا مُکہ لہراتے تھے،وہ دن سب نے دیکھے،جب وہ مکے والا بازو بھی اپنی مرضی سے نہیں ہلا سکتے تھے۔کہاں ہے انکی قبر؟ فٹ پاتھ پر مرنیوالے ساغر صدیقی کی قبرکا سب کو پتاہے،لوگ روزفاتحہ پڑھنے جاتے ہیں،ساغرمیلہ بھی لگتا ہے۔کتنے فرعون،نمرود ہوگزرے۔ کہاں سکندر،کہاں ہے دارا،جام کہاں ہے جم کا۔۔۔ محبتیں دائمی ہیں، طاقت کو زوال ہے،طاقت صرف میرے رب کی،جو قائم ہے اور رہے گی۔انسانوں کورب آزماتا ہے،مہلت دیتا ہے،پھر رسی کھینچ لیتا ہے،شداد جیسوں کے قصے پڑھاکریں۔آپ ان کے ”بڑے قد” سے کیوں متاثر ہیں۔۔؟ او بھئی! کبھی دیکھنا،مشاہدہ کرنا،سورج جب ڈوبنے لگتا ہے تو چھوٹے آدمیوں کے سائے بھی بڑے ہوجاتے ہیں۔
لمبے قد میں بونے لوگ
اف یہ آدھے پونے لوگ
نہ جانے انہیں کیوں زعم ہے، وہ طاقت سے سورج کو طلوع نہیں ہونے دینگے،وہ چاند کو چمکنے نہیں دینگے،وہ تتلیوں کے دل سے پھولوں کی محبت نکال لیں گے، وہ بھنورے کوشمع سے دور کرلیں گے،وہ سمندرکی لہروں کو تابع کرلیں گے،وہ دریاؤں کی روانی روک پائیں گے۔۔۔ ہرگز نہیں،کبھی نہیں،ممکن نہیں،یہ بس وہم ہے۔دریاؤں کے آگے بھی کبھی پل باندھے گئے ہیں، اگر کوشش ہوئی ہے تو نتیجہ کیا نکلا ہے؟۔۔۔ سیلاب۔۔۔
گھبرانا نہیں، وہ بزدل ہیں،کیونکہ بزدل ہمیشہ اپنوں سے لڑتے ہیں،دشمنوں سے نہیں۔ وہ صرف بزدل ہی نہیں،نالائق بھی ہیں۔افلاطون نے اڑھائی سوسال قبل کہا تھا اگر معاشرے کے دو طبقات تاجراور فوجی طبقہ آگے بڑھ کر حکمرانی پر قبضہ کرلے تو ریاست میں تباہی ضرور آئے گی۔۔۔تباہی۔۔؟ کوئی شک ہے ابھی؟
باقی رہے،شریفے،زردارے اورانکے چیلے،چمچے،چمچیاں،کڑچھے۔ان کیلئے ایک حکایت۔
جنگل نے صدیوں کے سفر میں اپنا دستور بنایا۔ مثلاً شیر گوشت کھاتا ہے اور بھینس گھاس کھاتی ہے۔ بظاہر بھینس اور شیر کی کوئی دشمنی نہیں لیکن شیر پھر بھی شکاری اور بھینس شکار کہلاتی ہے۔ جنگل کا دستور کہتا ہے شیر کو بھینس کے شکار کا پورا حق حاصل ہے۔لگڑ بھگے جنگلی کتے اور گدھ بھی گوشت خور ہیں، لیکن یہ بھینس کا گوشت دیکھ دیکھ کر صرف للچاتے ہی ہیں، ریوڑ میں گھس کر شکار کی ہمت نہیں رکھتے۔ یہ پھر انتظار کرتے ہیں کب شیر کسی بھینس کا شکار کرے اور بچھا کچھا گوشت ان کو نصیب ہو۔ یہ مردار خور پھر اس جنگ سے لطف لیتے ہیں، کیونکہ اسی میں ان کی ضیافت کا سامان ہے۔کبھی بھینسے جنگل کے دستور سے بغاوت کر لیں۔ اپنے نوکیلے سینگوں پر شیر کو تن دیں اپنے بھاری بھرکم وجود سے اسے کچل دیں تب یہ مردار خور اور زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ نعرے لگاتے ہیں، کیونکہ بھینس شیر کو مار ضرور دیتی ہے لیکن کھاتی نہیں۔ جنگل کے اس دستور میں شکار اور شکاری کے درمیان مردار خور کا بس یہی کردار ہوتا ہے۔ جنگل میں صرف ان کے قہقہے سنائی دیتے ہیں،کیونکہ یہ کسی کے نہیں ہوتے۔
کسی کی وقتی کامیابی پر جشن،کسی کی وقتی ناکامی پرمایوس نہیں ہونا چاہیے۔ایک بار ہارنے پر دل چھوٹا نہیں کرناچاہیے،دوبارہ کوشش کرو،پھر کوشش کرو،پھر کوشش کرو،آخر کامیابی آپکے قدم چومے گی۔نہیں یقین تو قسطنطنیہ(ترکی) کی تاریخ پڑھ لیں،عربوں نے سات سو سال کی کوششوں سے ترکی کو فتح کیا تھا،ہزاروں بار ناکام ہوکر واپس لوٹے تھے۔یہاں تو کوئی ایک مرلہ زمین کا قبضہ نہیں چھوڑتا،یہ تو پورا ملک ہے۔طویل جدوجہد چاہیے،پختہ عزم،جہد مسلسل،قربانیاں،حوصلہ،برداشت۔۔۔کامیابی ضرور ملے گی،نہیں یقین تو نیلسن منڈیلا کی ”میری جدوجہد” پڑھ لیں۔