... loading ...
زریں اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر سے دست بدستہ معذرت کے ساتھ کہ :
وہ بات( 235گھس پیٹھیے )کالم میں جس کا ذکر تھا
وہ بات بہت ناگوار( گزری )ہے
اس بات کی ناگواری بڑھ گئی جب ہم نے سنت ِ یوسفی پر عمل کرتے ہوئے ‘گھس پیٹھیے ‘ کے معنی آن لائن لغت ریختہ اور فرہنگِ آصفیہ میں پڑھے،املا بھی درست ہوا کہ لفظ پیٹیے نہیں بلکہ پیٹھیے ہے۔ ریختہ کے مطابق یہ ہندی اسم ِ مونث ہے ،معنی دخل ،رسائی ، باریابی ، پہنچ، گھسنا، بنا اجازت کے داخل ہونا؛ شاعر اجے اکیات کی غزل کا مقطع بھی درج تھا (تلخی زائل کرنے کے لیے ادبی سماعتوں کی نذر) :
اگیات جب سے غم نے ہے گھس پَیٹھ دل میں کی
بن آئی ہے تب ہی سے تو خوشیوں کی جان پر
فرہنگِ آصفیہ میں یہ معنی ریختہ سے ہٹ کر درج تھے : یار بنا کے ، رسم و راہ پیدا کرکے، یارانہ گانٹھ کے ( گھس پیٹھیے کے مخاطبین کی خفگی کم کرنے کے لیے فرہنگِ آصفیہ سے شعر نقل ہے کہ):
جس جگہ بزم میں دو چار حسیں بیٹھے ہیں
ہم بھی گھس پَیٹھ کے البتہ وہیں بیٹھے ہیں
صحافتی صنف کالم کی خصوصیات جو صحافت کی درسی کتب میں پڑھیں ،ان میں سے ایک خصوصیت کالم کا ‘مستقل عنوان ‘ہے ، یعنی کالم کا مستقل عنوان ہونا ایک شرف ہے جو ہر کالم نگار کے حصّے میں نہیں آتا۔ محترمہ عالیہ زاہد بھٹی کے کالم کا مستقل عنوان ہے ”نوائے خودی”؛ وہ کالم جو 23ِ اکتوبر کو روزنامہ جسارت میں چھپا،اس کا عنوان تھا ”سفید پوشیاں بمعنی کفن پوشی”۔ یہ کالم جامعہ اُردو کے ایف یو یو واٹس ایپ گروپ پر ڈاکٹر زاہد شفیق بھٹی نے بھیجا جوجامعہ اُردو کے رئیس کلیہ سائنس و اُستادِ کبیراور کالم نگار صاحبہ کے ”سرتاج” ہیں اور پھر’ بوجوہ’ یہ کالم جامعہ کے دوسرے واٹس ایپ گروپوں پر بھی گردش کیایا اس کا گشت کرایا گیا۔ ان گروپوں پر کالم کے گردشی و گشتی ہونے کی وجہ یہ جملہ ہائے استفہامیہ ہیںجس میں وہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ :
١۔ وفاقی اُردو یونیورسٹی کا مستقبل کیا ہوگا؟
٢۔ وفاقی اُردو یونیورسٹی کو تنخواہیں کون اداکرے گا؟
٣۔ سیاسی بھرتیوں کے 235گھس پیٹیوں کو کون نکالنے کی جرأت کرے گا؟
اوّل الذکردو سوالوں کا تعلق جامعہ سے زیادہ ذاتی مشکلات سے متعلق ہے(اس میں خدا نخواستہ کوئی حرج کی بات نہیں) ورنہ ہر شخص کو جامعہ کے حالات سے کیا پڑی اور تیسرا سوال بہ جائے خود یا بہ ظاہر سیاسی و مفاداتی ہے۔
چوتھے سوال سے قبل ان کا اُسلوب تنبیہی ہی نہیں بلکہ اندیشوں سے بھرے ایسے خوف کی غمازی کررہا ہے جوکالم نگار کے نزدیک جامعہ اُردو کے ملازمین کی زندگیوں پر چھا رہا ہے اور جس کی وجہ( پچھلوں میں سے کوئی نہیں) بلکہ حالیہ 235گھس پیٹھیے ہیں، سوال کا طرز ملاحظہ فرمائیں:
٤۔ ”اور ،اور ،اور اگر یہ سب نہ ہوا (جس کا ذکر وہ تیسرے سوال میں کرچکی ہیں)تو پھر وفاقی اُردو یونیورسٹی کے ملازمین اور ان کے خاندانوں کی لاشیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر سیاست کون کرے گا؟”
اس الم ناک و اندوہناک اور( ان کی نظر میں )ممکنہ انجام کی پیش گوئی ہمارے لیے تحقیق طلب تھی۔
برقی ذرائع ابلاغ کا یہ دور برق رفتاری سے مطلوبہ معلومات تک رسائی دیتاہے ۔ میں نے فاضل کالم نگار کا نام فیس بک پر لکھا اورایک وڈیومیں پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی میں یوم اقبال پرایک سیا ہ برقع و نقاب پوش خاتون مثنوی ‘ساقی نامہ’ پورے ملّی جوش و خروش کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنی تو چوتھے سوال میں لبریز جذباتیت کی روحانی تفہیم ممکن ہوسکی ۔
کالم کا اختتامی پارہ ملّی میلانات کو مہمیز دیتے دیتے سیاسی چابک سے بھی کام لیتے ہوئے :”جس کو بعد میں یہ سیاست کرنی ہے ان سے درخواست ہے کہ خدارا آگے بڑھیںاس سے قبل کہ کوئی انسانی سانحہ درپیش ہو وفاقی یونیورسٹی کو اس سانحے سے نکالیںاٹھیں آگے بڑھیںہم ان بلدیاتی اداروں سے ٹریکٹر ٹرالیاں مانگ کر جامعہ اُردو کو سنوار رہے ہیںمگر جب ہماری سفید پوشیاں کفن پوش ہوگئیں تو کراچی کے قبرستانوں میں مفت دفنانے کی اجازت ملے گی؟؟
جامعہ اُردو اس کالم کا مرکزی خیال و مسئلہ ہے اور باقی بُنت میں بلدیہ ہے ، جامعہ میں اگی جھاڑیاں ہیں اور ان کی صفائیاں ہیںجوبحوالہ کالم ”چپکے سے ان سے ان کے سرتاج کی کی گئی” خواہش و فرمائش تھی ۔کالم کے مطابق ان کو اپنے سرتاج کے ساتھ موٹر سائیکل پر جانا آنا پڑا (تقریب کا مفصل احوال بھی کالم میں ہے) کیوں کہ سرتاج کی تنخواہ کا انہوں نے پچھلے دو ماہ سے منہ نہیں دیکھا تھااور گاڑی پٹرول سے اسکوٹرکی نسبت مہنگی چلتی ہے اور اسکوٹر کی (رومانوی )سواری سستی (بھی )پڑتی ہے۔فاضل کالم نگارکو بائیک پر اس لیے سفر کرنا پڑا کیوں کہ میا ںکی دو ماہ سے تنخواہ نہیں آئی تھی او رتنخواہ اس لیے نہیں آئی تھی کہ 235گھس بیٹیے جو نرے سیاسی ہیں ،جامعہ میں گھس آئے ہیں۔
جامعہ اُردو کی سنہری تاریخ میں 2013اور 2017میں دیے گئے اشتہارات کے نتیجے میںکہیں 2021جاکر منعقد ہونے والا سلیکشن
بورڈ، متنازع بنادیاگیاہے۔ ان میں منتخب ہونے والے ایسے کتنے امید وار ہیں جو اپنی غیر سرکاری نوکریاں چھوڑ کر آئے ہیں، ہمارے شعبے ابلاغ عامہ میں جو دو اساتذہ بھرتی ہوئے ہیں، پچھلی سیاسی بھرتیوں کے تجربے سے مجھے ان بھرتیوں پر بھی سیاسی ہونے کا اتنا ہی یقین تھا جتنا کہ فاضل کالم نگار کو ان بھرتیوں کے غیرسیاسی ہونے پر شک ہے ، لیکن یہ بھرتیاں کہ میرے لیے یہ تجربہ انتہائی خوش کن ہی نہیں بلکہ حیران کن تھا کہ سراسر غیر سیاسی ہی نہیںہیں بلکہ پیشہ ورانہ بھی ہیں۔
جماعت اسلامی سیاست میںہمیشہ سے سرگرم رہی ہے۔جماعت اسلامی کے نمائندے دوسروں کو سیاسی بلکہ گھس بیٹیے کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اللہ کو دل سے رازق مانتے ہیں؟ توکّل کا سبق پڑھا ہے؟گاڑی سے اگر موٹر سائیکل پر سفر کرنا پڑ گیا، مرنے کے بعد حساب کتاب سے پہلے قبرستان میں زمین ملنے کی فکر ۔۔۔جب تنخواہ آئے سب سے پہلا کام یہی کیا جائے کہ جامعہ کے ملازمین قبرستان میں اپنے لیے جگہ بک کرالیں۔ بلکہ جامعہ میں کبھی جامعہ کے ملازمین کے لیے جو پلاٹ کی اسکیم کے تحت پیسے جمع کیے گئے تھے اگر اس کا حساب مرنے کے بعد نہیں دینا تو یہی کریں کہ کہیں زمین کو کوئی ٹکڑا جامعہ کے ملازمین کی آخری آرام گاہ کے لیے مختص کروالیں تو اس فکر سے تو جان چھوٹے۔
میرا خیال ہے کہ فاضل کالم نگار کی جامعہ اُردو کے معاملات سے متعلق جو خبر کا ذریعہ ہیں وہ ان کے سرتاج و مجازی خدا ہیں،لہٰذا و ہ ان کے نہ صرف چپکے سے کہے بلکہ باآواز بلند بتائے گئے حقائق پر بھی اتنا ہی بھروسہ و عمل کرتی ہیں جتنا ایک فرماں بردارو تابعدار بیوی کو خاوند پر کرنا چاہیے کہ یہی تقاضائے بہشتی زیور ہے۔