... loading ...
زریں اختر
‘نامعلوم’ کی جاں گزا ترکیب تاریخ کے اوراق میں اگرچہ ہمیشہ زندہ لیکن خبروں میںاب کہیں جاکے کچھ پرانی ہوئی تھی کہ پھر یاد دلا دی گئی، پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی کا یہ مصرعہ بھی ذہن میں کونداکہ ‘پھر مجھے دیا گیا ،اک دیا بجھا ہوا’اور غالب
نکتہ چیں ہے غم ِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہا ںبات بنائے نہ بنے
‘نامعلوم’ کی ترکیب کے ساتھ شرارتی فراستی طالب ِعلموں نے لفظ چور بھی چپکا دیا۔ اصل ہے خیال اورپھر وہ عمل جو خیال کو عملی شکل میں پیش کردے ،اُن کے لیے بھرپور داد اس دعا کے ساتھ کہ خدایا!’یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی’۔
ڈاکٹر ثمرین فیصل شعبہ ابلاغ ِ عامہ وفاقی جامعہ اُردو کی اُستاد ہیں جنہوں نے سال دوم میقات(سمسٹر) چہارم کا مضمون ‘تمثیلی ذرائع ابلاغ’ کے عملی کام میں طالبِ علموں کے مختلف گروپوں سے مختصر دورانیے کے کل نو ڈرامے بنوائے جو عبدالحق کیمپس کے سیمینار ہال میں دکھائے گئے۔ طالب علم ہر طرح کے ہوتے ہیں، کچھ دل سے سیکھنا چاہتے ہیں کچھ کام اتارتے ہیں، وہ صاف پتا چل جاتا ہے۔ ڈرامہ ادب بھی ہے اور فن بھی ، اس میں کہانی ہے ، اسکرپٹ ہے ، مکالمہ ہے ،مکالمے کی ادائیگی ہے، سیٹ ہے ، اداکار ہیں ۔۔۔اور بہت کچھ جو اس سے براہِ راست وابستہ لوگ ہی جان سکتے ہیں۔ فرانسیسی فلسفی ادیب ژاں پال سارتر کے نزدیک ادب میں پیغام بین السطور ہوتاہے اور یہی اس کی خوب صوررتی ہے، ڈرامہ نگار مبلغ نہیں ہے کہ پند و نصائح شروع کردے ۔ طالب علموں کے پیش کردہ وہ ڈرامے جن میں براہِ راست نصیحت کی گئی یا جن میں انجام اچھا و برا فوری دکھادیا گیا،میرے لیے بے اثر رہے ۔ اس کے بالکل برعکس ڈرامہ ‘نامعلوم چور’ اپنے توانا ضمنی پیغام کی وجہ سے سب پر بازی لے گیا۔ سوچنے والے اذہان اور محسوس کرنے والے دل ہی ایسے تھیم پر کام کرسکتے ہیںاور کرتے ہیں۔ اس ڈرامے کی ایک اور خوب صورتی جو منی پاکستان کراچی کا طرئہ امتیاز رہا ہے اور جامعہ اُردو کا بھی وصفِ امتیاز ہے کہ یہاں اور خاص طور پر عبدالحق کیمپس میں ملک بھر کے طلبہ داخلہ لیتے ہیںاور یوںیہ ادارے قومی و ملکی روابط و وحدت کے لیے مرکز کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس ڈرامے میں کہانی کا خیال اور مکالمہ نویس و اداکارعقیل الرحمن خیبر پختون خوا، حکیم اللہ خیبر پختون خوا، بشارت حسین گلگت و بلتستان ، عبد الصبورآزاد کشمیر اور موبائل کیمرہ مین جنید احمد کا تعلق خیبر پور سندھ سے ہے۔
ڈرامہ جس طرح پیش کیاگیااورجس طرح لکھا جاتا ہے، اسی طرح پیش ِ خدمت ہے:
کردار:
کنڈکٹر: حکیم اللہ
مسافرنمبر ایک (دوراِ نِ سفر سو رہا ہے): عبد الصبور
جیب کترا: بشارت حسین
مسافرنمبر دو: عقیل الرحمن
موبائل کیمرہ ریکارڈنگ: جنید احمد
پہلا منظر: بیرونی
ہلکا سا دھندلکا جو سردیوں کی صبح میں ہوتاہے ، سڑک پر معمولی ٹریفک کی آمد و رفت اور اس پر ڈرامہ پیش کاروں کے نام۔
دوسرا منظر: منی بس میں سفر کرتے مسافروں کو دکھایا گیا ہے ۔ ایک مسافرسو رہا ہے ، جیب کترا بس میں سوار ہوتا ہے۔ اس کے چہرے کے محض ایک تاثر سے ناظرین بھانپ لیتے ہیں کہ وہ برے ارادے سے بس میں سوار ہوا ہے۔وہ اس سوئے ہوئے مسافر کی پچھلی سیٹ پربیٹھ جاتاہے ۔ایک مرتبہ سوئے ہوئے مسافر کی جیب میں سے بٹوہ نکالنے کی کوشش کرتاہے ، نکال نہیں پاتااور دوسری دفعہ میں بٹوہ نکال لیتا ہے۔ اب کنڈکٹر کرایہ مانگنے آتاہے، ڈرامے کے اس منظر سے مکالمہ شروع ہوتاہے :
کنڈکٹر: کرایہ دے دو ، کہاں جانا ہے؟
جیب کترا: بدین ، کتنا کرایہ؟
کنڈکٹر: پانسو روپے دو
جیب کترا مسافر: پانسو؟ (ایسے لہجے میں کہتا ہے جوکرایے کے زیادہ ہونے پر شکایتی مسافروں کا ہوتاہے، کرایہ دیتاہے،اب کنڈکٹر سوئے ہوئے مسافر کے پاس آتاہے)
کنڈکٹر: (مسافر کو جگانے کے لیے ذرا زور سے پکارتاہے) بائو جی او بائو جی، کرایہ نکال ، کہاں جاناہے؟
مسافر : حیدر آباد
کنڈکٹر: سات سو روپے دے
مسافر: (بٹوہ نکالنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالتاہے ) میرا پرس ؟ میرا پرس چوری ہوگیا( پر تشویش لہجے میںکہتے ہوئے اور ایسے ہی تاثرات لیے چہرے سے کنڈکٹر کی طرف دیکھتاہے)
کنڈکٹر: (مضبوط لہجے کے ساتھ ) ہوگیا ڈرامہ شروع، تم جیسے دھوکے بازوں کو بڑے اچھے طریقے سے جانتاہوں، نکال پیسے نکال
مسافر: میرا یقین کریں ، آج ہی تو تنخواہ ملی تھی(منمناتا ہے)
کنڈکٹر : (اس کا جواب دہرائے ہوئے )آج ہی تو تنخواہ ملی تھی، دوسری بات یہی ہوتی ہے ، شرم تو نہیں آتی جھوٹ بولتے ہوئے
مسافر: (رو دینے والے انداز میں) یقین کریں ، میرا پرس چوری ہوگیا، آج ہی تو تنخواہ ملی تھی
کنڈکٹر: (ڈرائیور کو مخاطب کرتا ہے ) استاد جی روکو
جیب کترا: (فوراََسیٹ سے کھڑا ہوتا ہے اور مداخلت کرتاہے) جانے دو، کیا بد تمیزی کر رہے ہو ، مسافر ہے بے چارہ، گر گئے ہوں گے ، یا کوئی چھین لیا ہوگا،اس طرح سے نہیں کرنا چاہیے ، تمیز سے پیش آنا چاہیے تجھے
کنڈکٹر: اتنی ہی فکر لگی ہوئی ہے تو اس کی جگہ تم پیسے دے دو
جیب کترا: کتنے ہیں ؟ کتنے ہیں؟
کنڈکٹر: سات سو روپے
جیب کترا: سات سو روپے کے لیے تو اس کے ساتھ لڑ رہاہے، بے چارہ مسافر ہے ،( اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر بٹوہ نکاتاہے ) لو یہ لو
کنڈکٹر: روز ہی ہوتاہے صاحب، روز مسافر آتے ہیں
جیب کترا: یہ لو یہ لو ، میں دے رہوں ، میں دے رہاہوں
کنڈکٹر: دیو سات سو روہے اتنی باتیں کررہے ہو
جیب کترا: یہ لو یہ لو سات سو روپے
کنڈکٹر: بقیہ واپس کرتا ہے
جیب کترا: (بقیہ واپس نہیں لیتا ) یہ رکھ تو یہ بھی رکھ، اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا ( پھر کنڈکٹر سے کہتاہے )اس سے معافی مانگو ، اس سے معافی مانگو تم، اس طرح بغیر ثبوت کے تمہیں اس طرح نہیں کہنا چاہے
کنڈکٹر: (کچھ بدبداتاہے ، جیسے معافی کے الفاظ ادا کررہاہو)
جیب کترا: (دوبارہ کنڈکٹر سے ) تمہیں شرم آنی چاہیے ، سات سو روپے کی خاطر ، معافی مانگ تمیز سے، معافی مانگ
کنڈکٹر: (عاجز آتے ہوئے مسافر کے سامنے ہاتھ جوڑتاہے) اس میں کیا بڑی بات ہے ، بائو جی !مجھے معاف کردیجیے
مسافر: ( تشکر آمیز انداز میں جیب کترے کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے ) آپ جیسے لوگ معاشرے کا فخر ہیں
جیب کترا: (چہرے پر فخریہ تاثرات کے ساتھ سر ہلاتے ہوئے ) کوئی بات نہیں ، کوئی بات نہیں، انسان پہ ایسے وقت آتے ہیں ، میرے کو ڈھارس ہے، میرے بھیا ! آپ بیٹھیں آپ بیٹھیں
تیسرا مسافر: آپ نے بجا فرمایا ، آج کل کے دور میں !میں دل کی گہرائیوں سے آپ کو سلام کرتاہوں (ہاتھ سر تک لے جا کر سلام کرتاہے)
جیب کترا: بندہ ناچیز اس قابل نہیں ، لیکن پھر بھی آپ کا شکریہ
تیسر ا مسافر: (دعائیں دینے لگتا ہے )
جیب کترا: میرا اسٹاپ آگیا (یہ کہتے ہوئے منی بس سے اتر نے کے لیے دروازے تک جاتاہے ا ورمسکراتے ہوئے مسافروں کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتا ہوا بس سے اتر جاتاہے) ۔
پس منظر میں آواز اور اسکرین پر لکھا آتاہے: آواز حکیم اللہ کی
”چور ہمیں بیوقوف بنا کر ترقی کرتے کرتے ،کہاں سے کہاں پہنچ گئے ،اور ہم اب تک بس میں لٹ رہے ہیںاور چوروں کا شکریہ اداکرتے ہوئے انہیں دل سے دعائیں دے رہے ہیں”۔
تین منٹ سات سیکنڈ کا یہ ڈرامہ ختم ہوا ۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔