وجود

... loading ...

وجود

اللہ خیر کرے!

هفته 16 نومبر 2024 اللہ خیر کرے!

میری بات/روہیل اکبر
اللہ خیر کرے یہ کیا ہورہا ہے کسی طرف سے بھی خوشی کی کوئی خبر نہیں آرہی بلکہ ہر گزرتی گھڑی کے ساتھ کوئی نہ کوئی تشویش میں مبتلا کردینے والی خبر ہی سننے کو مل رہی ہے صرف ایک دن کی خبروں پر اگر نظر ڈالیں تو وحشت سی ہونے لگتی ہے ان میں سے چند ایک خبریں اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں بھی پیش کرونگا ۔خاص کر پنجاب کے خوبصورت، انتہائی محنتی اور ملنسار عوام دوست وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کے ایک بیا ن اور ان کے زیر سایہ چلنے والے نشتر ہسپتال ملتان کی ایک رپورٹ کے بعد میں شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمارے لیڈروں اور قائدین کی بیماریوں کا جن کاعلاج پاکستان میں تو کیا دنیا بھر میں کہیں موجود نہیں ہے ،سوائے دو ممالک کے اس بات کا بھی مجھے وزیر اعلیٰ پنجاب کے اس بیان کے بعد علم ہوا جو انہوں نے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دیا کہ میری گلے کی بیماری کا علاج دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے سوائے امریکہ اور سوٹرز لینڈ کے میں شکر اس لیے ادا کرتا ہوں حکومت نے جن غریب غربا اور مسکین قسم کے لوگوں کی خدمت کے لیے ہسپتال بنا رکھے ہیں وہاں شفا ملنے کی بجائے انسان اپنے ساتھ وہ بیماریاں بھی لے آتا ہے ،جن کاعلاج پوری دنیا میں کہیں نہیں سوائے موت کے انتظار کے خواجہ سلمان رفیق کا ذکر اس لیے کررہا ہوں کہ وہ اس وقت پنجاب کے وزرا میں سے سب سے بہتر اور کارآمد جارہے ہیں۔ وہ محکمہ صحت کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں لیکن کرنہیں پارہے ۔شائد فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہورہا۔
اس وقت ہمارے ہسپتال موت بانٹ رہے ہیں جو مریض ان ہسپتالوں میں اپنا علاج کروانے آتے ہیں وہ صحت کی بجائے موت کا پروانہ لیکر رخصت ہوتے ہیں اسکی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ نشتر ہسپتال ملتان میں ڈائیلیسز کے 30مریض ایڈز کا شکار ہو گئے۔ اس سلسلہ میںہسپتال انتظامیہ کاکہنا ہے کہ ہسپتال کے ڈائیلیسز یونٹ میں ایڈز کے مریض کا ڈائیلیسز کیاگیاتھااور پھر اسی مشین پر دیگر مریضوں کا ڈائیلیسزکرنے سے وائرس باقی مریضوں میں بھی منتقل ہوگیا۔ بات گردوں کے مریضوں کی ہورہی ہے تو اسی مرض کے بارے میں خواجہ سلمان رفیق کا کہنا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 850 ملین افراد گردوں کی بیماریوں کا شکار ہیں ۔دنیا کی تقریباً دس فیصد آبادی اس مرض میں مبتلا ہے ۔پاکستان کی تقریباً 29 فیصد آبادی اس مرض کا شکار ہے۔ خواجہ صاحب نے یہ اعدادوشمار بتائیں ہیں جو حکومتی سطح پر سرکاری ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی تعداد کے بعد اخذ کیے گئے ہونگے جبکہ اصل میں پاکستان میںگردوں کے مریضوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے جبکہ رہی سہی کسر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے خبردار کرتے ہوئے پوری کردی کہ اسموگ نے صحت اور زندگی کے معمولات پر منفی اثرات ڈالے ہیں ۔پاکستان میں اسموگ سے قبل ازوقت ڈھائی لاکھ اموات کا خطرہ ہے اور حکومت نے عوام کو اس خطرے کے سامنے بے سروسامانی کی حالت میں لاکھڑا کیا ہے ۔ہمارے وزیر اعظم میاں شہباز شریف صاحب نے بھی باکو میں ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستانیوں کے لیے مدد مانگتے ہوئے کہا کہ سیلاب کے باعث پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ،اورموسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو عالمی برادری کی مدد کی ضرورت ہے۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہے اوردنیا نے موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات پر پاکستان کی امداد کے وعدے بھی کررکھے ہیں ۔بلاشبہ ہم اس وقت تہہ در تہہ مشکلات کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں جن سے نکالنے کے لیے ہمارے حکمران دن رات ایک کیے ہوئے ہیں لیکن پاکستان سے باہر جہاں بھی ہمارے یہ معزز حکمران جاتے ہیں وہاں پر موجود پاکستانی نہ صرف انہیں تنگ کرتے ہیں ،بلکہ توہین آمیز ویڈیو بنا کر آگے بھی شیئر کردیتے ہیں۔ گزشتہ روز سابق وزیر اعظم اور حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف صاحب نے شکوہ کیا کہ لوگ ان کی گاڑی کے پیچھے بھاگتے ہیں ،انہیں غلیظ گالیاں نکالتے ہیں اور ان کی طرف ٹماٹر اور انڈے پھینکتے ہیں، جبکہ ٹرین میں خواجہ آصف صاحب کے ساتھ جو گالم گلوچ کا واقعہ پیش آیا وہ بھی کسی طرح ٹھیک نہیں ،یہ لوگ ہمارے معزز حکمران ہیں اور دن رات ہماری خدمت میں مصروف ہیں، رہی بات عوام کی اسے دو وقت کی روٹی کے لیے دن رات گدھے کی طرح محنت کرنا پڑتی ہے، بلکہ اکثر اوقات گدھے والے ڈنڈے سے خوب مالش بھی کروانی پڑ جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں آدھی سے زیادہ آبادی دیہاتوں میں رہ رہی ہے جو زراعت کے شعبہ سے منسلک ہیں ۔یہ وہ مظلوم لوگ ہیں جو کئی کئی سال دو کپڑوں کے سوٹ اور ایک جوڑی جوتی کے سات گزارا کرتے ہیں ،جہاں سے کپڑا پھٹا یا جوٹی ٹوٹی وہیں سے سلوا لی اور اس بار تو پنجاب حکومت نے کسانوں کے ساتھ گندم نہ خرید کر ہاتھ کردیا ،وہ کیسے اس بارے میں چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین کا بیان پڑھ لیں حکومت نے اگر گنے کی قیمت مقرر نہ کی گئی تو 20نومبر کو پنجاب اسمبلی کے باہر بھرپور احتجاج کریں گے ۔پنجاب حکومت نے پہلے گندم کے معاملہ پر کسانوں کا دیوالیہ نکال دیا تھا ۔گندم کی کاشت پر کسان کا خرچ آتا ہے ۔چار ہزار اور مریم بی بی کہتی ہیں کہ 2600میں دے دیں تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں گندم کی کاشت کم ہو رہی ہے جس کی وجہ گندم کی کاشت پر آنے والا خرچہ ہے اوراب کسان اپنی گندم کاشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔کیا پنجاب حکومت کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ گندم امپورٹ کر کے سستا آٹا فراہم کرے؟ یہی وجہ ہے کہ اب ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ 20روپے کی روٹی 100 روپے کی ملے گی کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انہیں باہر سے بھی گندم نہیں ملے گی۔
آخر میں پاکستان ریلوے کے حوالے سے چند باتیں کرنا چاہوں گا کہ خدارا اس کی حالت بد لیں ،اسے ملتا ن کا نشتر ہسپتال نہ بنائیں جہاں ایک بیماری کا علاج کروانے والا دوسرے موذی مرض میں مبتلا ہو جائے اس وقت پاکستان ریلوے مسافروں کے لیے زحمت بنتا جا رہا ہے سہولیات ناپید ہونے سے سفر کرنے والوں کی جانب سے شکایات کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ انکوائری والے تو سرے سے موجود ہی نہیں ہیں یا محکمہ نے اس شعبہ کو ویسے ہی ختم کردیا ہے، جب بھی کسی ٹرین کے آنے اور جانے کے لیے 117پر رابطہ کرتے ہیں تو کئی کئی گھنٹے کوئی فون نہیں سنتا اور نہ ہی ٹرینوں میں موبائل چارجنگ کی سہولت ہے ،جب تک مسافر حضرات سفر میں رہتے ہیں ان کا باہر والوں سے رابطہ منقطع رہتاہے، کھانے پینے کی اشیا ناقص اور انتہائی مہنگی ملتی ہیں، اسٹیشنوں پر 3سے 4دن پرانی روٹیوں کو پانی لگاکر تازہ کردیا جاتا ہے۔ ریلوے کی حالت درست کرنے کے لیے بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ پاکستان ریلوے کے مختلف اسٹیشنز کی سکیورٹی کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت سے لگائے گئے زیادہ تر کیمرے، اسکینرز اور دیگر آلات خراب ہوچکے ہیں۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر صرف چند پولیس اہلکار ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں اور کے رش کے باعث تمام مسافروں کا سامان چیک کرنا بھی ناممکن ہے ۔اسی طرح ریلویز پولیس کی ملک بھر کے تمام بڑے ریلوے اسٹیشنوں میں نفری کی تشویشناک حد تک کمی اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کے پاس آلات نہ ہونے کے برابرہیں ۔ملازمین ڈبل بلکہ ٹرپل شفٹوں میں ڈیوٹی کرنے پر مجبور ہیں ۔چھٹی نہ ملنے سے کئی ملازمین بیمار بھی ہو چکے اور پھر ملک میں بیماروں کا جو حشر ہوتا ہے، وہ بھی سب کے سامنے اتنی افسوس ناک خبروں کے بعد عام لوگوں کا زندہ رہنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ کیونکہ انہوں نے پاکستان میں ہی رہنا ہے اور یہاں کے ہسپتالوں سے ہی علاج کروانا ہے ۔بے شک وہ وہاں پر کسی اور موذی مرض میں مبتلا ہوجائے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ وہ لوگ شکر ادا کریں جو پیسے نہ ہونے کے باعث کسی سرکاری ہسپتال میں نہیں جاتے بلکہ گھر وں میں ہی کوئی نہ کوئی ٹوٹکا آزما لیتے ہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اللہ خیر کرے! وجود هفته 16 نومبر 2024
اللہ خیر کرے!

24نومبر ،تحریک انصاف کی کال وجود هفته 16 نومبر 2024
24نومبر ،تحریک انصاف کی کال

پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی وجود جمعه 15 نومبر 2024
پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی

یہ ڈائنا مائیٹ اب پھٹنے کو ہے ! وجود جمعه 15 نومبر 2024
یہ ڈائنا مائیٹ اب پھٹنے کو ہے !

عمران خان کی رہائی اور جیت دیوار پر لکھی ہے! وجود جمعه 15 نومبر 2024
عمران خان کی رہائی اور جیت دیوار پر لکھی ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر