... loading ...
ایاز احمد لغاری
28 دسمبر 2022کو دوپہر 11بجے میں حیدرآباد کے پی آئی ڈی (پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ) دفتر میں دفتری امور اپنے منصبی لحاظ سے نمٹا رہا تھا کہ اچانک فون پر چمک پھیل جاتی ہے ، کوئی انجان نمبر نمودار ہوتا ہے ۔ فائلوں کا پلندہ میز پر پسار کر کال موصول کی جاتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ کراچی میں واقع وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی انچارج صاحبہ نے ہمیں یاد کیا ہے۔
پہلے خیال آتا ہے کہ شاید اشتہارات کے حوالے سے فون کیا ہوگا مگر پھر ذہن دوڑا کہ کراچی دفاتر کے معاملات کراچی پی آئی ڈی کے ذمے ہیں، مگر سارے خیالات مفروضے اس وقت دھرے رہ گئے جب شعبہ انچارج نے اطلاع دی کہ شعبے میں بہ حیثیت آپ کی لیکچرار تعیناتی ہوئی ہے ۔لہٰذا جلد از جلد ہمیں جوائن کیجیے تاکہ اگلے سال کی تدریسی منصوبہ بندی پر تبادلہ خیال کیا جائے ۔اس دن خوشی و مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، جس مقصد کو حاصل کرنے کی جستجو ہم نے 2013میں سندھ یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ سے دوسری پوزیشن کے ساتھ فارغ التحصیل ہو کر شروع کی تھی یہ اس کی حاصلات کا دن تھا۔
2015 میں سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں لیکچرار بننے کا مقصد اس وقت ارمان کی صورت میں بدلا جب انٹرویو میں ناکامی ہوئی لیکن اس بات کی خوشی تھی کہ لیکچرارشپ کے انٹرویو کے لیے منتخبہ 5امیدواران میں شامل رہے ۔ بعدازاں اپنی مادر علمی سندھ یونیورسٹی میں سابق وائس چانسلر فتح محمد برفت کے دور میں جب لیکچرارشپ کا اشتہار آیا تو فورا فارم جمع کروایا۔ وہاں بھی بھاگ نے انٹرویو کے مرحلے تک پہنچایا اور 4 امیدواران میں شامل کرلیا گیا۔تاہم وہاں داخلی تدریسی تجربے کو بنیاد بنا کر باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ ہم راستہ ناپتے گھر کو لوٹے ۔ اگرچہ میرا تعلق دیہی سندھ سے ہے لیکن والد محترم ہمیشہ پرائمری اسکول میں بحیثیت استاد اپنی نوکری سے وفادار رہے نہ کہ کسی ایم پی اے یا ایم این اے شاہ صاحب کی اوطاق کے ۔ اگر والد نے یہ نوکری کی ہوتی تو ہم بھی پہلے دن سے سرکاری نوکر ہوتے لیکن والد ہی کی طرح ہمیں یہ گوارا نہ تھا لہٰذا اپنے دم پر ہی ملازمت کرنا تھی۔ اپنی صلاحیتوں کا احوال ایک سی وی میں لکھ کر ڈان میڈیا گروپ کو بھیجا۔ 2016 میں ہم ڈان میڈیا گروپ کے اردو ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی بلاگ ڈیسک پر بطور ترجمہ نگار کام کرنے لگے ۔ اس دوران ترقی کرتے ہوئے ملٹی میڈیا پروڈیوسر بھی بنے ۔ بعدازاں جب میڈیا میں بحران کے بھوت نے سر اٹھایا تو اپنے اندر کے مڈل کلاس مین کا یہ خوف بھی بڑھتا گیا کہ جاب سیکورٹی لازمی ہے ۔ والدہ ماجدہ جو کہ خود پیشے سے پرائمری اسکول میں بطور استاد اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں ،وہ بھی اچانک موذی مرض میں مبتلا ہوگئیں (خدا کا شکر ہے کہ اب وہ مرض پر سبقت پاچکی ہیں)۔ ایسے میں پی آئی ڈی میں ایک چھوٹے گریڈ کی نوکری کے لئے درخواست جمع کرادی کہ سرکاری خرچ پر علاج معالجہ ہونے کے امکانات بھی روشن ہو جائیں گے ۔ ٹیسٹ ہوا، انٹرویو ہوا اور پاس ہوئے ۔ خوش قسمتی سے پی آئی ڈی حیدرآباد میں تعیناتی ہوگئی اور مجھے اشتہارات کے شعبے کا ذمہ دے دیا گیا۔ یہ تھا میرا پیشہ ورانہ سفر۔
پی آئی ڈی سے ایک سالہ لیئن لے کر ہم نے وفاقی اردو یونیورسٹی میں قدم رکھا۔ 2017میں شائع ہونے والے اشتہار کو پڑھ کر ہم نے لیکچرارشپ کے لئے درخواست جمع کروادی۔ کئی سال بعد ہی سہی لیکن ٹیسٹ ہوا جس میں کامیاب ہوئے ، انٹرویو ہوا جس میں پر اعتماد ہو کر تمام سوالوں کا جواب دیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایچ ای سی کے نمائندے کی موجودگی میں اس وقت کے شعبہ انچارج جناب اوج کمال نے یہ سوال پوچھا تھا کہ کیا آپ ہمارے طالب علموں کو ڈیجیٹل میڈیا کی تعلیم دے سکتے ہیں؟ اور میں نے اسی وقت ایک مختصر سبقی منصوبہ تک پیش کردیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے میرا 5سالہ پیشہ ورانہ تجربہ کارفرما تھا۔ انٹرویو کے وقت میرے پاس نہ صرف اشتہار کے مطابق تعلیمی اسناد تھیں۔بلکہ صحافتی ورک شاپس سیمیناروں اور کورسز کی فہرست بھی تھی۔ انٹرویو اچھا ہوگیا۔پھر سلیکشن بورڈ کا معاملہ اٹک گیا۔ ہم وفاقی اردو کا ایپی سوڈ بھول بھال کر حیدرآباد میں پی آئی ڈی کی نوکری کے تقاضے پورے کرنے میں لگ گئے ۔
بالآخر 2022میں لیکچرار بننے کا خواب تعبیر کی منازل تک پہنچا اور راقم الحروف کو تقررنامہ موصول ہوا۔ جامعہ اردو آمد کے بعد ہم نے پوری مستعدی سے اس جامعہ کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ شعبے کی انتظامیہ نے کئی موقعوں پر سیمینار،ورکشاپ کے انعقاد میں ہمارا بھرپور ساتھ دیا اور کانفرنسوں کے انعقاد میں ہم نے شعبے کے لئے دن رات ایک کیا۔ تدریس کا فریضہ ایمان کا حصہ سمجھ کر پورا کرتے رہے۔ اپنے پیشہ ورانہ تجربات کو طالب علموں میں بانٹتے رہے ۔ اس اثنا میں جامعہ کے اندر یہ آوازیں سنتے رہے کہ کچھ بھرتیاں و ترقیاں سیاسی اثرورسوخ کے مرہون منت ہیں۔ ہم سنا ان سنا کرکے کام سے کام رکھتے چلے گئے ۔ دو ماہ کی تنخواہوں اور کئی ماہ کی ہاؤس سیلنگ کی عدم ادائیگی بھی ہماری کاوشوں کے آڑے نہیں آئی۔
تاہم ایک مقامی روزنامہ کے 10نومبر کے شمارے میں ایک مضمون بعنوان “سفید پوشیاں بمعنی کفن پوشی” پڑھا جس میں 2013 2017 کے اشتہار کے تحت آنے والے تمام تر اساتذہ کو ‘سیاسی گھس بیٹھیوں”کے لقب سے نواز دیا گیا۔ اخبار میں شائع ہونے والی ایک عام خبر سے لے کر کالم تک میں حقائق کو بیان کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر خبروں میں ممکنہ یا مبینہ جیسے الفاظ اکثر و بیشتر پڑھنے کو ملتے ہیں۔ روزنامہ میں شائع ہونے والے اس مضمون کے ذریعے چند سوال کالم نگار صاحبہ سے پوچھنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں۔ کیا تمام تر بھرتیاں سیاسی ہیں؟ کیا ہم جیسے لوگ بھی سیاسی بھرتی کی پیداوار ہیں جو زینہ بہ زینہ اپنے کیریئر کی کٹھن سیڑھی چڑھتے رہے ؟ کیا ڈان میڈیا گروپ میں بھی ہماری سیاسی بھرتی ہوئی تھی؟ کیا میری ڈان میں ترقیاں بھی سیاسی تھیں؟ اگر آپ کے نزدیک جامعہ میں ہونے والی تمام یا چند بھرتیاں مشکوک ہیں تو شواہد پیش کریں اور ثبوت کے ساتھ اپنا موقف بیان کیجیے ۔
یہ معاملہ اتنا ہلکا نہیں بلکہ کافی حساس ہے ۔ یہی مضمون ہمارے سماجی حلقہ رفقا اور والدین نے بھی پڑھا اور انہیں اس سے رنج پہنچا ہے کہ ہماری میرٹ کو مقامی اخبار نے ایک کالم کے ذریعے یوں بنا کسی ثبوت کے مٹی میں ملا دیا۔میری مقامی اخبار کے مدیر سے درخواست ہے کہ اس حوالے سے کم از کم وضاحت شائع کریں کہ لکھاری کے خیالات یا پیش کردہ حقائق سے اخبار کا متفق ہونا ضروری نہیں، وگرنہ کل کالم نگاری کے ذریعے ہر ایک بغیر کسی ثبوت کے ایک دوسرے پر الزام لگاتا رہے گا، افواہیں خبروں کا درجہ حاصل کرلیں گی۔