وجود

... loading ...

وجود

ٹرمپ کی جیت سے عا لمی تبد یلیاں

هفته 09 نومبر 2024 ٹرمپ کی جیت سے عا لمی تبد یلیاں

رفیق پٹیل

امریکی صد ارتی انتخابات کی گونج اور اس پر بڑے پیمانے پر تبصرے پاکستان میں بھی کیے جارہے ہیں ۔ یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ ٹرمپ کے امریکی صد ارتی انتخابات میں کامیا ب ہونے کے بعد دنیا میں بڑی تبدیلیا ں آئیں گی۔ پاکستان میں اس وجہ سے شور و غوغا زیادہ ہے ۔وجہ یہ ہے کہ کچھ پاکستانی سیاستدانوں نے ٹرمپ کی نہ صرف مخالفت کی تھی بلکہ جو بیانات دیے تھے وہ ہر طرح سے نامناسب تھے۔ ا نتخابات کے بعد اب وہ تما م رہنما جھک کر سلامی پیش کر رہے ہیں۔ ان پر خوف سوار ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد عمران خان کی واپسی کا راستہ ہموار نہ ہو جائے ۔یہ خوف ایک حد تک درست بھی ہو سکتا ہے لیکن امریکی صد ر کے سامنے سب سے پہلی ترجیح امریکی معیشت ہے ۔غیر قانونی مقیم باشندوں کے انخلاء اور مقامی صنعت کو فروغ دے کر چین کی اشیاء کے مارکیٹ میں پھیلاؤ کو روکنا بھی ہے۔ امریکی مفا دات کے مطابق عالمی تنازعات کا خاتمہ اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنا بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہے ۔امریکی عوام کی خوشحالی ان کے حقوق کو تحفّظ دینا بھی امریکی نو منتخب صدر کی ترجیح ہوگی جس میں مہنگائی کا خاتمہ شامل ہوگا۔ وہ یوکرین کی جنگ سے نکلنے کی کوشش کریں گے ۔مشرق وسطیٰ کے بارے میں وہ ایک نئی امن پالیسی لا سکتے ہیں ۔ہوسکتا ہے ٹرمپ پاکستان کے سلسلے میں کوئی موقف اختیار کریں لیکن یہ کب ہوگا اس کا اند ازہ آنے والے وقت میں ہوگا۔
پاکستان کے اندرونی مسا ئل کا حل پاکستان کے عوام اور سیاسی جماعتوں اور برسراقتدار حلقوں کو طے کرنا ہے۔ اس وقت پاکستان اداروں کے زوال اور غیر فعّال ہونے کے بحران میں مبتلا ہے ۔یہ سلسلہ قیام پاکستان سے آہستہ آہستہ بتدریج چلا آرہا ہے لیکن گزشتہ تین سالوں میں اس میں بہت تیز ی آئی ہے ۔ملک کی مقنّنہ، اوربرسراقتد ار سیاسی جماعتیں عوامی حما یت سے محروم ہیں ۔عد لیہ آزاد نہیں رہی، انتظامیہ جانب دارہے ، ا حتساب سے عاری اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے بھی محروم ہے۔ ملک کے اہم ادارے اور عوام کے درمیان بہت زیادہ دوریاں پید ا ہو چکی ہیں۔ اداروں کو مستحکم بنانے والے ملک ترقّی کرتے ہیں۔ اداروں کی کمزوری ملک کو کمزور کردیتی ہے ۔جاپان پر ایٹمی حملہ ہوا بڑی تباہی پھیلی لیکن اس نے ادارں کوبچایا۔ انہیں بدعنوانی سے پاک رکھا ۔عدلیہ کومزید آزاد اور مضبوط کیا۔ انتخابی عمل کو شفّاف بنایا ۔سیاسی جماعتوں کومضبوط کیا ۔ایما ند اری اور میرٹ کو پروان چڑھا کر اس نے حیرت انگیز ترقّی کی۔ اپریل 2022 کے بعد سے جو بحران شروع ہوا ،اس کی گہرائی کی طرف توجّہ نہیں دی گئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بحران اچانک نہیں پید ا ہوا۔ اس کی ابتد ا پاکستان کے قیا م کے کچھ عرصہ بعد ہی شروع ہو گئی تھی۔ شدید سیاسی مسائل سامنے آگئے تھے ۔ایک خرابی اس وقت شروع ہوئی تھی جب 1947 کے بعد سے 1956 تک آئین صرف اس لیے نہیں بننے دیا گیا کہ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی ،یعنی آبادی کے لحاظ سے وہ54 فیصد اور مغربی پاکستان 46فیصد لہٰذ ا وسائل میں ان کو آبادی کے تناسب سے حصّہ دینے سے روکنا تھا۔ اس مقصد کے لیے پیریٹی کے قانون کو آئین کا حصہ بنایا گیا ،یعنی مغربی اور مشرقی پاکستان برابرکے حصّہ دار ہونگے ۔مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مقبول رہنما حسین شہید سہروردی نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پیریٹی کو اس لیے قبول کرلیا کہ کسی طرح آئین بن جا ئے ۔اس طرح 1956میں آئین بن گیا حسین شہید سہروردی وزیر اعظم بن گئے جو شہریوں کے حقوق کے علمبردار بھی تھے ۔سرمایہ دار ،بڑے تاجر اور جاگیردار اس صورتحال سے پریشان ہوگئے اور انہوں نے صدر اسکندر مرزا پر دباؤ ڈال کر وزیر اعظم حسین شہید سہر وردی کو برطرف کرا دیا۔ یہ پاکستان کے لیے پہلی بڑی تبا ہی تھی مغربی اور مشرقی پاکستاں میں ایسی خلیج پیدا ہوگئی کہ اس کا کوئی ازالہ نہ ہو سکا ۔ایک اور تباہی اس وقت ہوئی جب جنرل ایوب خان کی پشت پناہی پر صدر اسکندر مرزا نے 1956ء کے آئین کو 7اکتوبر 1958ء کو ختم کرکے اسمبلیاں توڑ د یں ۔وزیر اعظم فیروز خان نون اور کابینہ کو برطرف کرکے مارشل لاء لگادیا۔27اکتوبر کو جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھال لیااس طرح جمہوریت بھی چلی گئی اور آمریت کا دور شروع ہوا۔ 1962ایوب خان اپنا ایک نیا آئین لے آئے۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کا غصہ بڑھتا چلا گیا۔ مغربی پاکستان میں بھی طالب علموں ،مزدوروں اور کسانوں نے تحریک چلائی ،نتیجے میں ایوب خان نے اقتدار چھوڑ دیا۔ اقتدار جنرل یحییٰ خان کو دے دیا ۔یحییٰ خان نے پاکستان میں عام انتخابات کرادیے۔ عوامی لیگ نے واضح اکثریت حاصل کرلی لیکن اسے اقتدار دینے کے بجائے مشرقی پاکستان میں فوج کشی کردی ۔عوامی لیگ کو بھارتی فوج کی مدد مل گئی اور پاکستان دولخت ہوگیا جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ تھا۔اگر مذاکرات کے ذریعے عوامی لیگ کو بنگلہ دیش کا اختیار دے دیاجاتا اور فوج کشی نہ ہوتی تو پاکستان ایک سانحے سے بچ جاتا۔ جیسا کہ سویت یونین نے کیا تھا۔ سویت یونین کے بھی ٹکڑے ہوگئے تھے لیکن کوئی خون خرابہ نہ ہوا۔ پولٹ بیورو کے اجلا س میں طے ہوا کہ تمام ریاستوں کو آزاد کردیا جائے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اب صرف مغربی پاکستان بچ گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے وزات عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 1973میں ایک متفقہ آئین منظور کرالیا بعد میں اس میں ترامیم بھی ہوئیں۔ 1977دائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتّحادنے بھٹو پر دھاند لی کا الزام لگا کر ملک بھر میں پر تشدّد تحریک چلائی ، نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدا ر پر قبضہ کرلیا اور ذوالفقار علی بھٹوکی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر ایک قتل کے مقدمے میںعدالت کے ذریعے پھانسی دے دی گئی۔ یہ ایک اور بڑا سانحہ تھا ۔ضیاء الحق کے دور میں کلاشنکوف اور منشیات کے کلچر کو فروغ حاصل ہواایک اور بڑی خرابی 1985 میں نواز شریف کے وزیر اعلیٰ بننے سے ہوئی جو ضیاء الحق کی سرپرستی میں آگے بڑھ رہے تھے ۔انہوں نے سیاست میں جوڑ توڑ کے لیے دولت کا بھرپور استعمال کیا۔ اس کے نتیجے میں سیاست آلودہ ہوگئی اور بدعنوانی کو فروغ حاصل ہوا ۔اس کے اثرات سے پیپلز پارٹی بھی محفوظ نہ رہ سکی اور آصف زرداری کے میدان میں آنے کے بعد سیاست نے کاروبار کی شکل اختیار کرلی ۔لین دین عام ہوگیا پس پردہ ملک کی مقتدر قوت کا سیاست میں عمل دخل بڑھ چکاتھا اور ایک مرتبہ پھر ملک جنرل مشّرف کے مارشل لاء کی زد میں آگیا ۔تقریباً 9 سال وہ بر سراقتدا ر رہے بے نظیر بھٹو نے آصف زرداری کو پیچھے کرنے کی پوری کوشش کی اور اپنی زندگی میں آصف زرداری کے لیے حدود متعیّن کی لیکن دسمبر 2007میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی کے تمام اختیارا ت آصف زرداری کو حاصل ہو گئے۔ 2018 تک مسلم لیگ اور ن لیگ تین تین مرتبہ حکومت کر چکے تھے۔ کسی بھی حکومت نے شفاف انتخابات ،ادارو ں کو مضبو ط بنانے ، انتظامیہ کی سیاسی معاملات سے علیحدگی ، بدعنوانی کے خاتمے اورعوام کی خوشحالی پر بھر پور توجّہ نہیں دی بلکہ ساری توجّہ اقتدار کو طول دینے پر دی۔ نتیجے میں بدترین سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا سامنا ہے ۔لوگوں کا انتخابی عمل اور جمہوریت سے مکمل اعتبار ختم ہوگیا تو انتہا پسند تنظیمیں تیز رفتا ربھرتی کے ذریعے اپنی قوت میں بے تحاشہ اضافہ کر سکتی ہیں۔ اس مسئلے کومقامی سطح پر حل کرنا ہوگا ۔باہر کی کوئی قوت ہمارے اداروں کو بہتر نہیں کر سکتی ہیں ۔ٹرمپ کی کامیابی کے دنیا پر گہرے اثرات ہونگے لیکن ایمانداری کا رویّہ ہماری بہتری کی پہلی شرط ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
235 سیاسی گھس بیٹھیوں میں سے ایک گھس بیٹھیا وجود جمعرات 14 نومبر 2024
235 سیاسی گھس بیٹھیوں میں سے ایک گھس بیٹھیا

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی! وجود جمعرات 14 نومبر 2024
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!

مسئلہ کشمیر کفر و اسلام کی جنگ ! وجود جمعرات 14 نومبر 2024
مسئلہ کشمیر کفر و اسلام کی جنگ !

ایک سیکریٹری اور پوری اسمبلی وجود بدھ 13 نومبر 2024
ایک سیکریٹری اور پوری اسمبلی

دہشت گردی کا کوئی جوازنہیں ! وجود بدھ 13 نومبر 2024
دہشت گردی کا کوئی جوازنہیں !

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر