وجود

... loading ...

وجود

235 سیاسی گھس بیٹھیوں میں سے ایک گھس بیٹھیا

جمعرات 14 نومبر 2024 235 سیاسی گھس بیٹھیوں میں سے ایک گھس بیٹھیا

ایاز احمد لغاری

28 دسمبر 2022کو دوپہر 11بجے میں حیدرآباد کے پی آئی ڈی (پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ) دفتر میں دفتری امور اپنے منصبی لحاظ سے نمٹا رہا تھا کہ اچانک فون پر چمک پھیل جاتی ہے ، کوئی انجان نمبر نمودار ہوتا ہے ۔ فائلوں کا پلندہ میز پر پسار کر کال موصول کی جاتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ کراچی میں واقع وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی انچارج صاحبہ نے ہمیں یاد کیا ہے۔
پہلے خیال آتا ہے کہ شاید اشتہارات کے حوالے سے فون کیا ہوگا مگر پھر ذہن دوڑا کہ کراچی دفاتر کے معاملات کراچی پی آئی ڈی کے ذمے ہیں، مگر سارے خیالات مفروضے اس وقت دھرے رہ گئے جب شعبہ انچارج نے اطلاع دی کہ شعبے میں بہ حیثیت آپ کی لیکچرار تعیناتی ہوئی ہے ۔لہٰذا جلد از جلد ہمیں جوائن کیجیے تاکہ اگلے سال کی تدریسی منصوبہ بندی پر تبادلہ خیال کیا جائے ۔اس دن خوشی و مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، جس مقصد کو حاصل کرنے کی جستجو ہم نے 2013میں سندھ یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ سے دوسری پوزیشن کے ساتھ فارغ التحصیل ہو کر شروع کی تھی یہ اس کی حاصلات کا دن تھا۔
2015 میں سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں لیکچرار بننے کا مقصد اس وقت ارمان کی صورت میں بدلا جب انٹرویو میں ناکامی ہوئی لیکن اس بات کی خوشی تھی کہ لیکچرارشپ کے انٹرویو کے لیے منتخبہ 5امیدواران میں شامل رہے ۔ بعدازاں اپنی مادر علمی سندھ یونیورسٹی میں سابق وائس چانسلر فتح محمد برفت کے دور میں جب لیکچرارشپ کا اشتہار آیا تو فورا فارم جمع کروایا۔ وہاں بھی بھاگ نے انٹرویو کے مرحلے تک پہنچایا اور 4 امیدواران میں شامل کرلیا گیا۔تاہم وہاں داخلی تدریسی تجربے کو بنیاد بنا کر باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ ہم راستہ ناپتے گھر کو لوٹے ۔ اگرچہ میرا تعلق دیہی سندھ سے ہے لیکن والد محترم ہمیشہ پرائمری اسکول میں بحیثیت استاد اپنی نوکری سے وفادار رہے نہ کہ کسی ایم پی اے یا ایم این اے شاہ صاحب کی اوطاق کے ۔ اگر والد نے یہ نوکری کی ہوتی تو ہم بھی پہلے دن سے سرکاری نوکر ہوتے لیکن والد ہی کی طرح ہمیں یہ گوارا نہ تھا لہٰذا اپنے دم پر ہی ملازمت کرنا تھی۔ اپنی صلاحیتوں کا احوال ایک سی وی میں لکھ کر ڈان میڈیا گروپ کو بھیجا۔ 2016 میں ہم ڈان میڈیا گروپ کے اردو ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی بلاگ ڈیسک پر بطور ترجمہ نگار کام کرنے لگے ۔ اس دوران ترقی کرتے ہوئے ملٹی میڈیا پروڈیوسر بھی بنے ۔ بعدازاں جب میڈیا میں بحران کے بھوت نے سر اٹھایا تو اپنے اندر کے مڈل کلاس مین کا یہ خوف بھی بڑھتا گیا کہ جاب سیکورٹی لازمی ہے ۔ والدہ ماجدہ جو کہ خود پیشے سے پرائمری اسکول میں بطور استاد اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں ،وہ بھی اچانک موذی مرض میں مبتلا ہوگئیں (خدا کا شکر ہے کہ اب وہ مرض پر سبقت پاچکی ہیں)۔ ایسے میں پی آئی ڈی میں ایک چھوٹے گریڈ کی نوکری کے لئے درخواست جمع کرادی کہ سرکاری خرچ پر علاج معالجہ ہونے کے امکانات بھی روشن ہو جائیں گے ۔ ٹیسٹ ہوا، انٹرویو ہوا اور پاس ہوئے ۔ خوش قسمتی سے پی آئی ڈی حیدرآباد میں تعیناتی ہوگئی اور مجھے اشتہارات کے شعبے کا ذمہ دے دیا گیا۔ یہ تھا میرا پیشہ ورانہ سفر۔
پی آئی ڈی سے ایک سالہ لیئن لے کر ہم نے وفاقی اردو یونیورسٹی میں قدم رکھا۔ 2017میں شائع ہونے والے اشتہار کو پڑھ کر ہم نے لیکچرارشپ کے لئے درخواست جمع کروادی۔ کئی سال بعد ہی سہی لیکن ٹیسٹ ہوا جس میں کامیاب ہوئے ، انٹرویو ہوا جس میں پر اعتماد ہو کر تمام سوالوں کا جواب دیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایچ ای سی کے نمائندے کی موجودگی میں اس وقت کے شعبہ انچارج جناب اوج کمال نے یہ سوال پوچھا تھا کہ کیا آپ ہمارے طالب علموں کو ڈیجیٹل میڈیا کی تعلیم دے سکتے ہیں؟ اور میں نے اسی وقت ایک مختصر سبقی منصوبہ تک پیش کردیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے میرا 5سالہ پیشہ ورانہ تجربہ کارفرما تھا۔ انٹرویو کے وقت میرے پاس نہ صرف اشتہار کے مطابق تعلیمی اسناد تھیں۔بلکہ صحافتی ورک شاپس سیمیناروں اور کورسز کی فہرست بھی تھی۔ انٹرویو اچھا ہوگیا۔پھر سلیکشن بورڈ کا معاملہ اٹک گیا۔ ہم وفاقی اردو کا ایپی سوڈ بھول بھال کر حیدرآباد میں پی آئی ڈی کی نوکری کے تقاضے پورے کرنے میں لگ گئے ۔
بالآخر 2022میں لیکچرار بننے کا خواب تعبیر کی منازل تک پہنچا اور راقم الحروف کو تقررنامہ موصول ہوا۔ جامعہ اردو آمد کے بعد ہم نے پوری مستعدی سے اس جامعہ کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ شعبے کی انتظامیہ نے کئی موقعوں پر سیمینار،ورکشاپ کے انعقاد میں ہمارا بھرپور ساتھ دیا اور کانفرنسوں کے انعقاد میں ہم نے شعبے کے لئے دن رات ایک کیا۔ تدریس کا فریضہ ایمان کا حصہ سمجھ کر پورا کرتے رہے۔ اپنے پیشہ ورانہ تجربات کو طالب علموں میں بانٹتے رہے ۔ اس اثنا میں جامعہ کے اندر یہ آوازیں سنتے رہے کہ کچھ بھرتیاں و ترقیاں سیاسی اثرورسوخ کے مرہون منت ہیں۔ ہم سنا ان سنا کرکے کام سے کام رکھتے چلے گئے ۔ دو ماہ کی تنخواہوں اور کئی ماہ کی ہاؤس سیلنگ کی عدم ادائیگی بھی ہماری کاوشوں کے آڑے نہیں آئی۔
تاہم ایک مقامی روزنامہ کے 10نومبر کے شمارے میں ایک مضمون بعنوان “سفید پوشیاں بمعنی کفن پوشی” پڑھا جس میں 2013 2017 کے اشتہار کے تحت آنے والے تمام تر اساتذہ کو ‘سیاسی گھس بیٹھیوں”کے لقب سے نواز دیا گیا۔ اخبار میں شائع ہونے والی ایک عام خبر سے لے کر کالم تک میں حقائق کو بیان کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر خبروں میں ممکنہ یا مبینہ جیسے الفاظ اکثر و بیشتر پڑھنے کو ملتے ہیں۔ روزنامہ میں شائع ہونے والے اس مضمون کے ذریعے چند سوال کالم نگار صاحبہ سے پوچھنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں۔ کیا تمام تر بھرتیاں سیاسی ہیں؟ کیا ہم جیسے لوگ بھی سیاسی بھرتی کی پیداوار ہیں جو زینہ بہ زینہ اپنے کیریئر کی کٹھن سیڑھی چڑھتے رہے ؟ کیا ڈان میڈیا گروپ میں بھی ہماری سیاسی بھرتی ہوئی تھی؟ کیا میری ڈان میں ترقیاں بھی سیاسی تھیں؟ اگر آپ کے نزدیک جامعہ میں ہونے والی تمام یا چند بھرتیاں مشکوک ہیں تو شواہد پیش کریں اور ثبوت کے ساتھ اپنا موقف بیان کیجیے ۔
یہ معاملہ اتنا ہلکا نہیں بلکہ کافی حساس ہے ۔ یہی مضمون ہمارے سماجی حلقہ رفقا اور والدین نے بھی پڑھا اور انہیں اس سے رنج پہنچا ہے کہ ہماری میرٹ کو مقامی اخبار نے ایک کالم کے ذریعے یوں بنا کسی ثبوت کے مٹی میں ملا دیا۔میری مقامی اخبار کے مدیر سے درخواست ہے کہ اس حوالے سے کم از کم وضاحت شائع کریں کہ لکھاری کے خیالات یا پیش کردہ حقائق سے اخبار کا متفق ہونا ضروری نہیں، وگرنہ کل کالم نگاری کے ذریعے ہر ایک بغیر کسی ثبوت کے ایک دوسرے پر الزام لگاتا رہے گا، افواہیں خبروں کا درجہ حاصل کرلیں گی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر