... loading ...
ریاض احمدچودھری
مسئلہ کشمیر کوئی علاقائی یاجغرافیائی یا سرحدی تنازعہ نہیں ہے بلکہ یہ کفرواسلام کی جنگ ہے جس میں مسلمانوں سے اپنے خون سے شجرتوحیدکی آبیاری کی ہے۔کشمیرکی آزادی اقوام متحدہ یا انسانی حقوق کے ذریعے بالکل بھی ممکن نہیں بلکہ صرف جہاد کاراستہ ہی آزادی کشمیرکاواحدراستہ ہے۔مسئلہ کشمیر دنیا کے دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے برصغیر کے ڈیڑھ ارب لوگ اذیت میں مبتلا ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی کی وجہ سے ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ لگی ہے ۔ تجارتی تعلقات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس پر دونوں ملک بہت نیچے ہیں۔ قومی شاونزم کی بنیاد پر دشمنی کے جذبات بھڑکا کر عوام کا استحصال کیا جاتا ہے۔ مسئلے کے بنیادی فریق ریاستی عوام بنیادی حقوق سے محروم ۔منقسم اور ریاستی جبر کا شکار ہیں۔اس پورے خطے میں امن کی بحالی اور ترقی کے لیے اس تنازعہ کا حل ناگزیر ہے۔ برصغیر کے با شعور لوگوں کا یہ فرض ہے کہ نہ صرف ریاستی عوام کے لیے بلکہ اپنی تعلیم۔ صحت ۔ روزگار ۔ معاشی میدان میں ترقی اور جمہوری حقوق کے لیے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر زور دیں۔ دہشت گردی اور مقروض معیشت کے پیچھے بنیادی وجہ ہندوستان اور پاکستان کے خراب تعلقات ہیں جن کی جڑ مسئلہ کشمیر ہے۔ چوہتر سال سے اس بنیادی مسئلے کے حل میں پیشرفت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے ہندوستان ریاست جموں و کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔اقوام متحدہ کی قرار دادیں بھی محض کاغذ کا ٹکڑا ثابت ہوئی ہیں کیونکہ وہاں عالمی طاقتیں حاوی ہیں اور وہ اپنے مفادات کے مطابق ہی اقوام متحدہ کو استعمال کرتی ہیں۔ اس مسئلہ کو بھارت کی نظر سے دیکھنے سے یہ کبھی بھی حل نہیں ہو گا۔ مسئلہ کشمیر تب ہی حل ہو سکتا ہے جب ریاستی عوام کو بنیادی فریق تسلیم کر کے ان کی امنگوں کے مطابق اس کا حل تلاش کیا جائے۔
بھارت میں قید حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیرپرمسلح جدوجہد کے علاوہ کشمیریوں کے پاس کوئی آپشن نہیں،اگر ایسا ہوا تو نیوکلیئر وار کی جانب معاملہ چلا جائے گا، ورلڈ آرڈر بھی اب ختم ہو رہا ہے۔ کسی قوم کو توڑنا، تحریک کو کمزور کرنے کیلئے ملک کی معیشت کو کمزور کیا جاتا ہے ، مقبوضہ کشمیر میں بھی معیشت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 5ہزار مساجد کو شہید کرکے مندر تعمیر کئے جا رہے ہیں،کشمیر میں 50 لاکھ ہندوؤں کو ووٹر حقوق دے دیئے گئے ہیں اور تمام نوکریاں بھارتی ہندوؤں کو دی جا رہی ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں ڈریکونیین لاز نافذ ہیں، مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں ایکڑ اراضی بڑے بھارتی کاروباری حضرات کو الاٹ کی جا رہی ہے اور کشمیریوں کے ساتھ غلاموں والا سلوک کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہماری سیاسی قیادت کو آئیسولیٹ اور خاموش کیا جا رہا ہے ، بھارت پر اگر دباؤ نہ ڈالا گیا تو خطے میں کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ فلسطین میں جو ہو رہا ہے سب کچھ براہ راست دکھایا جاتا ہے ،کشمیریوں میں پکنے والا لاوا جب پھٹے گیا تو کتنا نقصان ہو گا آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے ، کشمیریوں میں پکنے والا جب پھٹے گا تو وہاں کی معیشت تباہ ہو جائے گی۔ افغانستان میں جن طاقتوں نے سرمایہ کاری کرائی تھی دیکھ لیں ان کے ساتھ کیا ہوا، اگر آپ کشمیر میں بھی کرفیو لگا کر سرمایہ کاری کروائیں گے تو افغانستان کی مثال آپ کے پاس موجود ہے ، مسئلہ کشمیر کو حل کیا جائے تاکہ دیرپا امن ہو۔
آزادی کشمیر کیلئے مسلسل جدوجہد اور کوشش سے بھارت کے ظلم جبرو استبداد اور دہشت گردی کو ہم سب مل کر جہاد کی قوت سے پامال کر کے ہی اپنے کشمیری مسلمان بھائیوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان جہاد کشمیر ہماری اولین ذمہ داری بن چکی ہے۔ امت واحدہ بن کر ہی ہم بھارت جیسے ملک سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی جہاد کے سوا ممکن نہیں ہے۔ فلسطین اور کشمیر کی تحریکوں میں لوگوں نے اپنی زندگی لگادی، یحییٰ سنوار کی شہادت نے سب کو قربانی کا پیغام دیدیا، یحییٰ سنوار نے زندگی کے 23سال جیل میں گزارے اورجیل میں رہتے ہوئے آزادی کے پیامبر بن گئے، یحییٰ سنوار سے امریکا اور اسرائیل خوف کھانے لگ گئے۔
نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا، ہمارے لوگوں کو کورونا میں پتہ چلا لاک ڈاؤن کیا ہوتا ہے، کشمیری طویل مدت سے لاک ڈاؤن کا شکار ہیں۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، کشمیری شہید ہوتے وقت وصیت کرتے ہیں ہمیں پاکستانی پرچم میں ہمیں قبر میں اتارا جائے، کشمیریوں کا مقدمہ اس طرح سے لڑا جائے جس کا تقاضا ہے،کشمیر کا جتنا حصہ ملا وہ جہاد سے ہی حاصل ہوا، مقبوضہ کشمیرجہاد سے ہی آزاد ہوگا، اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں۔جناب نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ن لیگ کی قیادت نریندر مودی سے تجارت کی پینگیں نہ بڑھائے ورنہ عوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑیگا، میاں صاحب یہ دوستی آپ افغانستان سے کیوں نہیں کرتے جو برادر اسلامی ملک ہے، عدلیہ پر قبضہ کس طرح کرنا ہے سارے کام چل رہے ہیں، اپنی توجہ مشرقی بارڈر پر لگائیں، آپ بھارت سے دوستی لگائیںیہ خارجہ پالیسی کسی صورت قبول نہیں، کشمیریوں کے خون کا سودا کسی کو نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے کشمیر کے حوالے سے کمزور مؤقف پیش کیا، ان کے مؤقف سے بھارت کو فائدہ ہوا، آپ کو آزاد نہیں مقبوضہ کشمیر کی بات کرنی ہے کہ وہاں سے فوجیں ہٹنی چاہئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔