... loading ...
رفیق پٹیل
سیاسی حالات کا گہرائی سے جائزہ لینے والا ہر با شعور یہ اندازہ لگا سکتا ہے برسر اقتدا سیاسی جماعتیں بھنور میں پھنسی ہوئی جس کشتی میں سوار ہیںاس کو ڈوبنے سے بچانا نا ممکن ہے۔ اس کشتی کی سواری جاری رکھنے کی کوئی بھی کوشش ملک کو اوربر سراقتدار سیاسی گروہ کو مزید تباہی سے دووچار کر دے گی۔ عوامی حمایت سے محروم پاکستان کی برسر اقتدار سیاسی جماعتیں خوابوں کی دنیا سے باہر آنے کو تیار نہیں ہیں اور ساری توقعات ملک کے طاقتور حلقوں سے لگا کریہ امید کر رہی ہیں وہ ان کے اقتدار کو دوام دیں گے لیکن تین سال کے دوران کی کارکردگی صفر رہی۔ دنیا سے کوئی مدد نہ ملی نہ ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام آسکا۔ غربت ،مہنگائی اور بیروزگا ری میں اضافے کی وجہ سے عوام شدید پریشانی اورغصّے کی کیفیت میں ہیں ۔ملک میں انسانی حقوق کی پامالی پر دنیا بھر میں زبردست تنقید ہورہی ہے۔
امریکی و برطانوی ایوان نمائندگان اور اقوم متّحدہ سمیت دنیاکی کئی تنظیموں کی جانب سے عمران خان کی حمایت میں بیانات کو نظر انداز کر کے پی ٹی آئی کے احتجاج کو روکنے کے لیے راولپنڈی ،اسلام آباد اور اٹک کو کئی روز بند کردینا ان کی سیاسی ناکامی اور کمزوری کا کھلا اظہار ہے۔ اب 24 نومبر کو بھی اس طرح کے غیر داشمندانہ اقدامات ہوں گے اور پی ٹی آئی کو موقع مل جائے گا کہ وہ ملک کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں گلی گلی اس احتجاج کوپھیلا دیں۔پی ٹی آئی کے رویّے سے محسوس ہوتا ہے یہ احتجا ج کئی روز یا کئی ہفتوں جاری رہ سکتا ہے۔ ملک کے مقتدر طبقے ایک انتہائی غیر مقبول حکومت کابوجھ کب تک برداشت کریں گے ،جبکہ عالمی سطح پر بھی ایک دبائو ہے ۔اگر کوئی یہ سمجھنا شروع کردے کہ عوام موجودہ حکمرانوں سے خوش ہیں او ر بجلی کے بھاری بلوں، مہنگے پیٹرول، کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگی قیمتوں، مہنگی ٹرانسپورٹ، علاج اور صحت کی سہولیات میں کمی،کاروبار اور صنعت کی سست روی اور لاقانونیت کی وجہ سے عدم تحفّظ کا عوام پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے، اس کے ردّعمل میں عوام موجودہ حکمران سیاسی جماعتوںکو مورد الزام نہیں ٹہرائیں گے ، ا ن میں غصّے کے جذبا ت پید ا نہیں ہونگے اورلوگوں کو لاٹھی ،گولی اور جیلوں کے خوف سے احتجاج سے دور رکھنے سے سب کچھ ٹھیک ہوجائے گاتو پھر ایسے خیالات کو عقل کی خرابی کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتاہے ؟ اگر اب بھی اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا کہ ہم تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں ،دنیا ہماری معمولی سی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کا بجلی اور پٹرول کی قیمت بڑھانے کے لیے دبائو بڑھ رہا ہے۔ ملک بدترین معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے۔ اس بحران میںمزید اضافہ پی ٹی آئی کے رہنمائو ں اور کارکنوں کی گرفتاریوں سے اس لیے ہوگا کہ انسانی حقوق کی بین ا لاقوامی تنظیمیں اس پر سخت ردّعمل ظاہر کریں گی ۔دنیا بھر کے میڈیا میں اس کی رپورٹ شائع ہوگی بیرون ملک پاکستانیوں کی بھاری تعداد میں پی ٹی آئی کی حمایت کی وجہ سے ممکنہ طور پر ان گرفتاریوں کے خلاف امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں مظاہرے بھی ہوسکتے ہیں۔ دنیا کی تما م جمہوریتوں خصوصاً مغربی ممالک میں بعض تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بیس بیس لاکھ لوگوں کے مظاہرے ہوتے ہیں لیکن ان ممالک کی حکومت اپنا کام جاری رکھتی اور سیاسی استحکام بھی برقرار رہتاہے۔ عوام کے مطالبات کو نظر انداز نہیں کیا جاتا۔رائے عامہ کا احترام کیا جاتا ہے ۔ہم ان ممالک کی ترقّی سے متاثر ہوتے ہیں ۔لیکن عمل اس کے برعکس کرتے ہیں۔ نتیجے میں پستی کا سفر جاری رہتا ہے۔ ترقّی یافتہ ملک مزید اصلاحات ،شفافیت اور ایمانداری کا راستہ اختیار کرکے خوشحالی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم انتخابات میں دھاندلی ،بے ایمانی اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت جس کا الزام قومی اسمبلی میں جے یوآئی کے رہنما نے عائد کیا تھا، ملک میں رشوت ستانی اور بد عنوانی کا کئی مرتبہ الزام لگایاگیا ۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل جنوری 2024 کی رپورٹ میں بدعنوانی میں اضافے کی نشاندہی کی تھی ۔عمران خان بھی یہ بات کہہ چکے ہیں ایک مرتبہ انہوں نے اپنے دورحکومت میں ملک کے طاقتور ادارے کے سربراہ سے اس مسئلے پر بات کی تو جواب ملا کہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ حکمراں جماعتوں کی قیادت ملک کوبحران سے نکالنے پاکستان کو سیاسی استحکام کی جانب لے جانے کی صلاحیتوں سے مکمّل طور پر محروم ہیں۔ اس کی اہم وجہ انہیں عوام کا اعتماد حاصل نہیں اور ان کی تمام توجّہ اقتدار بر قرار رکھنے اور ذاتی مفادات کے حصول تک محدود ہے ۔انہیں اگر دنیا کے ترقّی یافتہ ملک کی بھی حکمرانی دے دی جائے تووہ اس ترقّی یافتہ ملک کو کچھ عرصے میںدیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیں گے۔ ان کی ذاتی مفاد پرست پالیسی سے ترقّی یافتہ ملک میں بھی بدعنوانی کو فروغ حاصل ہوگا۔ خزانہ خالی ہوجائے گا۔موجودہ حکمراں جماعتوں نے ملک کے سیاسی ڈھانچے میںآئینی ترامیم اور بعض قانون سازی سے جو خرابیاںپیدا کی ہیں،وہ ملک کو مزید پستی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ا من وامان کے حوالے سے بھی پاکستان کے حالات خراب ہیں جس کی نشاندہی عالمی ادارے مسلسل کر رہے ہیں۔
آئینی ترمیم پر تنقید اقوام متحدہ نے کی۔ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ نے اسے عدلیہ پر حملہ قرار دیا۔برطانوی اخبار گارڈین نے اس پر سخت تنقید کی۔ بھارتی اخبار ٹائمز آف اندیا ،انڈین ایکسپریس اور بزنس اسٹینڈرڈنے بھی اس ترمیم پر سخت تنقید کی ۔پاکستان کی سابق سفارت کار اور صحافی ملیحہ لودھی نے اسے جمہوریت کے منافی قرار دیا۔اب اگر بعض رہنما اور ان کے ہمنوا ان تمام معتبر اداروں کو غلط قرار دے کر خود کو عقل مند ثابت کریں تو پھر اسے کچھ اور ہی نام دیاجاسکتا لیکن شاید وہ خوش فہمی سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ حالانکہ واضح نظر آرہا ہے جس راہ پر ملک کو لے جایا جارہا ہے وہ پستی کا سفر تو ہو سکتا ہے، ترقّی کانہیںہے۔ اس وقت دو راستے ہیں اوّل یہ کہ تباہی کے اس سفر کو جاری رکھا جائے یا ملک کو منصفانہ انتخابات کے ذریعے اس بحران سے نکال کر جمہوریت کی راہ پر گامزن کیا جائے۔ پاکستان صرف جمہوریت کی بحالی ، قانون کی حکمرانی ، عدلیہ کی آزادی ،بدعنوانی کے خاتمے،شفافیت ، عوام کی خوشحالی اور فلاح وبہبود کے ذریعے ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ ہر صورت میں ہمیں ایک صاف ستھرا معاشرہ قائم کرنا ہوگا،ورنہ ہم خود کو ایک ناکام ریاست میں تبدیل کر لیں گے۔ ایسی تباہی سے بچنے کی ضرورت ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ مقتدر سیاسی جماعتیں انتخابات میں ہارنے کے خوف میں مبتلا ہیں اور شاید کسی سمجھوتے میں ایسا تحفظ چاہتی ہیں جس میں ان کی دولت اور جائیدادوں کا حساب نہ لیا جائے۔ انہیں اسمبلیوں میں کچھ حصّہ دیا جائے ،اس کے لیے محدود دھاندلی کرنے کی اجازت دی جائے ، غالب امکان یہ ہے کہ پس پردہ کوئی بڑی کھچڑی پک رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی فیصلہ ساز قوتّیں کس راہ کو منتخب کریں گی۔ ایک صاف ستھرا اور خوشحال معاشرہ جہاں ملک کے عوام پوری قوت سے متحرک ہوکر معاشی سرگرمیوں کے ذریعے اپنے مسائل حل کریں یاپھر ایسا معاشرہ جو جھوٹ،بدعنوانی اورلاقانونیت کے ذریعے تباہی کی نامعلوم منزل کی جانب گامزن ہو ۔تباہی کی بھی کئی قسمیں ہیں آنے والے دنوں میں مزید صورت حال واضح ہو جائے گی۔