... loading ...
اداریہ
کراچی میں اسلحہ کی نمائش کامیابی کے ساتھ اختتام پزیر ہوچکی ہے ، لیکن ابھی تک حکومت یا آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ اس نمائش کے دوران پاکستان کے تیار کردہ کس طرح کے اسلحہ کے کتنی مالیت کے سودے ہوئے اور نمائش میں شرکت کرنے والے 50 سے زیادہ ممالک میں سے کس کس نے پاکستانی اسلحہ کی خریداری کے سودے کئے،جبکہ پاکستان کے عوام کو اس نمائش سے زیادہ اس میں ہونے والے سودوں کی وجہ زرمبادلہ کہ ممکنہ اور متوقع آمدنی سے تھی۔ پاکستان میں 2012سے کراچی میں اسلحہ کی نمائش ہورہی ہے۔ اس میں عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان دفاعی لحاظ سے اپنا اسلحہ خود بنارہاہے بلکہ کچھ اسلحہ برآمد کرکے قیمتی زرمبادلہ بھی کما رہا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق فی الوقت پاکستان دنیا کے 14 ممالک کو اسلحہ برآمد کررہا تھا اور اس نمائش میں رکھنے جانے والے مختلف ڈرونز کی وجہ سے اسلحہ کی فروخت اور یہ اسلحہ خریدنے والے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہونے کی توقع تھی ۔اطلاعات کے مطابق نمائش میں پاکستان کا تیار کردہ جو اسلحہ رکھا گیاتھا اس میں جدید اور روایتی اسلحہ دونوں شامل تھے۔ اسلحہ کی تیاری اور اپنی ضرورت کا اسلحہ خود تیار کرنے کی صلاحیت بڑی اہمیت رکھتی ہے اس سے کسی بھی ملک کا دفاع مضبوط تر ہوتاہے اور ملک کے دفاع کیلئے دیگر ممالک کی محتاجی کم ہوجاتی ہے ، تاہم اسلحہ سازی کے حوالے سے پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے یعنی ہتھیارامن کے لئے’ تاہم اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بحیثیت پاکستانی قوم اپنے آپ کو دفاعی اعتبار سے مضبوط رکھنا چاہتا ہے’ اسلام کا بھی یہی درس ہے۔ یعنی اپنے گھوڑوں کو تیاررکھو۔ ویسے بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ کسی بھی قوم کی مضبوطی کا تعلق اس کے پاس روایتی اور جدید اسلحہ سے ہے’ یعنی وہ کس حد تک دشمن کے حملوں کامقابلہ کرنے کی سکت رکھتاہے۔ چنانچہ پاکستان نے روز اول ہی سے اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ اگر کسی بھی جانب سے اس پر حملہ کیاجاتاہے تو وہ اس کا منہ توڑ دواب دینے کی صلاحیت رکھتاہو۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو روز اول سے اپنے قریبی ہمسائے سے حملے کا خطرہ رہا ہے ،جبکہ پاکستان ایک پرامن ملک ہونے کے ناطے یہ بھی نہیں چاہتاہے کہ اپنے ہمسائیوں سے کسی نہ کسی بہانے سے جنگ کا آغاز کیاجائے’ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتاہے کہ کوئی بھی ملک اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی خاطر اپنے دفاع پر ضروری توجہ دیتاہے۔ پاکستان کی مثال اس ہی زمرے میں آتی ہے۔ پاکستان کو روز اول سے اپنے قریبی پڑوسی بھارت سے حملے کاخطرہ درپیش رہاہے ان دونوں کے درمیان کشمیر کے مسئلہ پر3 سے زیادہ مرتبہ جنگ ہوچکی ہے۔ اس لئے پاکستان کو اپنے جغرافیائی اور سیاسی وجود کو برقرار رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوشش کرتا رہے کیونکہ اس کا پڑوسی ملک بھارت کسی بھی وقت پاکستان کیلئے ایسے مسائل پیدا کرسکتاہے جس کی وجہ سے پاکستان کی سا لمیت کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتاہے۔ بلکہ ماضی میں ایسا ہوا بھی ہے۔اس لئے پاکستان اپنے وجود کو قائم رکھنے اور اس کو ہرگزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر بنانے پر خصوصی توجہ دیتارہتاہے۔
اسلحہ کی نمائش سے ہرگز یہ مطلب نہیں اخذ کرناچاہیے کہ پاکستان اپنے پڑوسی ممالک پر حملہ کرکے ان پر قبضہ کرناچاہتاہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ پاکستان ایک پرامن ملک ہے، وہ اپنے پڑوسی ممالک سمیت دنیا کے تمام ملکوں کے ساتھ پرامن تعلقات استوار کرناچاہتاہے تاکہ امن کی فضا میں امن کی فاختہ مسلسل پرواز کرتی رہے۔ ویسے بھی پاکستان نے کبھی بھی کسی ملک پرحملہ نہیں کیا ہے۔ بلکہ اس پر حملہ کیا گیا ہے۔ اس کے جغرافیائی حدود کو بدلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن پاکستان کی بہادر افواج اور عوام نے باہم مل کر دشمن کے اس مذموم عزائم کو ناکام بنادیاہے۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتاہے کہ کسی ملک کاتحفظ فوج’ عوام اور جدید اسلحہ کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ۔ پاکستان کا پڑوسی ملک بھارت ہرلحاظ سے پاکستان کا دوست نہیں ہے بلکہ اس نے ہمیشہ پاکستان کو کمزور کرنے اور دولخت کی کوشش کی ہے۔ لیکن پاکستان کے مضبوط دفاع نے اس کی ان سازشوں کو ناکام بنادیا ہے۔ ویسے بھی پاکستان ایک پرامن ملک ہے، جو اپنے پڑوسی ممالک کے علاوہ دنیا کے تمام ملکوں کے ساتھ پرامن وخوشگوارتعلقات استوار کرنا چاہتاہے بلکہ کئے ہوئے ہے۔ لیکن جدید دنیا میں بعض ممالک کے درمیان تنازعات موجود ہیں جس کے پس منظر میں اپنے آپ کو دفاعی لحاظ سے مضبوط رکھنا اشد ضروری ہے’ چنانچہ پاکستان اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتاہے’ اس کیلئے وہ مقامی طور پر دفاعی ہتھیار بنارہاہے بلکہ بیرونی ممالک سے جدید اسلحہ خرید رہا تاکہ ملک کے دفاع کومضبوط سے مضبوط تر بنایا جاسکے ۔ایسا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے بھارت کئی مغربی ممالک سے جدید اسلحہ خریدکر اپنے دفاع کو مضبوط بنارہاہے .
پاکستان میں اسلحہ کی نمائش کا بنیادی مقصد یہ ہوتاہے کہ پاکستان کو دفاعی اعتبار سے مضبوط سے مضبوط تر بنایاجاسکے تاکہ کوئی بھی دشمن ملک پاکستان کو میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔ ہرچند کہ پاکستان پڑوسی ممالک سمیت ہر ملک کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کرنا چاہتاہے بلکہ اس نے ایسا کرکے عملی مظاہرہ بھی کیاہے۔ لیکن جدید دنیا میں بعض ممالک ایسے بھی ہیں جو دوسرے ملکوں پرقبضہ کرناچاہتے ہیں’ اس کی ایک مثال اسرائیل ہے جوگزشتہ کئی دہائیوں سے فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کئے ہوئے ہے بلکہ طاقت کے زور پر انہیں مسلسل بے گھر بھی کر رہا ہے۔ اس کا توڑ صرف یہ ہے کہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کو جدید اسلحہ اور انسانی جذبے کے زور سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان اپنے طور پر جدید اسلحہ بنارہاہے بلکہ اس کو بیرونی ممالک میں فروخت بھی کررہاہے۔ خدا کاشکرہے کہ اب پاکستان ہرقسم کا اسلحہ بنانے کی صلاحیت رکھتاہے، جس میں ٹینک اور ہوائی جہاز بھی شامل ہیں۔ ہرچند کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور اپنے وسائل عوام کی ترقی کیلئے استعمال کر رہا ہے لیکن اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتاہے کہ بعض ممالک پاکستان کے لئے خطرے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اس لئے پاکستان جدید اسلحہ بنارہاہے تاکہ اپنے دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر بنایاجاسکے اور دشمن کے حوصلوں کو پست کیاجاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوہر قابل کا انخلا اور حکمرانوں کو کوئی فکر نہیں
میڈیا کے مطابق گزشتہ سال 2023کے دوران سب سے زیادہ تعداد میں جس ملک سے لوگوں نے ہجرت کی، وہ پاکستان ہے۔
پاکستان سے باہر بھاگنے والوں کی تعداد 16 لاکھ سے زیادہ تھی۔ دوسرے نمبر پر سوڈان تھا جہاں سے ساڑھے 13لاکھ سوڈانیوں نے ہجرت کی۔ بھارت تیسرے نمبر پر تھا۔ پونے 10 لاکھ بھارتی ہجرت کر کے ملک سے باہر چلے گئے عالمی اعداد وشمار دیکھے تو معلوم ہوا کہ اصل معاملہ اور ہے۔ یہ آبادی کا دبائو نہیں ملکی حالات سے مایوسی ہے جو لوگوں کو ترک وطن پر مجبور کر رہی ہے۔ سوال وہی ہے جو اوپر ذکر کیا ہے۔یقیناکیا اس ملک کے حکمرانوں کو اس صورتحال کا علم ہے؟ ملک کے حکمرانوں میں تمام سیاستدان، تمام پارلیمنٹیرین اور مقتدرہ، سب شامل ہیں! کاش نواز شریف، شہباز شریف، صدر زرداری، آرمی چیف، سب اس پر تشویش کا اظہار کرتے۔ پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوتی۔ ایک کمیٹی بنتی جو اس صورتحال کے اسباب پر غور کرتی۔ الیکٹرونک میڈیا پر مباحثے ہوتے! یہ معلوم کیا جاتا کہ ان سوا سولہ لاکھ افراد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ کتنے ہیں؟ ملک پر ہولناک درجے کے اس برین ڈرین (Brain Drain) کے کیا منفی اثرات پڑیں گے؟ جانے والوں میں لیبر کلاس کتنی ہے؟ مگر لگتا ہے کہ اس ملک کا کوئی والی وارث نہیں۔ ذمہ دار افراد اور اداروں کو یقینا اس تشویشناک صورتحال کا علم ہے نہ پروا۔ ایک سابق وزیراعظم نے تو کھلم کھلا کہہ بھی دیا تھا کہ لوگ ملک سے باہر جاتے ہیں تو جائیں! اسی بے رحمانہ انداز میں ایک سابق صدر نے بھی امریکہ میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ یہ عورتیں اس لیے ریپ ہوتی ہیں کہ مغربی ملکوں میں پناہ حاصل کر سکیں! حکمران ملک کا ایک لحاظ سے باپ ہوتا ہے۔ اگر باپ ہی لاتعلق ہو جائے تو بچوں کا کیا بنے گا 16 لاکھ پاکستانی صرف ایک سال کے اندر اپنی دھرتی، اپنی مٹی، اپنے ماں باپ اور اپنے اعزّہ واحباب سے جدا ہو کر پردیس چلے گئے۔ کسی عدالت نے از خود نوٹس لے کر ریاست اور حکومت سے نہیں پوچھا کہ تم ایسے حالات پر خاموش کیوں ہو جن کی وجہ سے لوگ یہاں نہیں رہنا چاہتے۔ صدر اور وزیراعظم قوم کے بچوں کے باپ کی طرح ہیں۔ وہ یقینا اس حقیقت سے لاعلم نہیں ہوں گے کہ دھرتی مخلوق پر تنگ ہو رہی ہے لیکن یہ معلوم ہونے اور بسااوقات اس کا اعتراف کرنے کے باوجود کسی کو اس صورت حال کی کوئی فکر نہیں کہ بچے اپنا ملک چھوڑ کر کیوں جا رہے ہیں؟ خلقِ خدا پاکستان سے کیوں بھاگ رہی ہے؟ مختصر ترین جواب تو یہ ہے کہ یہ انخلا اس نالائقی، خود غرضی اور اونچی سطح کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے جو کئی دہائیوں سے اس ملک کو اپنے بے رحم جبڑوں میں لیے راج کر رہی ہے یہ جو بہت بڑا انخلا پچھلے سال ہوا ہے اور اس سال بھی جاری ہے، اس کی سب سے بڑی اور فوری وجہ ہوشربا گرانی ہے۔ لاکھوں کمانے والے بھی رو رہے ہیں اور ہزاروں کمانے والوں کو تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ دوائوں سے لے کر آٹے دال تک اور ٹرانسپورٹ کے کرائے سے لے کر اسکولوں کی فیسوں تک’ کچھ بھی استطاعت میں نہیں رہا۔جو طاقتور افراد اس صورتحال کو بدل سکتے ہیں اور بدلنے کے ذمہ دار ہیں، ان کی اپنی ترجیحات ہیں۔ ان کے لیے مہنگائی مسئلہ ہے نہ زرمبادلہ!! دوسرے ملکوں میں وہ جس آسانی سے اور جس کثرت سے جاتے ہیں اس طرح پنڈی سے گوجر خان، لاہور سے شیخوپورہ اور کراچی سے حیدرآباد جانا مشکل ہے۔ سچ یہی ہے کہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ملک چھوڑنے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ گرانی اور بے روزگاری اس پر مستزاد
ہیں۔ کیا ملک کی معیشت کی ترقی کے اعشاریے بتاکر سینہ پھلانے کی کوشش کرنے والے ارباب اختیار اس طرف توجہ دینا پسند کریں گے۔