... loading ...
حمیداللہ بھٹی
فیصلے کرتے وقت جو حالات کومدِ نظر نہیں رکھتا وہ کامیابی کے زینے طے کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ دانشمندی یہ ہے کہ طوفان کا آسان ہدف بننے سے گریز اورحالات سازگارہونے پر سفرشروع کیاجائے۔ اِس طرح اورکچھ ہویا نہ ہو نقصان کاامکان کم ہوجاتاہے ۔یہ کوئی بہت باریک نُکتہ نہیں جو نظر نہ آسکے یا ایسا فلسفہ یا نسخہ نہیں جو آسانی سے سمجھ سے ہی باہرہو نہ ہی ایسا کرنا سرنڈرہوتا ہے۔ انقلاب راتوں رات نہیں آتے اورکوئی جنرل ساری سپاہ کوبیک وقت لڑائی میںنہیں جھونکتابلکہ ہر پہلو کو ذہن میں رکھ کرصف آرائی کی جاتی ہے۔ بہتر نتائج حاصل کرنے ہیں تو طریقے و سلیقے سے چلنا ہوگا اور فالورز کو لڑنے جھگڑنے کی شہ دینے کی بجائے فکری تربیت کرنا ہوگی ۔وگرنہ بہتر نتائج کی توقع پوری ہونا مشکل ہے۔ سیاسی کامیابیوں کے اندازے و قیافے تو ایک طرف فالورزکوہروقت بھگا بھگاکر اِتنا تھکا دیا جائے گا کہ وہ مایوسی کا شکار ہوجائیں گے ۔اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ مایوس لشکر ہمیشہ نقصان اُٹھاتے ہیں ۔
کسی دوسرے ملک کی مثال دینے کی بجائے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا تذکرہ زیادہ مناسب ہو گا جن کے پاس لڑنے کے لیے نہ کوئی ایسی فوج تھی جو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہووہ تو زیادہ تر بات چیت کے لیے بھی انگریزی کا سہارہ لیتے جسے آبادی کی غالب اکثریت لکھنے، سمجھنے اوربولنے سے قاصر تھی انھیں موجودہ دورجیسے زرائع ابلاغ کی اعانت بھی حاصل نہیں تھی مگر مختصر عرصے میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت بنادی وجہ یہ تھی کہ کردار وگفتارمیں تضاد نہ تھا ہمیشہ مدلل گفتگو سے قائل کرتے بانی پاکستان کے کردارسے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے مگر سیکھتا وہی ہے جو سیکھنے پر آمادہ ہو کسی اڑیل کو قائل کرنایاسمجھانا مشکل ہے آج کہا جاتا ہے کہ وہ لیڈر ہی نہیں جو جیل نہ گیا ہو ارے بابا قائدِ اعظم تو زندگی بھر کبھی جیل نہیں گئے لیکن اُن کے پائے کا کیا آج ملک میں کوئی ہے؟ہر گز نہیں۔
لوگ انقلاب کی بات کرتے ہیں اچھی بات ہے اپنے نظریات کے پرچار سے اگر اکثریت کو منظم کر لیا جائے تو انقلاب ممکن ہے مگر انقلاب کے بھی کچھ لوازمات ہوتے ہیں ۔ہر جگہ اڑ جانا ،موقع محل کا ادراک کیے بغیر گالی گلوچ کرنا اور لڑنے مرنے پر آمادہ رہنا کوئی دانشمندی نہیں۔ دلیل اور فکری تربیت کے بغیر انقلاب ممکن نہیں۔ انقلاب کے بھی کئی عوامل ہوتے ہیں۔ لڑنے مرنے اور گالیوں سے انقلاب کی منزل دورہوتی ہے۔ اپنے ہمسایہ ملک ایران کی مثال لے لیں ۔امام خمینی انقلاب لیکر آئے تودل پر ہاتھ رکھ کریہ بتائیں کیا اِس کی وجہ وہ اکیلے ہی تھے ؟ایک تلخ سچ یہ ہے کہ وہ فرانس سے امریکی طیارے پرسوارہوکر ایران آئے اور انقلابی رہنما کہلوائے۔ یہ ایک ایسا انقلاب تھا جس کی کوکھ سے عرب ایران مسلکی تنائو نے جنم لیا۔ آج بظاہر ایران کے خلاف اسرائیل اور امریکہ متحد ہیں مگر اُسے اِتنا کمزور کرنے سے محتاط ہیں جس سے عرب خود کو آزادمحسوس کرنے لگیں کیونکہ یہودی تمام عرب ممالک میں نہیں لیکن اہلِ تشیع ہر ملک میں موجود ہیں ۔ عربوں کو یقین دلایا جاتا ہے کہ تمھارادشمن اسرائیل نہیں بلکہ ایران ہے۔ ایک اور تلخ سچ ایران اور عراق جنگ کے دوران اسرائیل نے کئی برس تک ایران کو ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کیا ،وجہ یہ تھی کہ رضا شاہ پہلوی خطے میں امریکی حلیف تھا جس کے پاس زیادہ تراسلحہ امریکی ساختہ تھا مگر حلیف کا اقتدار ختم ہونے پر امریکہ نے ہتھیار وگولہ بارود فراہم کرنے پر پابندی لگا دی ایران کی اِس ضرورت کو اسرائیل نے پوراکیا۔
اگر کوئی یہ کہے کہ عمران خان کی مقبولیت ختم ہو چکی ہے، یہ درست نہیں مقبولیت کے پیمانے پر وہ آج بھی اہم ترین پوزیشن پر ہے۔ مگر اِس کے باوجود فوری طورپر اقتدارمیں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں اوریہ کہ موجودہ مقبولیت ہمیشہ برقرار رہے گی اور جب بھی انتخاب ہوئے وہ جیت جائے گا؟ اِس حوالے سے بھی خدشات کی بھر مارہے لہذا بہتر یہ ہے کہ بیانیہ بناتے وقت زمینی حقائق کو پیشِ نظر رکھا جائے اور جدوجہد کے دوران حالات کو پیشِ نظر، ہر سیاستدان اقتدارچاہتاہے اور قائل کرنے کے لیے ایسابیانیہ اپناتا ہے جس پر لوگ اَش اَش کر اُٹھیں مگر کیا اِس وقت ملک انتخاب کا متحمل ہے؟ جب معیشت اِس قدر گرداب میں پھنسی ہے کہ قرض اور سود کی ادائیگی دوبھر ہوچکی کوئی ملک مارکیٹ ریٹ پر قرض دینے کو تیارنہیں بلکہ ہم دنیا بھر میں سب سے مہنگا قرض لینے پر مجبور ہیں۔ ایسے حالات میں جب دنیا میں سرمایہ کار ی کا رجحان فروغ پزیر ہے ہماری قومی ائیرلائن کی نجکاری میں حصہ لینے پربیرونی دنیاکتراتی ہے چین جس کی دوستی کو ہم ہمالیہ سے بلند، سمندرسے گہری اور شہد سے میٹھی قرار دیتے ہیں وہ بھی نت نئی ہدایات دینے لگاہے ۔ظاہرہے ہر ملک اپنے مفادکی نگہبانی کرتاہے۔ چین کوبھی پاکستان کی خوشحالی سے زیادہ یہاں اڈے بنانے اورملک کو قرضوں میں جکڑنے سے غرض ہے۔ کیا انقلاب کا بیانیہ بنانے اور بے موقع جدوجہد کرنے والوں سے یہ سب پوشیدہ ہے؟اگر معلوم ہے تو کیوں انتشار وافراتفری کوفروغ دینے کاباعث ہیں؟
میں کسی کا طرفدار نہیں اور نہ ہی کسی کو فرشتہ ثابت کرنامیری زمہ د اری ہے البتہ اِتنا ضرورکہنا چاہوں گا کہ سیاسی کدورت کو فی الوقت بالائے طاق رکھنا اور فہام و تفہیم کی فضاملک کے لیے ناگزیر ہے پہلے سعودی عرب میں مخالفانہ نعرے لگائے گئے جس کی پاداش میں گرفتاریاں ہوئیں اور کافی لوگ ملک بدربھی ہوئے۔ اب برطانیہ میں سبکدوش منصف سے جو سلوک ہواہے، اُس کے مرتکب افراد کو سزاو جزا کا تو سامنا ہوگا ہی ،لیکن پاکستان کے تشخص کو جو نقصان پہنچا ہے۔ اُسے ٹھیک کرنے میں زمانے لگ سکتے ہیں۔ بیانیہ تو یہ تھا کہ امریکہ نے عدمِ اعتماد کی شہ دی اور پی ڈی ایم کو اقتدار دلوایا لیکن سیاسی اختلاف کے پنجرے سے چند لمحے نکل کر بتائیں کہ موجودہ حالات میں کیا یہ بیانیہ آپ کو سچ لگتا ہے؟ عمران خان کی گرفتاری پر امریکی حکومت تشویش ظاہر کرتی ہے اُس کے سینیٹروں کی اکثریت اپنے صدر سے عمران خان کی رہائی سے متعلق پاکستان سے بات کرنے کا مطالبہ کرچکی ہے ؟عمران خان کو عالمِ اسلام کا رہنما کہا جاتا ہے لیکن میئرلندن کے امیدوار صادق خان کے حریف ایک یہودی کی حمایت کرناکیا عالمِ اسلام کی رہنمائی کے کسی دعویدارکو زیب دیتاہے ؟آئیے سوچتے ہیں کہ ملک کا مقبول لیڈرتو بنا لیا گیا ہے کہیں ایسا تو نہیں اسرائیل کو تسلیم کرانے کے کسی منصوبے پر کام ہو رہا ہو؟جس طرح بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ضم کیا تو کہا گیا کہ جو بھی لڑنے کے لیے کشمیر جائے گا وہ محب الوطن نہیں ہو سکتایادرہے کہ عوام کے سخت ردِ عمل سے بچنے کے لیے اہم فیصلے ہمیشہ مقبول رہنمائوں سے ہی کرائے جاتے ہیں ۔