وجود

... loading ...

وجود

''کیوں لکھوں''؟

اتوار 17 نومبر 2024 ''کیوں لکھوں''؟

عماد بزدار

آج بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ آخر لکھنے کا فائدہ کیا ہے ؟ میرا لکھنا، میرے قلم سے نکلی یہ سیاہی،میرے الفاظ، آخر کس کام کے ؟ نہ میرے لکھے سے میرے حالات بدلتے ہیں، نہ ہی میری روزی روٹی کا انحصار اس پر ہے ۔ اس کے لیے تو میں دن بھر کسی سیٹھ کی نوکری کرتا ہوں، شام کو تھکا ہارا گھر لوٹتا ہوں ۔ پھر کیا ضرورت ہے اس اضافی بوجھ کی؟ آخر کیوں میں اپنا وقت اور توانائی ایسی باتوں میں ضائع کروں جن سے نہ کوئی مجھے ذاتی فائدہ ہے اور نہ ہی کسی انقلاب کا امکان؟
دنیا میں کوئی بڑی تبدیلی شاید میرے چند جملوں سے نہیں آنے والی۔ سرمایہ دار تو آج بھی اپنی منافع کی ہوس میں مگن ہے ۔ یہ وہ طبقہ ہے جو لوٹ مار کے بغیر سکون سے نہیں بیٹھتا، اپنے مفاد کے لیے کسی کو بھی روندنے کے لیے تیار رہتا ہے ۔ جاگیردار آج بھی اپنی زمین پر بسنے والے کسانوں پر وہی ظلم و ستم روا رکھے ہوئے ہیں جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے ۔ ان کی طاقت اور استبداد میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ظلم کا سلسلہ مضبوط ہی ہوا ہے ۔ پھر میرے لکھنے کا فائدہ کیا ہے ؟ کیا میری تحریر سے یہ لوگ اپنی عادات بدل لیں گے ؟
پھر ہمارے نام نہاد دانشور، جن کے علم و فضل کی دنیا معترف ہے ، شاید ہی کبھی اپنی مراعات اور آسائشوں سے باہر نکل کر عام انسانوں کے دکھوں کی بات کریں۔ یہ دانشور اپنے مفادات کے دائرے میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ طاقتوروں کے خلاف کھڑا ہونے کی ہمت ہی نہیں کرتے ۔ سچ بولنے کے بجائے ، یہ طاقتوروں کے سہولت کار بننے میں آسودہ ہیں، کیونکہ یہی سہولت کاری ان کی روزی روٹی، آسائشوں اور عیش و عشرت کا ذریعہ ہے ۔ ان کے قلم اور زبان پر وہ مصلحت کی زنجیریں بندھی ہیں جو انہیں مظلوم کی حمایت کے بجائے ظالم کی خدمت پر مجبور کیے رکھتی ہیں۔ ان کی خاموشی ایک گونجتی ہوئی سازش بن جاتی ہے ، جس میں کمزوروں کی چیخیں دب کر رہ جاتی ہیں۔
آج بھی طاقتور طبقے اپنی برتری کے نشے میں چور، کمزور عوام کو محض ایک بے حیثیت ہجوم سمجھتے ہیں۔ اشرافیہ اپنے بلند و بالا محلوں میں بیٹھ کر ان کی زندگیوں کے دکھوں اور پریشانیوں سے یکسر بے نیاز ہیں۔ ان کے لیے عوام صرف ایک ایسے بے زبان وجود کی مانند ہیں جنہیں
صرف کام پر لگا دینا اور ان کی محنت کا صلہ چھین لینا ہی کافی ہے ۔ایسے میں، میرے چند لفظ، میری محدود سی سوچ، میرے قلم سے نکلی معمولی تحریر ان کے سنگ دل قلعوں پر کیا اثر ڈال سکتی ہے ؟ کیا یہ الفاظ ان کے ضمیر کو جھنجھوڑ سکتے ہیں، یا ان کے بے حس کانوں تک پہنچ سکتے ہیں؟
پھر، میں یہی سوچ کر رک جاتا ہوں۔ اگر میری تحریر کسی انقلاب کا پیش خیمہ نہیں بن سکتی، اگر میرے الفاظ سے کسی کے ضمیر پر اثر نہیں ہوتا، تو پھر آخر یہ سب کیوں؟ کیوں میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ان الفاظ میں ضائع کروں جو شاید کسی پر اثر نہیں ڈالیں گے ؟ کیا لکھنا واقعی میرا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے ؟ لیکن جیسے ہی یہ سوچ میرے دل میں جنم لیتی ہے ، ایک سوال مجھے پھر بے چین کر دیتا ہے ۔ اگر میں خاموش ہو جاؤں، اگر میری آواز تھم جائے ، تو کیا میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا؟ کیا میری خاموشی اس ظلم کو روک سکے گی؟ کیا میں خود کو اس بات پر قائل کر سکوں گا کہ میرا حصہ پورا ہو گیا؟ شاید نہیں۔ کیونکہ سچ تو یہ ہے کہ لکھنا میری ضرورت ہے ، میرے دل کی آواز ہے ۔ میرے دل کا سکون اسی میں ہے کہ میں اپنی سوچ کو، اپنے خیالات کو قلم کے ذریعے کاغذ پر اتار دوں۔ شاید میری تحریر سے دنیا میں کوئی بڑا انقلاب نہ آئے ، لیکن یہ مجھے اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ میں خاموش نہیں ہوں، میں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہا ہوں۔
تاریخ کو اگر ہم اٹھا کر دیکھیں تو یہ ہمیں بتاتی ہے کہ تبدیلی کبھی اچانک نہیں آتی۔ ہر بڑا انقلاب، ہر عظیم تبدیلی، چھوٹے چھوٹے قدموں سے شروع ہوتی ہے ۔ ان قدموں کو اٹھانے والے لوگ جانتے ہیں کہ ان کا سفر شاید ان کے جیتے جی مکمل نہ ہو، مگر وہ پھر بھی اپنی آواز کو خاموش ہونے نہیں دیتے ۔ یہی لوگ بیداری کی شمع روشن کرتے ہیں، اور یہی شمعیں دوسروں کو راستہ دکھاتی ہیں۔ شاید میرے لکھنے سے کچھ نہ بدلے ، لیکن میرا قلم اس بیداری کا ایک حصہ ہے ، ایک شمع ہے جو اندھیروں میں جلتی رہتی ہے ۔ میرا قلم ایک خاموش احتجاج ہے اس ظلم کے خلاف، اس استحصال کے خلاف جو معاشرے میں جاری ہے ۔ اگر میں خاموش ہو جاؤں، تو یہ اندھیرا اور گہرا ہو جائے گا۔
میں یہ بوجھ اپنے ضمیر پر نہیں اٹھا سکتا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''کیوں لکھوں''؟ وجود اتوار 17 نومبر 2024
''کیوں لکھوں''؟

بھارت میں سوشل میڈیا پرفوج کا کنٹرول وجود اتوار 17 نومبر 2024
بھارت میں سوشل میڈیا پرفوج کا کنٹرول

خوشحالی یا تباہی وجود اتوار 17 نومبر 2024
خوشحالی یا تباہی

ایٹمی پاکستان:امریکی اوراسرائیلی مفادات کا اصل چیلنج وجود اتوار 17 نومبر 2024
ایٹمی پاکستان:امریکی اوراسرائیلی مفادات کا اصل چیلنج

اللہ خیر کرے! وجود هفته 16 نومبر 2024
اللہ خیر کرے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر