... loading ...
زریں اختر
ماحول فرد کو بنانے میں کتنے فی صد کردار کا حامل ہے؟ اکیسویں صدی کا آدمی صنعتی انقلاب کی شکر گزاری میں کیا کسی تشکیک کا شکار بھی ہے؟یاکیا اب اس تشکیک میں مبتلا ہوناکارے دارِد ہے؟ لیکن ایک بڑا فائدہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اس شک و شبے کے اثرمیں ہم اس طرح کے صارف ہونے سے بچ سکتے ہیں جس طرح کے صارفین کا معاشرہ سرمایہ دار کے اپنے دَھن میں اضافے کی دُھن میں اندھادھند بنتا چلا جارہا ہے۔ہم ایسے سرمایہ داروں ، کاروباریوں ، صنعت کاروں ، مقتدر اداروںاور اشرافیہ کی نیت پر یقین کیسے کرسکتے ہیں؟ یہ نہیں کہ آدمی کی زندگی میںحیران کن سہولتیں نہیں آئیں لیکن یہ بھی تو ہے کہ دوڑیں لگ گئیں،ایک عام آدمی کے لیے ان بے لگام دوڑوں میں لگام کیسے ڈالی جاسکتی ہے؟
یہ ہر معاشرے اور ہر دور میں باعث تشویش رہا ہے ۔ روسی نوبل انعام یافتہ ناو ل ”کینسر وارڈ”(ناول کا سن ِاشاعت 1966) مصنف الیگزینڈر سو لنسٹین کی چند سطریں ”عوام میں اعلیٰ تر معیار ِ زندگی کی جو عمومی خواہش پیدا ہورہی تھی ۔ ان کے درمیان اس پر بھی گفتگو ہوئی ۔ یہ رجحان گذشتہ چند برسوں میں خاص طور پر رونما ہوا تھااور اس کا اظہار کپڑوں ، فرنیچر اور مکانات کی آرائش اور روز بروز بدلتے ہوئے ذوق میں ہورہا تھا۔”(مترجم گوپال متل،ترجمے کا سنِ اشاعت 2016، ناشر فکشن ہائوس صفحہ 240)
جامعہ کراچی کے شعبہ انگریزی میں شام میں انگریزی سکھانے کے کورس کرائے جاتے تھے ۔ حقیقی استاد وہ ہے جس کے اسباق نصاب تک محدودنہیں ہوتے ،ان کا کینوس وسیع ہوتا ہے ، کہیںادب کو چھوتا ہے تو کہیںفلسفے کو، کبھی عمرانی حوالہ تو کبھی تاریخی،شاذکوئی ذاتی مثال لیکن اکثرزندگی گزارنے کا کوئی ڈھنگ ۔اگر ایسا استاد میسر ہوتو دنیا میں کلاس روم سے زیادہ اچھی جگہ بھلا کون سی ہوسکتی ہے۔ وہاں کلاس میں ایک استاد نے کہاکہ کسی استاد کا معیار زندگی کیا ہونا چاہیے؟ طالب علموں نے کچھ جوابات دیئے ۔ انہوں نے کہا کہ’ ایک مناسب سافلیٹ اور ایک چھوٹی سی گاڑی ، اگر اسے زیادہ کی خواہش ہو تو اسے استاد نہیں بننا چاہیے’۔
ہمارے طالب ِ علموں کے پیش کردہ ڈراموں میں(بحوالہ گذشتہ کالم) کچھ ڈرامے ایسے بھی تھے جن میں کامیابی کا ایک معیار ‘گاڑی’ تھی کہ طالب ِ علم سوٹِڈ بوٹِڈ ہمراہ ڈرائیور کار میں سفر کر رہا ہے یعنی کار ہونا زندگی میں کامیابیوں کی علامتوں میں سے ایک بڑی اور نمایاں علامت ہے۔ میں اگر اس قد آور علامت کا قد گھٹاتی تو طالب ِ علموں کے سامنے اس طرح کی بات اور میری ذات استہزاء کا سبب بن سکتی تھی اور شاید یہ بھی سمجھا جاتاکہ کیوں کہ خود کے پاس اب تک گاڑی نہیں ہے تو اس لیے کیا کریں ایسی ہی باتیں کریں گی اور صحیح بات تو یہ ہے کہ کچھ دن قبل تک شاید میں بھی اسی طرح سوچتی تھی ۔ اس سے کون انکار کرے گا کہ گاڑی سہولت کی چیز نہیں اور جیسا ٹریفک ہمارے ہاں پایا جاتا ہے ، لیکن میرے خیالات میںنجی گاڑی رکھنے کے سلسلے میں ٹھہرائولانے کا سبب بنی ایک کتاب ”مستقبل کی تاریخ”،مترجم سید سعید نقوی۔
ہر قاری یا کُتب بیں کے مطالعے کا بھی اپنا دائرہ ہے ، ناچیز کے نزدیک یووال نوح ہراری اس عہد کے ایک بڑے مفکر ہیں جن کا سماج کو سمجھنے کا اپنا جداگانہ نکتہء نظر ہے۔وہ معاشرے کو کلاں سطح (میکرو لیول ) سے دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔ کار کے بارے میں ان کی کتاب سے دو پارے نقل کررہی ہوں:”2010میں دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ نجی کاریں تھیںاور ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔یہ گاڑیاں ہمارے سیارے کو آلودہ کرتی ہیں،بہت وسائل ضائع کرتی ہیں،صرف زیادہ چوڑی سڑکوں اور پارکنگ کی مزید جگہوں کا تو ذکر ہی کیا۔افراد اب نجی ذرائع کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ ان کا بسوں یا ریلوں سے مطمئن ہونا دشوار ہے۔ لیکن ڈیٹا والے یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ افراد صرف نقل و حمل چاہتے ہیں،ایک نجی کار نہیںاور ڈیٹا عملیات کا نظام یہ نقل و حمل زیادہ سستا اور موثر طور پر پہنچا سکتاہے۔
میری ایک نجی کار ہے ،لیکن زیادہ وقت یہ پارکنگ لاٹ میں بے کار کھڑی رہتی ہے۔ ایک عام دن میں 8:04پر اپنی کار میں سوار ہوکر جامعہ پہنچتا ہوں ،جہاں میری کار سارا دن کے لیے کھڑی ہوجاتی ہے۔ شام 6:11میں اپنی کار کی جانب واپس لوٹتاہوں ،آدھے گھنٹے کا واپسی کا سفر شروع کرتاہوں ،اور بس۔ یوں میں اپنی کار سارا دن میں ایک گھنٹے کے لیے استعمال کرتاہوں۔باقی تئیس گھنٹوں کے لیے میں کیوں اسے رکھتاہوں؟تو کمپیوٹر الگوردم کے زیرِ انتظام ایک موثر کار کا اشتراکی نظام کیوں نہ قائم کیا جائے؟ کمپیوٹر کو معلوم ہوگا کہ میں 8:04 پر گھر سے نکلتاہوں ،اور وہ نزدیک ترین خود کار گاڑی مجھے اٹھانے کے لیے عین وقت پر میرے گھر بھیج دے گا، مجھے اتارنے کے بعد وہ دوسرے مقاصد کے لیے مہیا ہو جائے گی ،بجائے اس کہ یہ کار پارکنگ میں بے کار کھڑی رہے ۔عین 6:11شام جب میں پھاٹک سے نکلتاہوں،تو ایک اور مشترکہ کار میرے پاس آکر رکتی ہے اور مجھے گھر لے جاتی ہے۔اس طرح ایک ارب نجی کاروں کی جگہ پانچ کروڑ مشترکہ گاڑیاں لے سکتی ہیںاور ہمیں کم سڑکوں ،پلوں اور پارکنگ جگہوں کی ضرورت ہو گی۔ لیکن صرف اگر میں اپنی راز داری تج کرکے الگوردم کو یہ معلوم کرنے کی اجازت دیں کہ ہم کہاں ہیں اور کہاں جانا چاہتے ہیں۔”(سن اشاعت 2022ناشر سٹی بک پوائنٹ صفحات 287تا288)
یہاں تک جب پہنچ جائیں گے تو میرا خیال ہے کہ اپنے اوقاتِ کار کے ساتھ اور راز داری برتتے ہوئے بھی یہ ممکن ہوجائے گا کیوں کہ آزادی اور انفردیت کی قیمت پر کچھ بھی قابل ِ قبول نہیں ہو گا۔
ان اقتباس میں ڈیٹا عملیات اور الگوردم کی جو ترکیب و اصطلاح استعمال ہوئی ہیں ان کے ادراک کا تقاضا کتاب کا مطالعہ ہی پورا کرسکتا ہے ۔اتنی وضاحت ضرور کر دوںکہ یوں نہیں ہے کہ مصنف اشتراکی نظریے کا حامی ہے ۔
کاش ! یوٹوپیا کا خواب کسی سرمایہ دار کو آیا ہوتا۔ یہ بھی یوٹوپیائی خیال ہی ہے۔