وجود

... loading ...

وجود

غموں کا پہاڑ

اتوار 24 نومبر 2024 غموں کا پہاڑ

زریں اختر

اگر ما ںہی بیٹے کے سر پر غموں کا پہاڑ توڑ دے تو؟یہ ایسا واقعہ ہے کہ اس کی نوعیت کو الفاظ نہیں دے پا رہی کہ اندوہ ناک لکھوںیا ہیبت ناک ؟ حسد کی آگ کیا اتنا اندھا بھی کر سکتی ہے ؟ ایسی انسانیت سوز قتل کی سازش جوگھر کی عورتوں نے گھر کی اکیلی عورت کے لیے گھڑی کہ اس کا شوہر روز گار کے سلسلے میں سعودیہ عرب میں تھا۔ جس طرح آگ بھڑکتی اور پھیلتی ہے اور کچھ نہیں دیکھتی بالکل اسی طرح حسد کی یہ اندھی آگ بھی پھیلی اورپورا گھر بھسم کر ڈالا ۔ اب قدیر(مقتولہ کا شوہر) کس دل کے ساتھ اس مکان میں قدم رکھے جسے اس کی ماں اور بہن نے اس کی بیوی ، اس کے بچے اور ایک ہونے والے بچے کی ماں کے لیے قتل گاہ بنا دیا ؟ اس خوف ناک آگ کی تپش میںاس کے بیٹے، پوتے اور باپ سب کی زندگیاںجھلس گئیں ۔ حسد و جلن کی اس آگ نے اتنا اندھا کیا کہ وہ عورتیں اپنے ابدی انجام کی تو کیا فکر کرتیں وہ دنیا میں بھی اپنے انجام سے بے خبر ہوگئیں کہ ایک خبر یہ بھی آئی کہ جب وہ حوالات یا جیل پہنچیں تب بھی آنکھوں پہ بندھی حسد کی پٹی کھلی نہیں تھی اور وہ یہ کہہ رہی تھیں کہ’ کیا یہاں لوگ نہیں رہتے ؟ کیا یہ انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں؟رہیں، اب رہیں گی تو پتا چلے گا کہ کتنا رہنے کی جگہ ہے۔جیل کی ایک رات بھی بہت ہے اور ابھی تو ہزاروں راتیں باقی ہیں ،گھر کی چھت ہی نہیں گنوائی ،رشتے ہی پامال نہیں کیے ، ہاتھ ہی خون سے نہیں رنگے ،دین و دنیا گنوائی ہیں۔وہ عورت جسے بیٹے کی خوشی نہ بھائے بلکہ وہ الٹا حسد میں جلنے لگے اور اس میںاتنی اندھی ہو جائے(میں یہاں قتل کی تفصیلات نہیں دہرا سکتی) تو اس کا آخری مقام جیل کی کال کوٹھڑی ہی ہونی چاہیے اور اس کو آخری سانس تختہ دار پر ہی آنی چاہیے۔
یہ واقعہ مرکزی ذرائع ابلاغ پر اور یوٹیوب چینلوں پرتو مستقل بیان ہورہا ہے۔ یوٹیوبر شاہد ثقلین نے قاتلہ ماں کے اس بیان پر کہ” بیٹا پیسے بیوی کے اکائونٹ میں بھیجتا تھا اور بیوی ماں کو دیتی تھی”، تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بیٹے کو چاہیے تھا کہ ماں کے نام سے ایک اکائونٹ الگ بنوا دیتا اور اس میں اس کو الگ سے پیسے بھیج دیا کرتا۔یہ باتیں اگرچہ کہ اب پچھتاؤں کے ذیل میں ہیںاور شاہد صاحب نے بھی یہ جس طرح بیان کیاتھا کہ جیسے اب یہ سب کہنے کا کیا فائدہ۔ جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ شکایت بیٹے سے کرنی تھی ، جو کہنا سننا تھا وہ بیٹے سے تھا ۔دوسری طرف بیٹے کو طلاق کا مطالبہ اور بہو پر بد چلنی کا الزام لگانے والی ماں پر بھروسہ نہیں کرناتھا۔ کرداری خصوصیات سے عاری اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل رشتوں کی تقدیس کبھی کبھی کیسی بھاری پڑ جاتی ہے۔
خیال پر کو ئی گرفت نہیں، لیکن عمل پر ہے ۔ قتل کا خیال جس کو آیا ، ساس نند میں سے کسی کے منہ پر یوں آیا ہوگا کہ ‘دل کرتا ہے کہ اس کی جان ہی لے لوں’ اور دوسرے نے کہا ہوگا کیوں نہیںلے سکتے۔ اس موقع پر اگر اندر سے کوئی آواز نہیں آئی کہ یہ کیا سوچ رہی ہو؟ یا زبان پر آنے پر سننے والے نے نہیں ٹوکا کہ یہ کہہ بھی کیسے سکتی ہو؟ نہ خیال اندر ہی روکنے والی سوچ آئی نہ زبان پر آنے پر باہر سے رد آیا ۔عورتوں کے درمیان یہ پہل جس نے بھی کی ،بات قتل تک پہنچی ، حسد کی چنگاریوں کو ہوا مل گئی ۔
زہرہ کی اور اس کی نند یاسمین کی جو تصویریں میڈیا پر آئیں ، یہ بھی یو ٹیوبر شاہد ثقلین نے بتایا کہ زہرہ کے بارے میں لوگوں کاکہنا ہے کہ ‘ وہ سنجیدہ طبیعت کی تھی اور کچھ عرصے قبل ماں کے انتقال کے بعد اور بھی سنجیدہ رہنے لگی تھی ‘۔ اس کی تصویر میں بھی اگرچہ کہ اس کے لباس سے معلوم ہورہا ہے کہ کسی تقریب کی ہے لیکن چہرے پر ہنسی تو دور کی بات ہلکی سی مسکراہٹ بھی نہیں ہے ، یہاں تک کہ آنکھیں بھی خاموش ہیں۔ دوسری طرف یاسمین کی تصویر کہ اگر ان کے شخصی محاسن و عیوب کے متعلق نہ بھی بتایا جائے تو چہرے کے تاثرات سے کوئی اندازہ لگا سکتاہے اور تفتیشی ماہرین بھی بتا سکتے ہیںکہ یاسمین کے دیکھنے کا انداز اور آنکھوں کا تاثر اس کی مزاج کی تیزی اور ذہن کے سازشی ہونے کی نشان دہی کررہا ہے ۔
یوٹیوبر نے جو خبریں دیں ، اس میں یہ بھی تھا کہ زہرہ اپنے باپ کے گھر رہ رہی تھی تو اس کی ساس اسے آکر لے گئیں، یہ بھی کہ زہرہ نے قتل کی واردات سے ایک دن قبل کچھ ایسا تذکرہ بھی اپنے باپ سے کیا کہ وہ کچھ نامناسب یا غلط سا ماحول میں محسوس کررہی ہے ، لیکن جیسا کہ ہم اپنے بہت سے احساسات کو خود ہی وہم سمجھ کر رد بھی کردیتے ہیں ، حالا ںکہ اس کا باپ پولیس میں ہے ، اس کے باوجود اسے معصومیت نہیں تو اور کیا کہیں گے کہ زہرہ اپنے کمرے کا دروازہ کھلار کھ کر سوتی تھی ۔ اس کی معصومیت نے ایک خیال کو وہم سمجھ کر رد کر دیا اور ان عورتوں کی سفّاکیت کہ قتل کے شیطانی خیال کواس کے ہولناک انجام تک لے گئیں۔
یوٹیوبر مہرین سبطین نے وہ محاورہ بولا جو زہرہ کے شوہر قدیر کے لیے میرے ذہن میں تھا کہ اس پر تو غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔کبھی کوئی بیماری بھی ناگہانی کی طرح گھیر لیتی ہے، حادثہ ایک الگ ناگہانی ہے ، دہشت گردی اس سے بڑھ کر ناگہانی ہے ، جنگی صورت ِ حال تو المیوں کا سلسلہ ہے ، اور اس طرح کا واقعہ ؟
میاں بیوی کے رشتے کے درمیان کسی کا آنا ، دوری پیدا کرنا ، دراڑ ڈالنا،مذہبی و اخلاقی تعلیمات کے مطابق گناہِ عظیم ہیں کہ یہ کام شیطان کے چیلے ہی انجام دیتے ہیں ۔ کوئی بیماری کسی سے اس کا محبوب ساتھی چھین لے ، کوئی حادثہ ، کوئی اندھی گولی ۔۔۔غم اپنی جگہ ہے لیکن بہت فرق ہے۔
کون کہہ سکتا ہے کہ کسی کی جوان اولاد بیماری سے جاں بحق ہوجائے تو اس میں، روڈ ایکسیڈنٹ میں مر جائے تو اس میں اور پشاور اسکول میں شہید ہونے والے بیٹوں کی اموات میںکوئی فرق نہیں ؟جہاں دکھ اور غم کی نوعیت کا پیمانہ بدلا وہاں لواحقین کے لیے صبرکا پیمانہ بھی بدل جاتاہے، بدلنا پڑجاتا ہے ۔
یہ کہنا بڑا آسان ہوتاہے کہ میں تمہاری جگہ ہوتا تو یہ کرتا، کوئی بھی قدیریا زارا کے باپ کے دکھ کا اندازہ نہیں کرسکتا۔ زارا کے بیٹے پر جو ماں کی اچانک جدائی کیا لاشعوری اثرات مرتب کررہی ہے؟ وہ اس افراتفری کے ماحول میں کیا محسوس کررہا ہے ؟ اس کی سمجھ میں کیا آرہا
ہے؟ اس کے لیے قدیر کو چاہیے کہ کسی ماہر نفسیات سے ضرور رابطہ کرے کہ وقت گزرنے کے ساتھ جب حقیقت اس کے سامنے آئے تو اس کے ان اثرات کو جو خود اس کی شخصیت کی بڑھوتری کے لیے مضر ہوں ، کیسے زائل کیا جاسکتاہے اور اس کو کیسے ان اثرات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
قدیر اپنی ماں کو کیسے معاف کرسکتاہے؟ اس کی ماں نے (کیوں کہ تمام قاتلین میں وہی گھر کی بڑی تھی ) اس کی بیوی پر ظلم کیا ، اس پر ظلم کیا ، اس کے باپ پر ظلم کیا اور اس کے بیٹے پر ظلم کیا اور اس ان دیکھی روح پر ظلم کیا ۔
قدیر اپنی ماں کو اپنی بیوی کا قتل معاف کرسکتاہے لیکن کیا وہ اپنے ڈھائی سالہ بیٹے اور اپنی اس اولاد کا قتل بھی معاف کرسکتاہے جو دنیا میں نہیں آئی ؟ کیا زارا کا باپ اپنی اکلوتی بیٹی کا قتل معاف کر رہاہے ؟
انصاف کا تقاضا کیا ہے؟

 


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر