وجود

... loading ...

وجود

ٹرمپ کی جیت

هفته 09 نومبر 2024 ٹرمپ کی جیت

حمیداللہ بھٹی

ڈونلڈٹرمپ صدارتی انتخاب جیت کر امریکہ کے 47ویں صدرمنتخب ہو چکے ہیں۔ سات ارب ستر کروڑ ڈالر کی بناپرانھیں ملک کا امیر ترین صدر کہہ سکتے ہیں۔ ماضی میں یہ اعزاز جان ایف کینڈی کے پاس تھا جن کی دولت ایک ارب تیس کروڑڈالر تھی مقتدرہ کی طرف سے مداخلت کے خدشات کی بناپر ٹرمپ کی حالیہ جیت غیر متوقع ہے مگر ساڑھے چھ کروڑ کے مقابل ساڑھے سات کروڑ ووٹروں کا اعتماد کرنا نئی تاریخ ہے جبکہ 538 الیکٹورل ووٹوں میں سے جیت کے لیے 270 کی ضرورت تھی۔ ہیرس تو 226 سے آگے نہ بڑھ سکی اور ٹرمپ کیسے 295 لے گئے؟ اِس پر حیران وششدرامریکی بھی سوچ وبچارمیںہیں ۔گارڈین کے خیال میں وہ تاریخ کے بدترین صدر قرار پائے اور بوڑھے ترین بھی، جب آمدہ برس بیس جنوری کو ٹرمپ اپنے منصب کا حلف اُٹھائیں گے تو اُن کی عمر 78 سال 221دن ہوچکی ہوگی جبکہ موجودہ صدر بائیڈن نے 78برس 61دن کی عمر میں حلف اُٹھا یا۔ ٹرمپ تاریخ کے واحد صدر ہیں جن کا کانگرس نے دوبار مواخذہ کیا۔ امریکی صدر گروورکلیولینڈ کے بعد ٹرمپ دوسرے شخص ہیں جو ایک ٹرم انتخاب ہار کر تیسرا انتخاب جیت کر امریکہ کے دوسری بارصدر منتخب ہوئے اپنی رنگین مزاجی اور پلے بوائے کی شہرت کے باوجود امریکیوں کے دل جیتے حالانکہ ہزاروں خرابیوں کے باوجو د امریکی کوشش کرتے ہیں کہ رہنما بے داغ کردار کا مالک ہو قسمت کی یاوری سے ٹرمپ نے تمام ترخامیوں کے باوجود دلوں میں نہ صرف جگہ بنائی بلکہ فقید المثال کامیابی بھی حاصل کی۔کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی جیت میں سب سے زیادہ عمل دخل ایک خاتون کا امیدوار ہونا ہے اوریہ کہ اگر مدمقابل کوئی مرد ہوتا تو شاید ٹرمپ کو غیر معمولی کامیابی نہ ملتی دلیل یہ کہ کملا ہیرس کا ہیلری کلنٹن سے موازنہ ہی نہیں بنتا لیکن وہ بھی کامیابی حاصل نہ کر پائیں کیونکہ ووٹ دینے کا مرحلہ آیا تو اکثریت نے ایک مرد کو خاتون پر فوقیت دی ۔اب بھی صنفی تفریق ہی ٹرمپ کو فتح دلانے کا باعث بنی اور یہ کہ امریکی معاشرہ لاکھ لبرل اور روشن خیالی کا دعویٰ کرے۔ انتخاب میںصنفی تفریق مقبولیت پر اثر انداز ہوتی ہے کچھ تو کہتے ہیں کہ لوگوں نے اِس ڈرسے ٹرمپ کوووٹ دے دیے کہ کہیں دوبارہ ملک کو چھ جنوری 2021کیپٹل ہل جیسے سانحے کاسامنا نہ کرناپڑے مگر اِس دلیل میںکوئی وزن محسوس نہیں ہوتا،کچھ کا کہنا ہے کہ گورے لوگ رنگداروں کو خود سے کم تر سمجھتے ہیں اور باراک اوبامہ کا ردِ عمل ٹرمپ ہیں نیز حملے کے باوجود حواس قائم رکھنے پر امریکیوں نے فیصلہ کر لیا کہ ملک کو ایسے ہی مضبوط اعصاب کے مالک کی ضرورت ہے ۔
ہیرس نے شکست تسلیم کرتے ہوئے ٹرمپ کو مبارکباد دی ہے اِس لیے ملک میں ہنگامہ آرائی کاتو کوئی امکان نہیں رہا بلکہ پُرامن طریقے سے اقتدارکی منتقلی یقینی ہو گئی ہے لیکن ہیرس کی شکست پر تبصرے و تجزیے جاری ہیں اُن کی ہارمیں اسرائیل کی غیرمتزلل حمایت کا بھی عمل دخل ہے۔ انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑانے کے باوجود ہتھیار فراہم کرنے جیسے دعوے عوامی مقبولیت کرنے کا باعث بنے دلیل فلسطینی خاتون امیدوار کا یہودی امیدوار کو عبرتناک شکست سے دوچار کرناپیش کی جاتی ہے۔ فلسطین میں جاری نسل کشی اور بیروت پر آتش وآہن برسانے کے عمل کو امن پسندوں کے لیے سراہنا مشکل ہے لیکن امیر یہودیوں کواپنی حمایت پر رضامند کرنے کے لیے ہیرس نے عوامی نفرت مول لی اور شکست کی کھائی میں جاگریں کچھ لوگ انتخابی شکست کو ہیرس کے سیاسی کردارکے خاتمے کا سنگِ میل قرار دیتے کہتے ہیں کہ اب شایدہی وہ مستقبل میں کبھی صداتی انتخاب میں حصہ لیے سکیں ۔
معاشی جمود کا شکار دنیا جنگوں کی متحمل نہیں ہو سکتی مگر مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی کی طرف سے جاری فلسطینیوں کی نسل کشی اور یوکرین و روس جنگ کو ختم ہونے سے روکنے میں امریکی کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ۔اگر جوبائیڈن انصاف سے کام لیتے تو تباہی کو روکناممکن تھا مگر بائیڈن و ہیرس نے اِس حوالے سے مجرمانہ کردار اداکیا۔ ایسے حالات میں ٹرمپ کی طرف سے جنگیں روکنے اور تنازعات کو بات چیت سے حل کرنے کی بات نے ووٹروں کے دل جیت لیے اب اور کچھ ہو یا نہ ہو مشرقِ وسطیٰ میں امن بحال ہونے کے ساتھ روس ویوکرین میں جاری جنگ کاخاتمہ ہو سکتاہے۔ جوبائیڈن انتظامیہ نے جاتے جاتے اسرائیل کو دفاعی سازوسامان دینے کا ایک بڑامعاہدہ کیا ہے جس کی مالیت چودہ کھرب سے زائد ہے۔ ٹرمپ بھی اسلحے کی فروخت سے امریکی معیشت بہتر بنانے کانظریہ رکھتے ہیں لیکن حالیہ صدرکی طرح نسل کشی کی اجازت شایدہی دیں دنیا کو توقع ہے کہ ٹرمپ تنازعات ختم کرانے میں وعدے کے مطابق دلچسپی لیں گے۔
دنیا تیزی سے کثیر قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے جسے امریکہ روکنے کی جدوجہد میں ہے ٹرمپ نے 2016 سے 2020میں پہلے دورِ صدارت کے دوران چین سے تجارتی جنگ چھیڑے رکھی نہ صرف اپنے ملک کو پیرس ماحولیاتی معاہدے سے الگ کر لیا بلکہ ایرانی جوہری معاہدے سے بھی علیحدگی اختیارکر لی اب بھی شاید وہ اپناطرزِ عمل برقرار رکھیں اور تارکین وطن کے حوالہ سے بھی پالیسی میں کوئی نرمی نہ لائیں لیکن اب اُن کے پاس تجربہ ہے اِس لیے ممکن ہے پہلے دورِ صدارت کی طرح بچگانہ بیان بازی اور حرکتوں سے اجتناب کریں۔
امریکہ کے نہ صرف چین سے تعلقات سخت خراب ہیں بلکہ روس سے تعلقات میں بھی کشیدگی وتنائو عروج پرہے مستقبل میں یہ بدمزگی مزید بڑھنے کا قوی امکان ہے ایسے حالات میں ضرورت اِس امرکی ہے کہ دنیا کو امریکہ طاقت سے دھمکانے سے گریز کرے ٹرمپ جسے روس کے لیے نرم گوشہ رکھنے والا کہا جاتا ہے مگر جیت پر ماسکو نے کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا بلکہ واضح طورپر کہا ہے کہ اقتدار کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں آئے گا اور امریکہ مستقبل میں بھی دوست نہیں دشمن ہی رہے گا علاوہ ازیں امکان ہے کہ چین کے تجارتی سامان پر ٹرمپ انتظامیہ اضافی ٹیکس لگادے ایسا ہوتا ہے تو تائیوان تنازع پر دونوں ملکوں میں پیداہونے والی کشیدگی میں مزیداضافہ ممکن ہے البتہ پہلی تقریر میں ہی ٹرمپ کابھارت کو ایک سچا دوست اور مودی کوشاندار ملک کہنا واضح کرتا ہے کہ صدر کی تبدیلی سے امریکہ و بھارت تعلقات میں کمی آنے کی بجائے بلندیوں کی نئی سطح تک جا سکتے ہیں ۔
یک قطبی نظام بنانے میں نیٹواورمغربی ممالک کا اہم کردار ہے لیکن ٹرمپ امن کی بات کرتے ہیں اِس لیے ایک امکان یہ بھی ہے کہ وہ نیٹوکی مضبوطی وفعالیت کے لیے بائیڈن جیسا کردار ادانہ کریں یا نیٹو کی مالی مدد میں کمی کردیںشایدایسے ہی امکانات کو زہن میں رکھتے ہوئے یورپی یونین کے ایک سفیر نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت یورپی یونین کے لیے تعجب کی بات نہیں اور یورپی اتحاد کے رُکن ممالک اپنے دفاع کے لیے تیار ہیں۔ ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ٹرمپ کے صدر منتخب ہو نے سے امریکہ سے کئی ممالک کے تعلقات کی نوعیت بدل سکتی ہے کیونکہ ٹرمپ کی ترجیح امریکہ ہو گالہذا اپنے شہریوں کے ٹیکس کی رقم اتحادیوں میں تقسیم کرنے جیسی روایات پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر