وجود

... loading ...

وجود

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

بدھ 27 نومبر 2024 تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

ریاض احمدچودھری

انتہا پسند ہندوؤں نے بابری مسجد شہید کرنے کے 30 سال بعد اپنے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے تاریخی تاج محل کو میلی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے جس سے بھارت میں اسلامی ورثہ کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔وہ جھوٹے دعوے کر رہے ہیں کہ تاج محل کی ابتداء ہندو دور میں ہوئی،نریندر مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رہنما کی طرف سے دائر کی گئی حالیہ رٹ پٹیشن میں تاج محل کی ”حقیقی تاریخ کا مطالعہ” کرنے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا مطالبہ کیا گیا ہے جس کا مقصد یونیسکو کے ثقافتی ورثے کی جگہ تاج محل کو ہندوؤں کا ورثہ قرار دینا ہے۔
ایودھیا میں بی جے پی کے میڈیا سربراہ رجنیش سنگھ نے اپنی درخواست میں یہ عذر پیش کیا ہے کہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ”سائنسی ثبوت” نہیں ہے کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تاج محل تعمیر کیا تھا۔ باوجود اس کے کہ بھارتی عدالت نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنایا تھا تاہم بی جے پی کے رہنما کئی سالوں سے غیر تاریخی دعوے دہراتے اور بڑھاتے رہے ہیں کہ تاج محل درحقیقت ایک ہندو مندر ہے، جو مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور سے بہت پہلے بنایا گیا۔ہندوتوا کے ساتھ آر ایس ایس پورے بھارت میں مسلم حکمرانوں کی تعمیر کردہ تاریخی یادگاروں کے خلاف بیانیہ پیش کر رہی ہے۔
بی جے پی کے دور حکومت میں آر ایس ایس کے دائیں بازو کے ہندو شہروں کے نام تبدیل کرنے اور بھارت بھر میں 36,000 سے زیادہ مساجد کو مندر کی جگہ پر تعمیر کرنے کے دعویٰ کی مہم چلارہے ہیں ان شہروں میں علی گڑھ، دیوبند، فرخ آباد، بدایوں، سلطان پور، فیروز آباد اور شاہجہاں پور شامل ہیں۔ یوپی حکومت پہلے ہی فیض آباد کا نام ایودھیا اور الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کر چکی ہے۔مودی کے قریبی معاون اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ مسلم پس منظراضلاع اور علاقوں کے نام بدل کر مسلم شناخت کو مٹانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔اِن دنوں، بھارتی حکمراں جماعت ‘بھارتیہ جنتا پارٹی’ ان مختلف شہروں کے نام بدلنے کی مہم پر کاربند ہے جو کسی مسلم شخصیت کے نام سے منسوب ہیں۔اس سلسلے میں، اتر پردیش کے علاقے ‘فیض آباد’ کا نام بدل کر ضلع ‘ایودھیا’ رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ فیض آباد ضلع ہے اور ایودھیا اس کی حدود میں واقع ہے۔ ایودھیا اور فیض آباد کو جڑواں شہر کہا جاتا ہے۔یہ بھی اعلان کیا کہ ایودھیا میں ایک ایئرپورٹ تعمیر کیا جائے گا جو شری رام کے نام پر ہوگا، جبکہ ایک میڈیکل کالج بنایا جائے گا جو رام کے والد راجہ دشرتھ کے نام سے منسوب ہوگا۔ الہ آباد کا نام بدل کر ‘پریاگ راج’ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس پر زبردست تنازع چھڑا ہوا ہے۔ خود الہ آباد کے غیر مسلم اسکالر اس تبدیلی کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پریاگ راج تو پہلے سے ہی تھا۔ اکبر بادشاہ نے الہ آباد شہر بسایا تھا۔ لیکن، انھوں نے پریاگ راج کا نام نہیں بدلا تھا۔ پریاگ راج الہ آباد کے نزدیک پہلے سے موجود ہے۔ انھوں نے نیا شہر بسا کر اس کا نام الہ آباد رکھا تھا۔
الہ آباد اور فیض آباد کے نام بدلنے کے بعد گجرات میں احمد آباد کا نام بدل کر کرناوتی رکھنے کی بھی مہم شروع ہو گئی ہے۔ پہلے بی جے پی کے ایک رہنما نے اس کی تجویز پیش کی اور اور اب ریاست کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی کہتے ہیں کہ ہم احمد آباد کا نام بدل کر کرناوتی کریں گے۔ احمد آباد میں واقع بی جے پی کے دفتر پر جو بورڈ آویزاں ہے اس پر احمد آباد کے بجائے کرناوتی ہی لکھا ہے۔ بی جے پی کی تمام دفتری کارروائیوں میں کرناوتی ہی لکھا جاتا ہے۔ادھر، ‘شیو سینا’ نے مہاراشٹر کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اورنگ آباد اور عثمان آباد کے نام بدلے۔ اس کا کہنا ہے کہ اورنگ آباد کو شمبھا جی نگر اور عثمان آباد کو دھارا شیو کیا جانا چاہیے۔ اسکا کہنا ہے کہ یہ ہمارا بہت پرانا مطالبہ ہے۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ سابقہ کانگریسی حکومتوں نے مسلمانوں کو خوش رکھنے کے لیے ہمارا مطالبہ تسلیم نہیں کیا تھا۔ اب جبکہ ریاست میں بی جے پی شیو سینا کی حکومت ہے تو ان دونوں شہروں کے نام بدل دیے جانے چاہئیں۔ہماچل پردیش کی بی جے پی حکومت نے گزشتہ ماہ تجویز پیش کی تھی کہ شملہ کا نام شیاملہ کیا جانا چاہیے۔ لیکن شہریوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ تجویز واپس لے لی گئی۔اسی دوران، بعض طبقات کی جانب سے پٹنہ کا نام بدل کر پاٹلی پترا اور آگرہ کا نام اگروال کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ جنتا دل یو کے پون ورما کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار پٹنہ کا نام بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔خیال رہے کہ اس سے قبل حکومت نے نئی دہلی کے اورنگ زیب روڈ کا نام بدل کر ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام روڈ کر دیا ہے۔غیر جانبدار سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ناموں کی تبدیلی سے سیاسی مفاد پرستی کی بو آتی ہے۔ پون ورما کہتے ہیں کہ ہماری ثقافت اپنی جگہ پر لیکن اس طرح ہزاروں سال کی تاریخ کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ناموں کی تبدیلی کی اس مہم پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں توازن برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔متعدد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ناموں کی تبدیلی سے ہندووں کے ایک طبقے میں اپنی تہذیب و ثقافت کے نام پر ایک غیر ضروری اور خطرناک احساس پیدا کیا جا رہا ہے جو ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بقائے باہم کے نظریے کے خلاف ہے۔ ناموں کی تبدیلی کی حمایت کرنے والے دلیل دیتے ہیں کہ جب مدراس کا نام بدل کر چنئی، کلکتہ کا کولکاتا، اڑیسہ کا اڈیشہ، بنگلور کا بنگلورو اور بامبے کا ممبئی رکھا گیا تو لوگوں نے مخالفت نہیں کی تھی۔ لیکن اب جبکہ ہندو وقار کی خاطر نام بدلے جا رہے ہیں تو اس کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر