وجود

... loading ...

وجود

پی آئی اے کی نجکاری کامذاق

جمعرات 07 نومبر 2024 پی آئی اے کی نجکاری کامذاق

حمیداللہ بھٹی

پی آئی اے کی نجکاری کے دوران جس قسم کا غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیاگیا اُس سے ملک میں تشویش کی لہر دوڑگئی ہے اور اہلِ اقتدارکی اہلیت وصلاحیت کے بارے میں ابہام دورگیا ہے ۔لوگوں کے اذہان میں یہ خیال تقویت پکڑنے لگاہے کہ نجکاری کرتے ہوئے اِداروں کی مزیدتباہی کو یقینی بنایا جارہا ہے تاکہ مستقبل میں کوئی اِدارہ سنبھل نہ سکے اور منظورِ نظرکونوازناآسان رہے ۔نیز حقائق کی کھوج میں مصروف لوگ مایوس ہوکر نجکاری کاعمل مکمل ہونے پر اطمنان محسوس کریں اور تنقیدی لب کشائی کو بلاجوازتصورکریں۔ ملکی صنعت و زراعت اور معیشت کی موجودہ حالت اسی غیر سنجیدہ رویے کی مرہون منت ہے ۔حالات کا تقاضا ہے کہ غیر سنجیدگی چھوڑ کر خلوصِ نیت سے فرائض کی ادائیگی کی جائے مگر لگتا ہے کہ تساہل پسند ذمہ داران کو احساس ہی نہیں ،وہ قرض لے کر امورِ مملکت چلانے کے سواکچھ کرنے سے قاصر ہیں ۔
یہ درست ہے کہ قومی معیشت کو بحال کرنا ہے تو خسارے میں چلنے والے اِداروں کوکارآمد بنا ناہوگا۔وگرنہ نجکاری ناگزیرہے ۔ اٹھارویں ترمیم سے وفاق کی آمدن میں کمی اور صوبوں کے حصے میں نمایاں اضافہ ہواہے۔ مگراِس کا یہ مطلب نہیں کہ نجکاری کے نام پر حکومت کو اِدارے تباہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے ۔واقفانِ حال تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری کے دوران حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے پر توجہ ہی نہیں دی کیونکہ حکمران اپنے چہیتوں کو یہ اِدارہ کوڑیوں کے بھائو دینا چاہتے ہیں۔ اسی لیے اثاثوں کے بھی حصے بخرے کیے گئے اور غیرجانبدارسرمایہ کاروں کو بولی کے عمل سے الگ تھلگ رکھنے کی سعی کی گئی۔ اگرواقعی ایساہوا ہے تو جب بھی اِس واردات کے حقائق آشکار ہوئے عوامی نفرت کا لاواپھٹ سکتاہے۔
بچت کی دعویدار حکومت نے صدر اور وزیرِ اعظم کے طیاروں کی تزئین و آرائش کے لیے ایک ارب اسی کروڑ مختص کیے ہیں۔ علاوہ ازیں پی آئی اے کی نجکاری کے لیے جن مہنگے ترین منتظمین کی خدمات لی گئیں اُنھیں بھی سوادوارب اداکیاگیا ہے۔ یہ چارارب سے زائد رقم خرچ کرنے کے باوجود ملک کے اہم ترین اِدارے کی نجکاری نہیں ہو سکی۔ اِس کا ایک ہی مطلب ہے کہ نیلامی کے عمل سے قبل ضروری تیاری نہیں کی گئی ۔
خسارے میں جانے والے اِداروں کی نشاندہی نجی شعبے کو سونپ دینا ہی حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ازحد ضروری ہے کہ نجکاری کے لیے زیرِ غور تمام اِداروں کے حوالے سے ہر پہلو پر غوروخوض کے بعد ایسی حکمت ِعملی وضع کی جائے جس سے نہ صرف خزانے پر بوجھ کم ہو بلکہ معقول آمدن بھی حاصل ہو، بغیر سوچے سمجھے اثاثوں کو نجی شعبے کے حوالے کر دینا بھی قومی مفاد کے منافی ہے لیکن حکومتی رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اِداروں کو بوجھ سمجھ کرکے پھینکنا چاہتی ہے ۔یہ طریقہ کارنہ صرف وفاق کو مزید کمزور کرنے کا باعث بنے گا بلکہ قرض میں ڈوبی معیشت بحال کرنے کے راستے مسدود ہوتے جائیں گے ۔نجکاری کے وزیر علیم خان فرماتے ہیں کہ اِداروں کو بحال کرنا میری ذمہ داری نہیں ۔ارے بھئی آپ موجودہ حکومت کے اہم وزیرہیں جن کے پاس کئی وزارتوں کے قلمدان ہیں۔ اگر آپ کی کوئی ذمہ داری نہیں تویہ بتادیں کس کی ذمہ داری ہے؟ تاکہ عوام اپنی حکومت سے توقعات ہی وابستہ نہ کرے۔
نجکاری کمیشن نے پی آئی اے کے حوالے سے جس حماقت کا مظاہرہ کیا ہے، سچ پوچھئے تو عوام میں شدیدغم وغصہ ہے جس نے خسارے کا بڑابوجھ اپنے ذمہ لینے کے باوجوددوروز قبل بولی کے مرحلے میں جن چھ لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا اُن میں سے صرف ایک جس نے بولی کے عمل میں حصہ لیااُس نے بھی حکومت کی مقررکردہ پچاسی ارب کے مقابلے میں صرف دس ارب کی پیشکش کی ،جو مزاق کے سوا کچھ نہیں۔ اِس طرح نہ صرف نجکاری کے عمل سے وابستہ توقعات متاثر ہوئیں ہیں بلکہ معاشی بحالی کی کاوشوں کے حوالے سے حکومتی خلوص کے حوالے سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہواہے۔ عوامی حلقوں میں اب یہ سوچ پختہ ہورہی ہے کہ نجکاری کی آڑ میں کچھ اہم لوگ ملکی اِدارے ہتھیانا چاہتے ہیں مگراب عوام لاعلم نہیں، وہ ساری کارستانی دیکھ رہی ہے۔ اگر اپنے حامی افراد میں اہم اِدارے بانٹنے کا عمل جاری رہاتونہ صرف عوامی حمایت ختم بلکہ حکمرانوں سے نفر ت کی لہر شدت اختیارکر سکتی ہے۔
دس ارب کی پیشکش کرنے والے بلیوورلڈ سٹی کے بدنام پراپرٹی ڈیلرسعدنذیر اوراُس کے حصہ دارچوہدری ندیم اعجاز کو غیر سنجیدگی کی سزا دینی چاہیے جس نے نہ صرف بولی کے نام پر مذاق کیابلکہ دس ارب دینے کی بجائے فرمائش کی کہ اتنی مالیت کے پلاٹس لے لیں ۔کیا یہ بولی ہے؟ نہیں جناب یہ تو مذاق تھاجو بڑے اہتمام سے کیا گیا۔مقصداِدارے سے لوگوں کو بدظن کرناہے ۔اتنی رقم میں تو ایک جدید جہاز بھی نہیں خریداجا سکتا۔ پی آئی اے کے پاس تو سولہ طیارے روزوشب اُڑان بھر رہے ہیں۔ برطانیہ ،امریکہ ،یورپ اور مشرق وسطیٰ کے منافع بخش روٹ ہیں۔ نجکاری کے عمل کی ذمہ داری اپنے چہیتے اور بدنام فوادحسن فواد کودینے سے ظاہر ہے کہ شفاف نجکاری مقصدہی نہیں بلکہ کسی معتمدکوسونپناہے ۔شاید مناسب وقت پر خود بھی شامل ہو نے کامنصوبہ ہو، اسی لیے تو بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ مبادا بولی کے عمل میں شامل ہو کر رنگ میں بھنگ ڈال دیں ۔
ایسا مذاق پاکستان سے ماضی میں بھی ہوتارہا ہے پاکستان نے امریکہ سے ایف سولہ خریدنے کے لیے چھ سوملین ڈالر ادا کیے، لیکن جوہری پروگرام کو جواز بنا کر نہ صرف امریکہ نے پاکستان کو طیارے دینے کا عمل روک دیا بلکہ جو طیارے تیارحالت میں تھے ،اُن کی پارکنگ فیس کے نام پربھی پیسے پاکستان کے کھاتے میں شمار کیے جاتے رہے ،نواز شریف نے واشنگٹن دورے کے دوران صدر بل کلنٹن سے استدعا کی تو نصف رقم واپس کرنے کے ساتھ بقیہ پیسوں کا خوردنی تیل فراہم کرنے کاوعدہ کیا گیا بعد میں پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو انھوں نے ایک بینکار شوکت عزیز کو وزیرِ خزانہ بناکر ہدایت کی کہ ملکی معیشت بحال کریں۔ شوکت عزیز نے امریکہ کو پیشکش کی کہ پاکستان کو جو تین لاکھ ٹن گندم دی گئی ہے، وہ کاغذات میں مفت کی بجائے قیمتاً لکھ دیں اور یہی گندم ملکی ضرورت سے زیادہ ظاہر کرتے ہوئے بعد میں افغانستان کو عطیہ کردی گئی ۔اِس طرح نیک نامی بھی کما لی گئی اور ملکی معیشت توٹھیک نہ ہوئی البتہ شوکت عزیز نے اپنی معاشی حالت بہترین کر لی۔ اِس واردات سے خوش ہو کر مشرف نے شوکت عزیر کو وزیرِ خزانہ سے وزیرِ اعظم بنا دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فواد حسن فواد مزید کِس اہم ترین منصب کے حقدار قرار پاتے ہیں ۔جب پی آئی اے کو خریدنے یا پھر ائیر پنجاب بنانے کی باتیں ختم ہوں گی اور کے پی کے کی طرف سے بھی اِس اِدارے کو خریدنے کاشور تھمے گا تبھی اِس بارے شایدکچھ معلوم ہو پائے۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر