وجود

... loading ...

وجود

اُف! یہ" "235گھس پیٹھیے

جمعه 15 نومبر 2024 اُف! یہ

زریں اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر سے دست بدستہ معذرت کے ساتھ کہ :
وہ بات( 235گھس پیٹھیے )کالم میں جس کا ذکر تھا
وہ بات بہت ناگوار( گزری )ہے
اس بات کی ناگواری بڑھ گئی جب ہم نے سنت ِ یوسفی پر عمل کرتے ہوئے ‘گھس پیٹھیے ‘ کے معنی آن لائن لغت ریختہ اور فرہنگِ آصفیہ میں پڑھے،املا بھی درست ہوا کہ لفظ پیٹیے نہیں بلکہ پیٹھیے ہے۔ ریختہ کے مطابق یہ ہندی اسم ِ مونث ہے ،معنی دخل ،رسائی ، باریابی ، پہنچ، گھسنا، بنا اجازت کے داخل ہونا؛ شاعر اجے اکیات کی غزل کا مقطع بھی درج تھا (تلخی زائل کرنے کے لیے ادبی سماعتوں کی نذر) :
اگیات جب سے غم نے ہے گھس پَیٹھ دل میں کی
بن آئی ہے تب ہی سے تو خوشیوں کی جان پر
فرہنگِ آصفیہ میں یہ معنی ریختہ سے ہٹ کر درج تھے : یار بنا کے ، رسم و راہ پیدا کرکے، یارانہ گانٹھ کے ( گھس پیٹھیے کے مخاطبین کی خفگی کم کرنے کے لیے فرہنگِ آصفیہ سے شعر نقل ہے کہ):
جس جگہ بزم میں دو چار حسیں بیٹھے ہیں
ہم بھی گھس پَیٹھ کے البتہ وہیں بیٹھے ہیں
صحافتی صنف کالم کی خصوصیات جو صحافت کی درسی کتب میں پڑھیں ،ان میں سے ایک خصوصیت کالم کا ‘مستقل عنوان ‘ہے ، یعنی کالم کا مستقل عنوان ہونا ایک شرف ہے جو ہر کالم نگار کے حصّے میں نہیں آتا۔ محترمہ عالیہ زاہد بھٹی کے کالم کا مستقل عنوان ہے ”نوائے خودی”؛ وہ کالم جو 23ِ اکتوبر کو روزنامہ جسارت میں چھپا،اس کا عنوان تھا ”سفید پوشیاں بمعنی کفن پوشی”۔ یہ کالم جامعہ اُردو کے ایف یو یو واٹس ایپ گروپ پر ڈاکٹر زاہد شفیق بھٹی نے بھیجا جوجامعہ اُردو کے رئیس کلیہ سائنس و اُستادِ کبیراور کالم نگار صاحبہ کے ”سرتاج” ہیں اور پھر’ بوجوہ’ یہ کالم جامعہ کے دوسرے واٹس ایپ گروپوں پر بھی گردش کیایا اس کا گشت کرایا گیا۔ ان گروپوں پر کالم کے گردشی و گشتی ہونے کی وجہ یہ جملہ ہائے استفہامیہ ہیںجس میں وہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ :
١۔ وفاقی اُردو یونیورسٹی کا مستقبل کیا ہوگا؟
٢۔ وفاقی اُردو یونیورسٹی کو تنخواہیں کون اداکرے گا؟
٣۔ سیاسی بھرتیوں کے 235گھس پیٹیوں کو کون نکالنے کی جرأت کرے گا؟
اوّل الذکردو سوالوں کا تعلق جامعہ سے زیادہ ذاتی مشکلات سے متعلق ہے(اس میں خدا نخواستہ کوئی حرج کی بات نہیں) ورنہ ہر شخص کو جامعہ کے حالات سے کیا پڑی اور تیسرا سوال بہ جائے خود یا بہ ظاہر سیاسی و مفاداتی ہے۔
چوتھے سوال سے قبل ان کا اُسلوب تنبیہی ہی نہیں بلکہ اندیشوں سے بھرے ایسے خوف کی غمازی کررہا ہے جوکالم نگار کے نزدیک جامعہ اُردو کے ملازمین کی زندگیوں پر چھا رہا ہے اور جس کی وجہ( پچھلوں میں سے کوئی نہیں) بلکہ حالیہ 235گھس پیٹھیے ہیں، سوال کا طرز ملاحظہ فرمائیں:
٤۔ ”اور ،اور ،اور اگر یہ سب نہ ہوا (جس کا ذکر وہ تیسرے سوال میں کرچکی ہیں)تو پھر وفاقی اُردو یونیورسٹی کے ملازمین اور ان کے خاندانوں کی لاشیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر سیاست کون کرے گا؟”
اس الم ناک و اندوہناک اور( ان کی نظر میں )ممکنہ انجام کی پیش گوئی ہمارے لیے تحقیق طلب تھی۔
برقی ذرائع ابلاغ کا یہ دور برق رفتاری سے مطلوبہ معلومات تک رسائی دیتاہے ۔ میں نے فاضل کالم نگار کا نام فیس بک پر لکھا اورایک وڈیومیں پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی میں یوم اقبال پرایک سیا ہ برقع و نقاب پوش خاتون مثنوی ‘ساقی نامہ’ پورے ملّی جوش و خروش کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنی تو چوتھے سوال میں لبریز جذباتیت کی روحانی تفہیم ممکن ہوسکی ۔
کالم کا اختتامی پارہ ملّی میلانات کو مہمیز دیتے دیتے سیاسی چابک سے بھی کام لیتے ہوئے :”جس کو بعد میں یہ سیاست کرنی ہے ان سے درخواست ہے کہ خدارا آگے بڑھیںاس سے قبل کہ کوئی انسانی سانحہ درپیش ہو وفاقی یونیورسٹی کو اس سانحے سے نکالیںاٹھیں آگے بڑھیںہم ان بلدیاتی اداروں سے ٹریکٹر ٹرالیاں مانگ کر جامعہ اُردو کو سنوار رہے ہیںمگر جب ہماری سفید پوشیاں کفن پوش ہوگئیں تو کراچی کے قبرستانوں میں مفت دفنانے کی اجازت ملے گی؟؟
جامعہ اُردو اس کالم کا مرکزی خیال و مسئلہ ہے اور باقی بُنت میں بلدیہ ہے ، جامعہ میں اگی جھاڑیاں ہیں اور ان کی صفائیاں ہیںجوبحوالہ کالم ”چپکے سے ان سے ان کے سرتاج کی کی گئی” خواہش و فرمائش تھی ۔کالم کے مطابق ان کو اپنے سرتاج کے ساتھ موٹر سائیکل پر جانا آنا پڑا (تقریب کا مفصل احوال بھی کالم میں ہے) کیوں کہ سرتاج کی تنخواہ کا انہوں نے پچھلے دو ماہ سے منہ نہیں دیکھا تھااور گاڑی پٹرول سے اسکوٹرکی نسبت مہنگی چلتی ہے اور اسکوٹر کی (رومانوی )سواری سستی (بھی )پڑتی ہے۔فاضل کالم نگارکو بائیک پر اس لیے سفر کرنا پڑا کیوں کہ میا ںکی دو ماہ سے تنخواہ نہیں آئی تھی او رتنخواہ اس لیے نہیں آئی تھی کہ 235گھس بیٹیے جو نرے سیاسی ہیں ،جامعہ میں گھس آئے ہیں۔
جامعہ اُردو کی سنہری تاریخ میں 2013اور 2017میں دیے گئے اشتہارات کے نتیجے میںکہیں 2021جاکر منعقد ہونے والا سلیکشن
بورڈ، متنازع بنادیاگیاہے۔ ان میں منتخب ہونے والے ایسے کتنے امید وار ہیں جو اپنی غیر سرکاری نوکریاں چھوڑ کر آئے ہیں، ہمارے شعبے ابلاغ عامہ میں جو دو اساتذہ بھرتی ہوئے ہیں، پچھلی سیاسی بھرتیوں کے تجربے سے مجھے ان بھرتیوں پر بھی سیاسی ہونے کا اتنا ہی یقین تھا جتنا کہ فاضل کالم نگار کو ان بھرتیوں کے غیرسیاسی ہونے پر شک ہے ، لیکن یہ بھرتیاں کہ میرے لیے یہ تجربہ انتہائی خوش کن ہی نہیں بلکہ حیران کن تھا کہ سراسر غیر سیاسی ہی نہیںہیں بلکہ پیشہ ورانہ بھی ہیں۔
جماعت اسلامی سیاست میںہمیشہ سے سرگرم رہی ہے۔جماعت اسلامی کے نمائندے دوسروں کو سیاسی بلکہ گھس بیٹیے کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اللہ کو دل سے رازق مانتے ہیں؟ توکّل کا سبق پڑھا ہے؟گاڑی سے اگر موٹر سائیکل پر سفر کرنا پڑ گیا، مرنے کے بعد حساب کتاب سے پہلے قبرستان میں زمین ملنے کی فکر ۔۔۔جب تنخواہ آئے سب سے پہلا کام یہی کیا جائے کہ جامعہ کے ملازمین قبرستان میں اپنے لیے جگہ بک کرالیں۔ بلکہ جامعہ میں کبھی جامعہ کے ملازمین کے لیے جو پلاٹ کی اسکیم کے تحت پیسے جمع کیے گئے تھے اگر اس کا حساب مرنے کے بعد نہیں دینا تو یہی کریں کہ کہیں زمین کو کوئی ٹکڑا جامعہ کے ملازمین کی آخری آرام گاہ کے لیے مختص کروالیں تو اس فکر سے تو جان چھوٹے۔
میرا خیال ہے کہ فاضل کالم نگار کی جامعہ اُردو کے معاملات سے متعلق جو خبر کا ذریعہ ہیں وہ ان کے سرتاج و مجازی خدا ہیں،لہٰذا و ہ ان کے نہ صرف چپکے سے کہے بلکہ باآواز بلند بتائے گئے حقائق پر بھی اتنا ہی بھروسہ و عمل کرتی ہیں جتنا ایک فرماں بردارو تابعدار بیوی کو خاوند پر کرنا چاہیے کہ یہی تقاضائے بہشتی زیور ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی وجود جمعه 15 نومبر 2024
پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی

یہ ڈائنا مائیٹ اب پھٹنے کو ہے ! وجود جمعه 15 نومبر 2024
یہ ڈائنا مائیٹ اب پھٹنے کو ہے !

عمران خان کی رہائی اور جیت دیوار پر لکھی ہے! وجود جمعه 15 نومبر 2024
عمران خان کی رہائی اور جیت دیوار پر لکھی ہے!

اُف! یہ" "235گھس پیٹھیے وجود جمعه 15 نومبر 2024
اُف! یہ

بی ایل اے اور 'را' کا گٹھ جوڑ وجود جمعه 15 نومبر 2024
بی ایل اے اور 'را' کا گٹھ جوڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر