وجود

... loading ...

وجود

دہشت گردی کا کوئی جوازنہیں !

بدھ 13 نومبر 2024 دہشت گردی کا کوئی جوازنہیں !

حمیداللہ بھٹی

دہشت گردی پرقابوپانے کے لیے کسی نرمی کی نہیں بلکہ تمام وسائل بروئے کارلانے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دہشت گردوں کی مذمت کرنے کی بجائے جواز پیش کرتے ہوئے اپنے ہی اِداروں کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔ ایسے لوگ دہشت گردانہ کاروائیوں کومحرومیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ یہ سوچ یارویہ ملکی سالمیت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی کے تدارک کے لیے قانون نافذکرنے والے اِدارے ایساٹھوس اور نتیجہ خیزلائحہ عمل بنائیں جس سے دہشت گردوں کاہمیشہ کے لیے خاتمہ ہواِس کے لیے امن پسندوں کا تعاون حاصل کرنے سے بہتر جلداور دیرپانتائج ممکن ہیں لیکن جو بھی امن میں رخنہ اندازی کرے اُسے ایسا جواب دیا جائے جس سے دہشت گرداور اُن کے سہولت کار عبرت حاصل کریں۔
کوئٹہ ریلوے اسٹیشن سانحہ سے پورے ملک کی فضا نہ صرف سوگوار ہے بلکہ امن پسند حلقے تشویش کا شکار ہیں ایک لمحے میں چھبیس افراد کی جان لینے کے ساتھ باسٹھ لوگ زخمی کر دیے گئے ۔یہ واقعہ ظاہر کرتاہے کہ مزید نرمی ،رحمدلی یا سستی کے متحمل نہیں ہو سکتے اب پوری طاقت سے جواب دیناضروری ہو گیاہے جوبھی انسانی خون سے ہاتھ رنگنے میں مصروف ہیں اُنھیں سرعت سے عبرت کا نشان بنانا ہی حب الوطنی ہے سیاسی قیادت کوچاہیے کہ نہ صرف دہشت گردی کے اندرونی اسباب وتعاون کے زرائع ختم کرنے پر توجہ دے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اِداروں سے مکمل تعاون کرے ہر سانحے کے پس پردہ بیرونی ہاتھ کہہ دیناہی کافی نہیں بلکہ دہشت گردوں اور اُن کے سرپرستوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کینیڈین حکومت کی طرح ایک منظم مُہم کی ضرورت ہے عالمی اِداروں کی توجہ مبذول کرانے کے لیے وزارتِ خارجہ کو ہمہ گیر مُہم کا آغاز کر دینا چاہیے تاکہ اقوامِ عالم کی مدداور ہمدردیاںحاصل کی جا سکیں۔
بلوچستان اور کے پی کے گزشتہ چند برس سے دہشت گردی کی نئی لہر کی زد میں ہیں ماضی میں جب بھی ایسی صورتحال پیداہوئی تو سخت ترین اقدامات کیے گئے ایک دہائی میں دو فوجی آپریشنوں سے بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا جس سے نہ صرف ملک میں امن قائم ہوا بلکہ زندہ بچ جانے والوں کو راہ فراراختیار کرناپڑی اب دوبارہ دہشت گردی کا فتنہ سر اُٹھانے لگا ہے اور خوارج منظم ہونے لگے ہیں مگراِس کے خاتمہ کی کوششوں میں جس تیزی کی ضرورت ہے وہ کہیں نظر نہیں آتی بلکہ زمہ داران سست روی کا شکارنظرآتے ہیں دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد سیاسی و عسکری قیادت مذمت کرتی ہے بیرونی ہاتھ کی طرف اِشارہ بھی کیا جاتا ہے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے اعلانات کے بعد خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے لیکن عملی طورپر جس تحرک کی ضرورت ہے وہ کہیں محسوس نہیں ہوتا ایسارویہ حالات کی سنگینی کو کم تر ظاہر کرنے کے مترداف ہے اگر فتنے کا خاتمہ کرنا ہے تو اسباب کا گہرائی اور جامعیت کے ساتھ تجزیہ کرنا ہوگا اور پھر ایسی جامع حکمتِ عملی سے کام لینا ہوگا جس سے نہ صرف دہشت گردوں کا خاتمہ ہوبلکہ اسباب و وسائل کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ یقینی ہو۔
2020 سے لیکر آج تک غیر ملکی باشندے خاص طورپر نشانہ ہیں گزرے چاربرسوں میں کے دوران دہشت گردانہ کاروائیوںمیں بارہ غیرملکیوں سمیت 62 افراد قتل ہوئے غیر ملکیوں میں اکثریت چینی باشندوں کی ہے اسی طرح اگر گزشتہ ایک برس پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو دہشت گردی کے مجموعی طورپر دوہزار سے زائد واقعات پیش آئے گزرے دوبرسوں کی بات کریں تو صورتحال بہت ہی خوفناک اور تشویشناک نظر آتی ہے کیونکہ جاںبحق ہونے والے شہریوں کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی وزارتِ داخلہ نے قومی اسمبلی میں خود اعتراف کیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو تاجاہا ہے لیکن یہ اعتراف ہی کافی نہیں بلکہ حالات نتیجہ خیز اقدامات کا تقاضاکرتے ہیں لیکن اِس حوالے سے حکومتی حلقوں میں کسی قسم کی بے اطمنانی یاتشویش کے آثار نہیں ایسا لگتا ہے جیسے سب ٹھیک ہو دہشت گردوں کا فعال ہوناحکومتی رَٹ کی کمزوری ہے اگر حکومت کی ترجیح امن ہوتاتواب تک دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے لیے کوئی طریقہ کاربنایاجا چکا ہوتا ۔
قانون نافذ کرنے والے اِداروں نے اطلاعات پر کاوائیاں بھی کیں جن میں کئی دہشت گرد واصل جہنم ہوئے اور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی ہوئیں مگر دہشت گردی کے واقعات ختم نہیں ہو سکے وقفے وقفے سے امن دشمن عناصر اپنی موجودگی اور مضبوطی کا احساس دلاتے رہتے ہیں اِس کا ایک ہی مطلب ہے کہ پالیسیوں میںکہیں نہ کہیں ایسے سقم ہیں جن سے دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو اپنی مزموم کاروائیوں کے لیے سازگارفضادستیاب ہے وگرنہ امن کی صورتحال یوں دگرگوں نہ ہوتی۔
ہمیں غلطیوں کا اعتراف کر نے کے ساتھ یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ مشرقی سرحد کی طرح شمال اور مغرب میں بھی خرابی ہے حالانکہ افغانوں کی آزادی کے لیے پاکستان نے بے شمارجانی و مالی قربانیاں دیں روس اور امریکہ کے پنجہ استبداد سے نکالنے کے لیے افغان بھائیوں کی وکالت کی لیکن پاک افغان حکومتوں کے درمیان دوستی اور اعتمادکے رشتے کاہنوز فقدان ہے افغان قیادت خطے کے تمام ممالک سے راہ و رسم بڑھانے کی کوشش میں ہے مگر پاک افغان تعلقات بہتر ہونے کی بجائے خرابی کی طرف جارہے ہیںبھارت کے ساتھ افغانستان کی تجارت 650ملین ڈالرسے متجازہے مگر پاکستان کے ساتھ تجارت وتعاون کاسلسلہ منقطع ہوتارہتا ہے اِس کا مطلب ہے کہ دونوں طرف بداعتمادی کی فضا ہے جسے بہتر بناناکسی ایک فریق کی نہیں بلکہ دونوں کی زمہ داری ہے لیکن حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی ترجیحات میںاچھی ہمسائیگی ہے ہی نہیں ٹی ٹی پی سمیت خیبرپختونخواہ میں متحرک خوارج کوافغان سرزمین حاصل ہے بلوچستان میں بھی ریاست کے خلاف برسرِ پیکارتنظیموں سے افغان روابط حقیقت ہیں اگر شمال مغربی ہمسایہ اپنی زمہ داریاں پوری کرے تو پاکستان میں امن آنے کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتر ی ممکن ہے۔
دہشت گردوں کاسہولت کار قرار دیکر غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین کو نکالنے کی زور دار مُہم چلانے کے باوجودملک میں امن کے آثار ہنوز معدوم ہیں غوروفکرکی بات ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ہم سے کہاں ایسی غلطیاں ہوئیں کہ خطے میں دوست کم اور دشمن زیادہ ہورہے ہیں ؟ جب ہم نے اِس حوالے سے مکمل غور وفکر کر لیا تو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز لائحہ عمل بنانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے اور یہ جومحرومیوں کو دہشت گردی کاجواز قرار دیتے ہیں اُنھیںبھی غلط ثابت کرنے کی منزل حاصل ہوجائے گی لیکن ایسا تبھی ممکن
ہے جب سیاسی و عسکری قیادت کی سوچ ایک ہواِس میں شبہ نہیں کہ درپیش چیلنج غیر معمولی ہے مگر نتیجہ خیزی کے لیے بہتر حکمت ِ عملی ناگزیر ہے اگر وسیع تر مشاورت سے لائحہ عمل بنایا جائے تودہشت گردی کے فتنے کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ممکن ہے کوئٹہ سانحے نے ملک کے محب الوطنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت کیسے متحرک ہوتی ہے پورے ملک کی نظریں اُن پر ہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر