وجود

... loading ...

وجود

ایٹمی پاکستان:امریکی اوراسرائیلی مفادات کا اصل چیلنج

اتوار 17 نومبر 2024 ایٹمی پاکستان:امریکی اوراسرائیلی مفادات کا اصل چیلنج

سمیع اللہ ملک
گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے تمام نظریں مشرق وسطی پر لگی تھیں اور سب کے ذہن میں یہ سوال تھے کہ اسرائیل کی جانب سے ردعمل کتنا شدید اور طویل ہو گا؟ اور خطے کے عرب ممالک کے عوام اور حکومتیں کیا ردعمل دیں گی؟ آج تک پہلے سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں مل سکا، اسرائیلی بمباری نے غزہ کی پٹی میں تباہی برپا کر دی اور اب تک 42500فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں لیکن اس کے تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔دوسرے سوال کے جواب کا کچھ حصہ واضح ہے، اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہے کہ عرب دنیا کے دارالحکومتوں میں بڑے پیمانے پر احتجاج یا مظاہرے ہوں گے تو انھیں مایوسی ہو گی۔ اگرچہ عرب ممالک کی آبادی کی بڑی تعداد کی حمایت اور جذبات فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے ہیں لیکن ان ممالک میں مظاہروں کو محدود رکھا گیا۔یہ بھی حقیقت ہے عرب ممالک کی حکومتوں کا ردعمل بہت کمزور یا مایوس کن رہا۔ اسرائیل پر روایتی تنقید یا قطر اور مصر کی حکومتوں کی جانب سے اس تنازع میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کے علاوہ کسی نے بھی فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا۔
کسی بھی عرب ملک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم نہیں کیے یا کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جس سے اسرائیل پر سفارتی یا معاشی دباؤ بڑھتا یا اس جنگ کو روکنے میں مدد ملتی مگر خطے میں فلسطین کے مسئلے نے اپنی اہمیت کیوں کھو دی۔ مشرق وسطیٰ کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب پیچیدہ ہے۔سعودی عرب بھی سات اکتوبر میں عزہ اور اسرائیل کے جنگ کے آغاز سے قبل اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ کئی دہائیوں سے اور حالیہ تنازع کے آغاز سے لے کر آج تک ہر عرب ملک نے اپنے اپنے مفادات کی پیروی کی۔ وہ فلسطینیوں کی حمایت اور یکجہتی کی بات کرتے ہیں، اور ایسا نہیں کہ یہ جذبات حقیقی نہیں ہیں لیکن وہ اپنے قومی مفادات کو پہلے دیکھتے ہیں جبکہ عرب دنیا میں عوامی رائے اسرائیل کے سخت خلاف ہے۔
عرب ممالک کے عوام کے دل میں غزہ کے تباہ حال شہریوں کے لیے بہت ہمدردی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی حکومتیں فلسطینیوں کے لیے کچھ زیادہ کریں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیں، اور کم از کم ردعمل دیتے ہوئے سفارت کاروں کو ان کے ممالک سے نکال دیا جائے لیکن یہ اب تک نہیں ہوا۔دراصل عرب حکومتوں نے فلسطینیوں کو کافی عرصہ پہلے چھوڑ دیا تھا۔ عرب ممالک کی تاریخ میں عربوں نے ایک شناخت، ایک زبان، اور بڑی حد تک ایک مذہب کے ساتھ ساتھ اپنے شناخت کو جوڑا لیکن خطے میں یورپی نوآبادیاتی اثرات سے پیدا ہونے والے خدشات بھی موجود رہے ہیں، لیکن ان ممالک کی حکومتوں کے مفادات بھی ایک دوسرے سے متضاد رہے ہیں۔ فلسطینیوں اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات بھی آسان نہیں رہے، خاص طور پر ان کے ساتھ جنھوں نے 1948 میں اسرائیل کی ریاست کے اعلان کے بعد بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہا۔ لبنان کی خانہ جنگی اور فلسطینی عسکریت پسندوں اور اردنی بادشاہت کے درمیان جھڑپیں بعض اوقات خطے کی متضاد تاریخ کی یاد دلاتی ہیں۔ لیکن مسئلہ فلسطین کئی دہائیوں سے عرب ممالک کے لیے متحد ہونے کا عنصر بھی تھا لیکن وائے افسوس کسی نے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا اور اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کیلئے اللہ کی اس نعمت کو فراموش کر دیا اور آج مسلم امہ تمام وسائل ہونے کے باوجود سب سے زیادہ ذلیل و رسوا ہو رہی ہے۔
ان حالات میں یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ کیا نیتن یاہوگریٹراسرائیل کے خواب کی تکمیل کیلئے جلد مشرق وسطی کانقشہ بدلنے جا رہا ہے اور بظاہر دنیا یہ سب ہوتا دیکھتی رہ جائے گی؟ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش کے مطابق اسرائیل کی طرف سے غرب اردن کا یکطرفہ الحاق بین الاقوامی قانون کی سب سے سنگین خلاف ورزی ہوگی ۔مسلم دنیااوریورپی ممالک بھی فلسطینی غرب اردن کوزبردستی ہتھیانے کے اسرائیلی منصوبے کی مذمت اورمخالفت کرچکے ہیں لیکن اس کاکوئی اثرنہیں ہواکیونکہ نیتن یاہوکواس انتہائی متنازع اقدام کیلئے امریکی صدراورانتہائی مضبوط یہودی لابی کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یادرہے کہ اس وقت دنیاکی مکمل تجارت آئل،ادویات اوراسلحے کی انڈسٹری کے ساتھ الیکٹرانک کے ساتھ ساتھ دیگرزندگی کی ضروریات کی 38 کارپوریشنزکنٹرول کررہی ہیں اوریہ تمام عالمی کارپوریشنز یہودیوںکی ملکیت ہیں اورانہوں نے بڑی چابک دستی سے چین کے اندربھی بہت سی انڈسٹریزمیں سرمایہ کاری کررکھی ہے لیکن پچھلے 10 برسوں سے چین نے بڑی حکمت کے ساتھ اپناکنٹرول بحال کرلیاہے جس کے بعدیہ کارپوریشنزبھی کھل کرسامنے آگئی ہیں اورہرصورت میں دنیامیں چین کی بڑھتی ہوئی معاشی سبقت کونیچا دکھانے کیلئے پہلے سے زیادہ متحرک ہوگئی ہیں۔ اس حوالے سے یقیناامریکی سپرمیسی کوآلہ کارکے طورپراستعمال کرنے کیلئے سازشوں میں مصروف ہیں اوراسی تناظرکی تفصیل” کیاتیسری جنگ عظیم کااسٹیج تیارہوچکاہے؟”کے عنوان سے میں اپنے آرٹیکل میں تفصیل سے تحریرکر چکاہوں جس کوقارئین کی ایک بڑی تعدادمیں خاصی پزیرائی حاصل ہوچکی ہے۔
مشرق وسطیٰ کے مبصرین اس بات پرمتفق ہیں کہ نیتن یاہوطاقت کے زور پرجوکچھ کرنے جارہاہے اس کے خطے کے امن و استحکام پرگہرے منفی اثرات پڑیں گے۔نیتن یاہوغرب اردن کااسرائیل کے ساتھ زبردستی الحاق کرنے کے بعداگرفلسطینیوں کووہاں سے بے دخل کرسکتاتوشاید کردیتالیکن ایساممکن نہیں۔غرب اردن میں فلسطینیوں کی تعدادکوئی 25 لاکھ ہے۔اسرائیل کاحصہ بننے کی صورت میں فلسطینی اسرائیلی آبادی کا40فیصدہوجائیں گے۔عالمی رائے عامہ نے نیتن یاہوسے یہ مطالبہ بھی کیاہے کہ تمام فلسطینیوں کواسرائیلی شہریت دے کربرابری کے حقوق کاوعدہ پوراکرے لیکن اب نیتن یاہواس خدشہ کااظہارکر رہاہے کہ ایسا کرنے سے اسرائیل میں فلسطینیوں کی تعداد بڑھ جائے گی جس سے یہودی اکثریت کوخطرہ ہوسکتاہے۔اس لیے نیتن یاہوفلسطینیوں کوبطورشہری برابرکے حقوق دینے کے بھی خلاف ہے لیکن اگر اسرائیل نے فلسطینیوں کو اپنے ہی علاقے میں دوسرے درجے کاشہری بنانے کی کوشش کی تواس سے غم وغصہ بڑھے گا۔جنوبی افریقامیں سفیدفام اقلیت نے ایک عرصے تک مقامی سیاہ فام آبادی پراسی طرح حکومت کی اوراس کااستحصال کیالیکن وہاں کے لوگوں کی جدوجہداورعالمی دباو کے بعد بالآخراس نظام کاخاتمہ ہوگیا۔اسرائیل کیلئے ا ج کے دورمیں اسی طرح کاامتیازی نظام متعارف کرناناممکن نہیں تومشکل ضرورہو گا۔اس روش کے آگے جاکرخطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔
فوری طورپرشایدکوئی شدیدردِعمل سامنے نہ آئے۔عرب حکمران اوردیگرملک فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی دکھانے کی خاطر زبانی کلامی اسرائیل کی مذمت کریں گے لیکن عملی طورپر دنیانے بظاہرفلسطینیوں کواب ان کے حال پرچھوڑدیاہے۔بیشترممالک سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے پرامریکا اوراسرائیل کے ساتھ ایک حدتک ہی محاذآرائی کی جاسکتی ہے لیکن فلسطینیوں کی خاطران سے لڑا ئی نہیں کی جاسکتی۔خودفلسطینی قیادت اتنی مایوس ہے کہ اس کاکہناہے کہ وہ اس کی سخت مخالفت کرے گی لیکن اسرائیل کے خلاف پرتشددمظاہروں کی حمایت نہیں کرے گی۔
امریکاسمیت عالمی برادری نوے کی دہائی سے اوسلومعاہدے کے تحت خطے میں دوریاستوں کے قیام کیلئے کوشاں رہی ہے لیکن دنیاکی نظر میں نیتن یاہوکایہ اقدام فلسطینیوں کااپنی علیحدہ ریاست کادیرینہ خواب چکناچورکرنے کے مترادف ہے اورنیتن یاہوکی ان خواہشات میں ٹرمپ کے یہودی نژاددامادجیرالڈنے خوب رنگ بھراہے اورحالیہ عرب معاہدوں کیلئے سب سے زیادہ اس نے وہی کام کیاہے جو خلافت ِعثمانیہ کوپارہ پارہ کرنے کیلئے لارنس آف عریبیہ نے کیاتھا۔نیتن یاہواوران کے حمایتیوں کے نزدیک غرب اردن کاعلاقہ انتہا پسندیہودی عقیدے کے اعتبارسے اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہے اورملک کی سلامتی کیلئے بھی ناگزیرہے لیکن دنیاکے نزدیک اسرائیل نے ان علاقوں پر1967کی جنگ کے بعدسے قبضہ کررکھاہے ۔
پچھلی چنددہائیوں میں اسرائیل ان مقبوضہ علاقوں میںنئے زمینی حقائق قائم کرنے کی پالیسی پرگامزن رہاہے جس کے تحت وہاں مسلسل نئے گھراورفلیٹ تعمیرکرکے باہرسے یہودی خاندانوں کولالاکربسایاجاتارہاہے۔عالمی برادری کی نظرمیں یہ تعمیرات غیرقانونی ہیں۔اس کے باوجودآج غرب اردن کی ان شاہکاربستیوں میں کوئی پانچ لاکھ کے قریب اسرائیلی یہودی بستے ہیں۔نیتن یاہوکاخیال ہے کہ وہ طاقت کے بل پرگریٹر اسرائیل کے خواب کوعملی جامہ پہنانے کیلئے تیارہے لیکن دنیاکی نظرمیں ان کا یہ عمل خطے کوتباہی اورجنگ کی طرف دھکیل رہاہے جس سے اسرائیل کے وجودکوبھی شدیدخطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
دو قومی نظریہ تقسیمِ ہند کا اصل محرک بنایعنی مسلمان اورہندودوالگ قومیں ہیں جن کامذہب،ثقافت،تاریخ،رہن سہن اورتہذیب وتمدن سب یکسر مختلف ہے۔اس فلسفے کے تناظرمیں مملکتِ خداداد پاکستان معرضِ وجودمیں آیااورہندوستان دوالگ الگ ملکوں میں بٹ گیا۔ بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح نے فروری1948 میں امریکاکے نام پیغام میں فرمایا تھامیں نہیں جانتاکہ پاکستان کے دستورکی آخری شکل کیاہوگی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کاآئینہ داراورجمہوری اندازکاہوگا۔اسلام کے اصول آج بھی ہماری زندگیوں میں اسی طرح قابل عمل ہیں،جس طرح1300 سال پہلے تھے۔اسلام نے ہمیں وحدتِ انسانیت اور عدل ودیانت کی تعلیم دی ہے۔ یہ تھاوہ نظریہ جس کی بنیاد پر پاکستان وجودمیں آیا۔یہ کوئی نیانظریہ نہیں بلکہ بنیادی طورپریہ وہی نظریہ ہے جورسول کریم ۖ نے آج سے تقریبا1450سال قبل انسانیت کودیاتھا۔اس کی روشنی میں دیکھیں تو پاکستان کوئی معمولی ملک نہیں،اس کے قیام کی نوید1450 سال قبل سنائی گئی تھی۔
رسول کریم ۖ کی ذات گرامی کواہلِ عرب صادق اورامین کہتے تھے اوریہود ونصاری بھی اس بات پرمتفق تھے کہ آپ ۖ صادق بھی ہیں اورامین بھی، لیکن یہودیوں نے آپ ۖکواللہ کاسچانبی ماننے سے صرف اس لیے انکارکردیاتھاکہ آپ ۖحضرت اسماعیل علیہ سلام کی آل میں سے تھے۔یہودی خودکواللہ کی مقرب ترین اور بہترین قوم سمجھتے تھے، سارے انبیابنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے لیکن خاتم النببین ۖکاتعلق بنی اسرائیل سے نہیں تھاجس کویہودنے ماننے سے انکارکیا،ان کی رائے میں اللہ نے عزت ووقارصرف بنی اسرائیل کو بخشاہے،لہذاجوبھی نبی مبعوث کیاجائے گااس کاتعلق لازمابنی اسرائیل سے ہی ہوگا۔یوں مسلمانوں سے یہودیوں کی جنگ شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔
قیامِ پاکستان کے9ماہ بعدہی اسرائیل کے نام سے فلسطین کی سرزمین پراسرائیل کی جبری ریاست قائم کی گئی۔ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم اور صیہونی تنظیم کے سربراہوں میں سے ایک ڈیوڈبین گوریان نے اپنی پہلی تقریرکرتے ہوئے کہاکہ ریاست اسرائیل کواگرکسی سے خطرہ ہے تووہ پاکستان ہے کیوںکہ پاکستان اسلام کے نام پرمعرضِ وجودمیں آیاہے۔ واضح رہے کہ14/اگست 1947کوپاکستان وجودمیں آیااور14مئی 1948 کو اسرائیل کی ناجائزریاست قائم کی گئی۔نومولودپاکستان کواسرائیل نے اپنے لیے سب سے بڑاخطرہ قرار دے دیا ہے۔گوریان نے کہاتھاکہ جس دن پاکستان ختم ہوجائے گااس دن اسلام کاخاتمہ ہوجائے گا۔
پاکستان ایک نظریے کہ تحت وجودمیں آیااورنظریہ کوختم کرناچونکہ بچوں کے آسان کھیل جیسانہیں ہوتاتویہاں دشمن نے سفاک چال چلی۔ ملک توڑنے کیلئے مذہب کی غلط ترجمانی کرتے ہوئے زبان،رنگ،نسل،قوم اورفرقوں کاسہارالیاگیا۔آج یہی غیروں کے ایجنڈے پر اس نظریاتی ملک کو توڑنے کی سازش کاحصہ بنے ہوئے ہیں۔ویسے تومسلمانوں کی تاریخ جرأت وبہادری سے عبارت ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اوروں کی طرح اس قوم میں بھی گلی محلوں سے لے کرسیاسی ایوانوں میں غدار لوگ پائے جاتے رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میںپاکستان کوانتہائی خطرات کا سامنا ہے۔بھارتی سرحد ہمیشہ سے ہی پریشانی کاسبب رہی ہے، اوردشمن افغان سرحدکوبھی استعمال کرتا رہتا ہے۔ ایک طرف فوج طویل ترین سرحدوں کی حفاظت پرمعمور ہے تودوسری طرف ملک میں انتہاپسندتنظیموں اوردہشتگردوں سے بھی نمٹ رہی ہے جبکہ کوئی قدرتی آفت آ جائے،حتی کہ ابرِرحمت ہی کھل کربرس جائے توبھی انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اورانہیںمدد کیلئے فوج کی جانب دیکھناپڑتاہے۔
پاکستانی افواج ہمہ وقت متعدد محاذوں پربرسرِپیکارہے۔ایسے میں اب سی پیک کے خلاف امریکااسرائیل اوربھارت سے گٹھ جوڑ کر کے جہاں پاکستان کے گردگھیراتنگ کررہاہے وہاں امریکی دبااوردہمکیوں نے انتہائی گھمبیرصورتحال پیدا کردی ہے لیکن دوسری طرف ہماری نااہل سول حکومت کرپشن کے مقدمات میں الجھی ہوئی ہے۔لگ یوں رہاہے کہ ملک کی داخلہ وخارجہ امور بھی اب فوج کوہی دیکھنے ہوں گے۔سیاسی عدم استحکام بھی عروج پرہے۔ سابقہ حکومت کے دورمیں اسلام آبادمیں ایک مذہبی جماعت کے دھرنے اوران کے مطالبات کے آگے گھٹنا ٹیک دینابھی عالمی سطح پربدنامی کاسبب بنا۔
اگرہم تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تونظر آئے گاکہ امریکانے پاکستان کوہمیشہ ہی مایوس کیاہے۔سانحہ1971میں اس تاریخی بحری بیڑے کے دھوکے کوہم کبھی نہیں بھول سکتے جوامریکانے پاکستان کی مددکیلئے بھیجناتھا۔یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ امریکاکے بیشتراموراسرائیل سے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔امریکااسرائیل کوامدادکے نام پراتنی خطیر رقم دیتاہے جس کاکوئی جواز نہیں۔ 14 ستمبر 2016کوامریکانے اسرائیل کے ساتھ 10سالہ فوجی امدادکا38ملین ڈالرکی مددکامعاہدہ سائن کیااوریہی اسرائیل پاکستان کواپنے لئے
سب سے بڑاخطرہ قراردیاہے ۔ امریکاکی سلامتی کی پالیسی سے لیکرانتظامی امورتک سب یروشلم میں طے پاتے ہیں۔اقوام متحدہ،ورلڈ بینک، ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن جیسے بین الاقوامی ادارے اسرائیل کے اختیار میں ہیں توامریکاکی پالیسیز پاکستان کے حق میں مفیدکیسے ہوسکتی ہیں؟
واضح رہے کہ پاکستان پورے عالم اسلام میں واحدنیوکلیئرپاورہے اوریہی اسرائیل کوکسی طورہضم نہیں ہوتی۔1981میں اسرائیل نے بھارت کی مدد سے کہوٹہ نیوکلیئر ری ایکٹر پر ناکام حملے کی سازش بھی کی جوکامیاب نہیں ہوسکی۔ان تمام معلومات اور تاریخی حقائق سے ثابت ہوتاہے کہ امریکاپاکستان اورمسلمانوں کا دوست ہوہی نہیں سکتا۔افغانستان، عراق، لیبیا،شام،یمن،مصر، مراکش،لبنان،تیونس اورفلسطین میں امریکااور اسرائیل کاکردارسب کے سامنے ہے۔یہاں ہونے والی خونریزی کے پیچھے گریٹر اسرائیل کامنصوبہ ہے اورگریٹراسرائیل کی راہ میں بڑی حد تک رکاوٹ پاکستان ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کوختم کرنے کیلئے ان ممالک کی سرتوڑکوششیں جاری ہیں۔
برمامیں ہونے والے حالیہ فسادات اورمسلمانوں کی بدترین نسی کشی بھی اسی منصوبے سے متعلق ہے۔اگرآپ معاملات کابغور جائزہ لیں تواندازہ ہوگا کہ عراق،افغانستان سمیت دنیاکے کئی ممالک میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کرنے والے امریکا نے برمامیں مسلمانوں کے قتل عام پرانسانی حقوق کاواویلاکرکے وہاں امن فوج بھیجنے کے مطالبہ کی آڑمیں بھی ایک بھیانک سازش میں مصروف تھا۔ دراصل امریکا کواس خطے میں ایک محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈ رہا تھاجو اس کوافغانستان میں بدترین شکست کے بعد مطلوب تھی جو پاکستان سمیت، چین اور شمالی کوریاکی نگرانی کرسکے لیکن چین نے بروقت اس سازش کو بھانپ کرون روڈ ون بیلٹ کے منصوبے کے تحت فوری طور پر برما کے ساتھ کئی تجارتی معاہدے کرکے امریکا کا راستہ مسدود کردیا۔مختصرایہ کہ آنگ سان سوچی امریکاہی کاپیداکردہ ایک ایسا کردارہے جو بھارت کی مددسے میانمارمیں امریکاکی راہ ہموارکرناتھا۔اس اسرائیل کایہ سازشی دماغ ہے جودرحقیقت گریٹراسرائیل کی منزل کی طرف گامزن ہے جس کی راہ ہموار کرنے کیلئے ایران کومشتعل کرکے جاری جنگ کی آگ پرمزیدپٹرول پھینکنا ہے تاکہ اس سارے خطے کوجنگ کی آگ میں دھکیل دیاجائے اوراس کی آڑمیں گریٹراسرائیل کی تکمیل کیلئے امریکااورمغرب کی پشت پناہی سے اپنے شیطانی منصوبے پر عمل درآمد کیاجاسکے لیکن اس سارے منصوبے کے پیچھے اگرکوئی براہِ راست رکاوٹ ہے تووہ کلمہ طیبہ کے نام پر27رمضان کی مبارک شب کو معرضِ وجودمیں آنے والاایٹمی طاقت کاحامل ملک پاکستان ہے۔ربِ کریم ہمارے پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین


متعلقہ خبریں


مضامین
''کیوں لکھوں''؟ وجود اتوار 17 نومبر 2024
''کیوں لکھوں''؟

بھارت میں سوشل میڈیا پرفوج کا کنٹرول وجود اتوار 17 نومبر 2024
بھارت میں سوشل میڈیا پرفوج کا کنٹرول

خوشحالی یا تباہی وجود اتوار 17 نومبر 2024
خوشحالی یا تباہی

ایٹمی پاکستان:امریکی اوراسرائیلی مفادات کا اصل چیلنج وجود اتوار 17 نومبر 2024
ایٹمی پاکستان:امریکی اوراسرائیلی مفادات کا اصل چیلنج

اللہ خیر کرے! وجود هفته 16 نومبر 2024
اللہ خیر کرے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر