... loading ...
حمیداللہ بھٹی
پی آئی اے کی نجکاری کے دوران جس قسم کا غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیاگیا اُس سے ملک میں تشویش کی لہر دوڑگئی ہے اور اہلِ اقتدارکی اہلیت وصلاحیت کے بارے میں ابہام دورگیا ہے ۔لوگوں کے اذہان میں یہ خیال تقویت پکڑنے لگاہے کہ نجکاری کرتے ہوئے اِداروں کی مزیدتباہی کو یقینی بنایا جارہا ہے تاکہ مستقبل میں کوئی اِدارہ سنبھل نہ سکے اور منظورِ نظرکونوازناآسان رہے ۔نیز حقائق کی کھوج میں مصروف لوگ مایوس ہوکر نجکاری کاعمل مکمل ہونے پر اطمنان محسوس کریں اور تنقیدی لب کشائی کو بلاجوازتصورکریں۔ ملکی صنعت و زراعت اور معیشت کی موجودہ حالت اسی غیر سنجیدہ رویے کی مرہون منت ہے ۔حالات کا تقاضا ہے کہ غیر سنجیدگی چھوڑ کر خلوصِ نیت سے فرائض کی ادائیگی کی جائے مگر لگتا ہے کہ تساہل پسند ذمہ داران کو احساس ہی نہیں ،وہ قرض لے کر امورِ مملکت چلانے کے سواکچھ کرنے سے قاصر ہیں ۔
یہ درست ہے کہ قومی معیشت کو بحال کرنا ہے تو خسارے میں چلنے والے اِداروں کوکارآمد بنا ناہوگا۔وگرنہ نجکاری ناگزیرہے ۔ اٹھارویں ترمیم سے وفاق کی آمدن میں کمی اور صوبوں کے حصے میں نمایاں اضافہ ہواہے۔ مگراِس کا یہ مطلب نہیں کہ نجکاری کے نام پر حکومت کو اِدارے تباہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے ۔واقفانِ حال تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری کے دوران حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے پر توجہ ہی نہیں دی کیونکہ حکمران اپنے چہیتوں کو یہ اِدارہ کوڑیوں کے بھائو دینا چاہتے ہیں۔ اسی لیے اثاثوں کے بھی حصے بخرے کیے گئے اور غیرجانبدارسرمایہ کاروں کو بولی کے عمل سے الگ تھلگ رکھنے کی سعی کی گئی۔ اگرواقعی ایساہوا ہے تو جب بھی اِس واردات کے حقائق آشکار ہوئے عوامی نفرت کا لاواپھٹ سکتاہے۔
بچت کی دعویدار حکومت نے صدر اور وزیرِ اعظم کے طیاروں کی تزئین و آرائش کے لیے ایک ارب اسی کروڑ مختص کیے ہیں۔ علاوہ ازیں پی آئی اے کی نجکاری کے لیے جن مہنگے ترین منتظمین کی خدمات لی گئیں اُنھیں بھی سوادوارب اداکیاگیا ہے۔ یہ چارارب سے زائد رقم خرچ کرنے کے باوجود ملک کے اہم ترین اِدارے کی نجکاری نہیں ہو سکی۔ اِس کا ایک ہی مطلب ہے کہ نیلامی کے عمل سے قبل ضروری تیاری نہیں کی گئی ۔
خسارے میں جانے والے اِداروں کی نشاندہی نجی شعبے کو سونپ دینا ہی حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ازحد ضروری ہے کہ نجکاری کے لیے زیرِ غور تمام اِداروں کے حوالے سے ہر پہلو پر غوروخوض کے بعد ایسی حکمت ِعملی وضع کی جائے جس سے نہ صرف خزانے پر بوجھ کم ہو بلکہ معقول آمدن بھی حاصل ہو، بغیر سوچے سمجھے اثاثوں کو نجی شعبے کے حوالے کر دینا بھی قومی مفاد کے منافی ہے لیکن حکومتی رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اِداروں کو بوجھ سمجھ کرکے پھینکنا چاہتی ہے ۔یہ طریقہ کارنہ صرف وفاق کو مزید کمزور کرنے کا باعث بنے گا بلکہ قرض میں ڈوبی معیشت بحال کرنے کے راستے مسدود ہوتے جائیں گے ۔نجکاری کے وزیر علیم خان فرماتے ہیں کہ اِداروں کو بحال کرنا میری ذمہ داری نہیں ۔ارے بھئی آپ موجودہ حکومت کے اہم وزیرہیں جن کے پاس کئی وزارتوں کے قلمدان ہیں۔ اگر آپ کی کوئی ذمہ داری نہیں تویہ بتادیں کس کی ذمہ داری ہے؟ تاکہ عوام اپنی حکومت سے توقعات ہی وابستہ نہ کرے۔
نجکاری کمیشن نے پی آئی اے کے حوالے سے جس حماقت کا مظاہرہ کیا ہے، سچ پوچھئے تو عوام میں شدیدغم وغصہ ہے جس نے خسارے کا بڑابوجھ اپنے ذمہ لینے کے باوجوددوروز قبل بولی کے مرحلے میں جن چھ لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا اُن میں سے صرف ایک جس نے بولی کے عمل میں حصہ لیااُس نے بھی حکومت کی مقررکردہ پچاسی ارب کے مقابلے میں صرف دس ارب کی پیشکش کی ،جو مزاق کے سوا کچھ نہیں۔ اِس طرح نہ صرف نجکاری کے عمل سے وابستہ توقعات متاثر ہوئیں ہیں بلکہ معاشی بحالی کی کاوشوں کے حوالے سے حکومتی خلوص کے حوالے سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہواہے۔ عوامی حلقوں میں اب یہ سوچ پختہ ہورہی ہے کہ نجکاری کی آڑ میں کچھ اہم لوگ ملکی اِدارے ہتھیانا چاہتے ہیں مگراب عوام لاعلم نہیں، وہ ساری کارستانی دیکھ رہی ہے۔ اگر اپنے حامی افراد میں اہم اِدارے بانٹنے کا عمل جاری رہاتونہ صرف عوامی حمایت ختم بلکہ حکمرانوں سے نفر ت کی لہر شدت اختیارکر سکتی ہے۔
دس ارب کی پیشکش کرنے والے بلیوورلڈ سٹی کے بدنام پراپرٹی ڈیلرسعدنذیر اوراُس کے حصہ دارچوہدری ندیم اعجاز کو غیر سنجیدگی کی سزا دینی چاہیے جس نے نہ صرف بولی کے نام پر مذاق کیابلکہ دس ارب دینے کی بجائے فرمائش کی کہ اتنی مالیت کے پلاٹس لے لیں ۔کیا یہ بولی ہے؟ نہیں جناب یہ تو مذاق تھاجو بڑے اہتمام سے کیا گیا۔مقصداِدارے سے لوگوں کو بدظن کرناہے ۔اتنی رقم میں تو ایک جدید جہاز بھی نہیں خریداجا سکتا۔ پی آئی اے کے پاس تو سولہ طیارے روزوشب اُڑان بھر رہے ہیں۔ برطانیہ ،امریکہ ،یورپ اور مشرق وسطیٰ کے منافع بخش روٹ ہیں۔ نجکاری کے عمل کی ذمہ داری اپنے چہیتے اور بدنام فوادحسن فواد کودینے سے ظاہر ہے کہ شفاف نجکاری مقصدہی نہیں بلکہ کسی معتمدکوسونپناہے ۔شاید مناسب وقت پر خود بھی شامل ہو نے کامنصوبہ ہو، اسی لیے تو بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ مبادا بولی کے عمل میں شامل ہو کر رنگ میں بھنگ ڈال دیں ۔
ایسا مذاق پاکستان سے ماضی میں بھی ہوتارہا ہے پاکستان نے امریکہ سے ایف سولہ خریدنے کے لیے چھ سوملین ڈالر ادا کیے، لیکن جوہری پروگرام کو جواز بنا کر نہ صرف امریکہ نے پاکستان کو طیارے دینے کا عمل روک دیا بلکہ جو طیارے تیارحالت میں تھے ،اُن کی پارکنگ فیس کے نام پربھی پیسے پاکستان کے کھاتے میں شمار کیے جاتے رہے ،نواز شریف نے واشنگٹن دورے کے دوران صدر بل کلنٹن سے استدعا کی تو نصف رقم واپس کرنے کے ساتھ بقیہ پیسوں کا خوردنی تیل فراہم کرنے کاوعدہ کیا گیا بعد میں پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو انھوں نے ایک بینکار شوکت عزیز کو وزیرِ خزانہ بناکر ہدایت کی کہ ملکی معیشت بحال کریں۔ شوکت عزیز نے امریکہ کو پیشکش کی کہ پاکستان کو جو تین لاکھ ٹن گندم دی گئی ہے، وہ کاغذات میں مفت کی بجائے قیمتاً لکھ دیں اور یہی گندم ملکی ضرورت سے زیادہ ظاہر کرتے ہوئے بعد میں افغانستان کو عطیہ کردی گئی ۔اِس طرح نیک نامی بھی کما لی گئی اور ملکی معیشت توٹھیک نہ ہوئی البتہ شوکت عزیز نے اپنی معاشی حالت بہترین کر لی۔ اِس واردات سے خوش ہو کر مشرف نے شوکت عزیر کو وزیرِ خزانہ سے وزیرِ اعظم بنا دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فواد حسن فواد مزید کِس اہم ترین منصب کے حقدار قرار پاتے ہیں ۔جب پی آئی اے کو خریدنے یا پھر ائیر پنجاب بنانے کی باتیں ختم ہوں گی اور کے پی کے کی طرف سے بھی اِس اِدارے کو خریدنے کاشور تھمے گا تبھی اِس بارے شایدکچھ معلوم ہو پائے۔