وجود

... loading ...

وجود

خوشحالی یا تباہی

اتوار 17 نومبر 2024 خوشحالی یا تباہی

رفیق پٹیل

سیاسی حالات کا گہرائی سے جائزہ لینے والا ہر با شعور یہ اندازہ لگا سکتا ہے برسر اقتدا سیاسی جماعتیں بھنور میں پھنسی ہوئی جس کشتی میں سوار ہیںاس کو ڈوبنے سے بچانا نا ممکن ہے۔ اس کشتی کی سواری جاری رکھنے کی کوئی بھی کوشش ملک کو اوربر سراقتدار سیاسی گروہ کو مزید تباہی سے دووچار کر دے گی۔ عوامی حمایت سے محروم پاکستان کی برسر اقتدار سیاسی جماعتیں خوابوں کی دنیا سے باہر آنے کو تیار نہیں ہیں اور ساری توقعات ملک کے طاقتور حلقوں سے لگا کریہ امید کر رہی ہیں وہ ان کے اقتدار کو دوام دیں گے لیکن تین سال کے دوران کی کارکردگی صفر رہی۔ دنیا سے کوئی مدد نہ ملی نہ ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام آسکا۔ غربت ،مہنگائی اور بیروزگا ری میں اضافے کی وجہ سے عوام شدید پریشانی اورغصّے کی کیفیت میں ہیں ۔ملک میں انسانی حقوق کی پامالی پر دنیا بھر میں زبردست تنقید ہورہی ہے۔
امریکی و برطانوی ایوان نمائندگان اور اقوم متّحدہ سمیت دنیاکی کئی تنظیموں کی جانب سے عمران خان کی حمایت میں بیانات کو نظر انداز کر کے پی ٹی آئی کے احتجاج کو روکنے کے لیے راولپنڈی ،اسلام آباد اور اٹک کو کئی روز بند کردینا ان کی سیاسی ناکامی اور کمزوری کا کھلا اظہار ہے۔ اب 24 نومبر کو بھی اس طرح کے غیر داشمندانہ اقدامات ہوں گے اور پی ٹی آئی کو موقع مل جائے گا کہ وہ ملک کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں گلی گلی اس احتجاج کوپھیلا دیں۔پی ٹی آئی کے رویّے سے محسوس ہوتا ہے یہ احتجا ج کئی روز یا کئی ہفتوں جاری رہ سکتا ہے۔ ملک کے مقتدر طبقے ایک انتہائی غیر مقبول حکومت کابوجھ کب تک برداشت کریں گے ،جبکہ عالمی سطح پر بھی ایک دبائو ہے ۔اگر کوئی یہ سمجھنا شروع کردے کہ عوام موجودہ حکمرانوں سے خوش ہیں او ر بجلی کے بھاری بلوں، مہنگے پیٹرول، کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگی قیمتوں، مہنگی ٹرانسپورٹ، علاج اور صحت کی سہولیات میں کمی،کاروبار اور صنعت کی سست روی اور لاقانونیت کی وجہ سے عدم تحفّظ کا عوام پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے، اس کے ردّعمل میں عوام موجودہ حکمران سیاسی جماعتوںکو مورد الزام نہیں ٹہرائیں گے ، ا ن میں غصّے کے جذبا ت پید ا نہیں ہونگے اورلوگوں کو لاٹھی ،گولی اور جیلوں کے خوف سے احتجاج سے دور رکھنے سے سب کچھ ٹھیک ہوجائے گاتو پھر ایسے خیالات کو عقل کی خرابی کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتاہے ؟ اگر اب بھی اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا کہ ہم تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں ،دنیا ہماری معمولی سی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کا بجلی اور پٹرول کی قیمت بڑھانے کے لیے دبائو بڑھ رہا ہے۔ ملک بدترین معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے۔ اس بحران میںمزید اضافہ پی ٹی آئی کے رہنمائو ں اور کارکنوں کی گرفتاریوں سے اس لیے ہوگا کہ انسانی حقوق کی بین ا لاقوامی تنظیمیں اس پر سخت ردّعمل ظاہر کریں گی ۔دنیا بھر کے میڈیا میں اس کی رپورٹ شائع ہوگی بیرون ملک پاکستانیوں کی بھاری تعداد میں پی ٹی آئی کی حمایت کی وجہ سے ممکنہ طور پر ان گرفتاریوں کے خلاف امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں مظاہرے بھی ہوسکتے ہیں۔ دنیا کی تما م جمہوریتوں خصوصاً مغربی ممالک میں بعض تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بیس بیس لاکھ لوگوں کے مظاہرے ہوتے ہیں لیکن ان ممالک کی حکومت اپنا کام جاری رکھتی اور سیاسی استحکام بھی برقرار رہتاہے۔ عوام کے مطالبات کو نظر انداز نہیں کیا جاتا۔رائے عامہ کا احترام کیا جاتا ہے ۔ہم ان ممالک کی ترقّی سے متاثر ہوتے ہیں ۔لیکن عمل اس کے برعکس کرتے ہیں۔ نتیجے میں پستی کا سفر جاری رہتا ہے۔ ترقّی یافتہ ملک مزید اصلاحات ،شفافیت اور ایمانداری کا راستہ اختیار کرکے خوشحالی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم انتخابات میں دھاندلی ،بے ایمانی اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت جس کا الزام قومی اسمبلی میں جے یوآئی کے رہنما نے عائد کیا تھا، ملک میں رشوت ستانی اور بد عنوانی کا کئی مرتبہ الزام لگایاگیا ۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل جنوری 2024 کی رپورٹ میں بدعنوانی میں اضافے کی نشاندہی کی تھی ۔عمران خان بھی یہ بات کہہ چکے ہیں ایک مرتبہ انہوں نے اپنے دورحکومت میں ملک کے طاقتور ادارے کے سربراہ سے اس مسئلے پر بات کی تو جواب ملا کہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ حکمراں جماعتوں کی قیادت ملک کوبحران سے نکالنے پاکستان کو سیاسی استحکام کی جانب لے جانے کی صلاحیتوں سے مکمّل طور پر محروم ہیں۔ اس کی اہم وجہ انہیں عوام کا اعتماد حاصل نہیں اور ان کی تمام توجّہ اقتدار بر قرار رکھنے اور ذاتی مفادات کے حصول تک محدود ہے ۔انہیں اگر دنیا کے ترقّی یافتہ ملک کی بھی حکمرانی دے دی جائے تووہ اس ترقّی یافتہ ملک کو کچھ عرصے میںدیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیں گے۔ ان کی ذاتی مفاد پرست پالیسی سے ترقّی یافتہ ملک میں بھی بدعنوانی کو فروغ حاصل ہوگا۔ خزانہ خالی ہوجائے گا۔موجودہ حکمراں جماعتوں نے ملک کے سیاسی ڈھانچے میںآئینی ترامیم اور بعض قانون سازی سے جو خرابیاںپیدا کی ہیں،وہ ملک کو مزید پستی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ا من وامان کے حوالے سے بھی پاکستان کے حالات خراب ہیں جس کی نشاندہی عالمی ادارے مسلسل کر رہے ہیں۔
آئینی ترمیم پر تنقید اقوام متحدہ نے کی۔ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ نے اسے عدلیہ پر حملہ قرار دیا۔برطانوی اخبار گارڈین نے اس پر سخت تنقید کی۔ بھارتی اخبار ٹائمز آف اندیا ،انڈین ایکسپریس اور بزنس اسٹینڈرڈنے بھی اس ترمیم پر سخت تنقید کی ۔پاکستان کی سابق سفارت کار اور صحافی ملیحہ لودھی نے اسے جمہوریت کے منافی قرار دیا۔اب اگر بعض رہنما اور ان کے ہمنوا ان تمام معتبر اداروں کو غلط قرار دے کر خود کو عقل مند ثابت کریں تو پھر اسے کچھ اور ہی نام دیاجاسکتا لیکن شاید وہ خوش فہمی سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ حالانکہ واضح نظر آرہا ہے جس راہ پر ملک کو لے جایا جارہا ہے وہ پستی کا سفر تو ہو سکتا ہے، ترقّی کانہیںہے۔ اس وقت دو راستے ہیں اوّل یہ کہ تباہی کے اس سفر کو جاری رکھا جائے یا ملک کو منصفانہ انتخابات کے ذریعے اس بحران سے نکال کر جمہوریت کی راہ پر گامزن کیا جائے۔ پاکستان صرف جمہوریت کی بحالی ، قانون کی حکمرانی ، عدلیہ کی آزادی ،بدعنوانی کے خاتمے،شفافیت ، عوام کی خوشحالی اور فلاح وبہبود کے ذریعے ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ ہر صورت میں ہمیں ایک صاف ستھرا معاشرہ قائم کرنا ہوگا،ورنہ ہم خود کو ایک ناکام ریاست میں تبدیل کر لیں گے۔ ایسی تباہی سے بچنے کی ضرورت ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ مقتدر سیاسی جماعتیں انتخابات میں ہارنے کے خوف میں مبتلا ہیں اور شاید کسی سمجھوتے میں ایسا تحفظ چاہتی ہیں جس میں ان کی دولت اور جائیدادوں کا حساب نہ لیا جائے۔ انہیں اسمبلیوں میں کچھ حصّہ دیا جائے ،اس کے لیے محدود دھاندلی کرنے کی اجازت دی جائے ، غالب امکان یہ ہے کہ پس پردہ کوئی بڑی کھچڑی پک رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی فیصلہ ساز قوتّیں کس راہ کو منتخب کریں گی۔ ایک صاف ستھرا اور خوشحال معاشرہ جہاں ملک کے عوام پوری قوت سے متحرک ہوکر معاشی سرگرمیوں کے ذریعے اپنے مسائل حل کریں یاپھر ایسا معاشرہ جو جھوٹ،بدعنوانی اورلاقانونیت کے ذریعے تباہی کی نامعلوم منزل کی جانب گامزن ہو ۔تباہی کی بھی کئی قسمیں ہیں آنے والے دنوں میں مزید صورت حال واضح ہو جائے گی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''کیوں لکھوں''؟ وجود اتوار 17 نومبر 2024
''کیوں لکھوں''؟

بھارت میں سوشل میڈیا پرفوج کا کنٹرول وجود اتوار 17 نومبر 2024
بھارت میں سوشل میڈیا پرفوج کا کنٹرول

خوشحالی یا تباہی وجود اتوار 17 نومبر 2024
خوشحالی یا تباہی

ایٹمی پاکستان:امریکی اوراسرائیلی مفادات کا اصل چیلنج وجود اتوار 17 نومبر 2024
ایٹمی پاکستان:امریکی اوراسرائیلی مفادات کا اصل چیلنج

اللہ خیر کرے! وجود هفته 16 نومبر 2024
اللہ خیر کرے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر