وجود

... loading ...

وجود

آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا؟

جمعرات 31 اکتوبر 2024 آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا؟

میری بات/روہیل اکبر
آوارہ کتوں نے سندھ کے بعد پنجاب میں بھی انت مچارکھی ہے۔ اور ان کاآسان شکار وہ غریب لوگ ہیں جو سائیکل بھی نہیں خرید سکتے۔ کچھ عرصہ پہلے سندھ سے ایسی خبریں تواتر سے آتی تھی کہ فلاں شہر میں اتنے افراد کو آوارہ کتوں نے کاٹ لیا۔اب اسی طرح کی خبریں پنجاب سے آنا شروع ہوچکی ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ کہ سندھ کے آوارہ کتوں نے پنجاب کا رخ کرلیا ہے ۔شائد اسی لیے راولپنڈی میں ایک ہی دن میں 6افراد کو کتوں نے کاٹ لیا۔ کتوں کے کاٹنے کے بعداس کی دوائی بھی نہیں ملتی اور غریب لوگ دیسی علاج اور ٹوٹکے کرکے وقت گزار لیتے ہیں۔ لاہور میں بھی آوارہ کتوں کی کثرت ہے لیکن اس طرف کسی کا بھی دھیان نہیں ہے۔ پہلے کبھی ہماری کارپوریشنوں والے آوارہ کتوں کو گولیاں دیتے تھے جن کی وجہ سے آوارہ کتوں کی تعداد کسی حد تک کم تھی۔ لیکن جب سے کمیٹی والے مال پانی اکٹھا کرنے میں مصروف ہوئے ہیں تب سے ہر چیز آوارہ ہی ہو چکی ہے۔ ہماری گلیاں اور بازار وں پر بھی آوارہ لوگ قابض ہو چکے ہیں جو ہر دونمبر اشیاء کھلے عام فروخت کرنے میں مصروف ہیں ۔اور تو اور ایک چھوٹے سے درجے والا انسپکٹر بھی بازاروں میں اپنی مرضی سے تھڑے اور فٹ پاتھوں پر قبضے کرواتا ہے۔ اب تو ان قبضہ گروپوں سے بھی کیا گلہ شکوہ اس وقت پورے ملک پر چند لوگ قابض ہیں، جنہوں نے نیچے قبضہ گروپوں کو بھی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ شائد اسی لیے ہم ہر کام میں دنیا کے آخری نمبروں پر ہیں اور ہمارے اداروں کا تو کوئی نمبر ہی نہیں رہا ۔
ہاں مجھے یاد آیا کہ ہم ابھی کچھ دنوں سے دنیا کو مات دینے میں کامیاب ہوئے ہیں اور بڑی کوششوں سے پہلا نمبر حاصل کیا ہے جس میں ہمارا پہلا نمبر آیا ہے اسکا تعلق ہماری صحت اور زندگی سے بڑا گہرا ہے اور یہاں تک پہنچنے میں بلاشبہ ہمارا اپنا کردار ،ہمارے اداروں کا کام اور ہماری حکومت کی پالیسیوں کا بڑا عمل دخل ہے جس کام میں ہم پہلے نمبر پر آئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی سے پیار ہے اور نہ ہی ہمیں کسی اور کا خیال ہے بلکہ ان اداروں کا بھی بیڑہ غرق ہوگیا ہے۔ جنہوں نے ہمیں شعور ،آگاہی اور حکمت عملی دینا ہوتی ہے۔ ان اداروں میں قبضہ مافیا بیٹھا ہوا ہے اور ان کی سرپرستیوں میں وہاں کے ملازمین کی ترقیوں کا سلسلہ کئی کئی سالوں سے رکا ہوا ہے جو ان اداروں کے سربراہ ہیں، وہی اداروں کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ان اداروں میں کام کرنے والے بے یقینی کا شکار ہیں، رہی بات حکومت کی جسے کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے اگر پرواہ ہے تو اپنے بندوں کو کہیں نہ کہیں لگوانے کی فکر ہے جبکہ صوبائی وزیر تعلیم نظام کی تبدیلی کی بجائے اساتذہ کو ہی تبدیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وسیع تعداد میں یہاں بھی اپنے بندوں کو نوکریوں سے نوازا جائے صحافیوں کو دھمکیاں دینے والی وزیر کے اپنے اداروں میں تباہی مچی ہوئی ہے۔ بالخصوص ڈی جی پی آر میں باہر سے بندوں کو لا لاکراس ادارے کی شناخت اور حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس ادارے پرپہلے بھی بہت کچھ لکھ چکا کہ کیسے باہراور اندر والوں نے اس ادارے کی شناخت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیااور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ خیر اب تو میں پوری قوم بالخصوص زندہ دلان لاہور کو مبارک باد پیش کرنا چاہوں گا کہ ہم دنیا بھر کے 195ممالک میں پہلے نمبر آچکے ہیں۔ یہ نمبر بے شک گندگی ،آلودگی اور جہالت کی شکل میں ہی ملا ہو لیکن ہیں
ہم پہلے نمبر پر۔ملک کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور کے بعد ملتان دوسرے، اسلام آباد تیسرے، پشاور چوتھے، راولپنڈی پانچویں، ہری پور چھٹے اور کراچی ساتویں نمبر پر ہے۔ بلا شبہ ہم نے یہ درجہ بندی بڑی محنت اور مشقت سے حاصل کی ہے ۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارا میڈیا ،ہمارے ادارے اور ہماری سرکار دنیا میں یہ نمایا ںمقام حاصل کرنے پر خوشی نہیں منا رہے اور نہ ہی اس حوالہ سے لوگوں کو بتایا جارہا ہے جبکہ فضول سی بحثوں میں صبح سے شام تک لوگوں کو الجھایاہوا ہے۔ کبھی گنڈا پور کے بیان پر تیر اندازی کے لیے حکومت کی پوری ٹیم مصروف ہوجاتی ہے تو کبھی پکڑ دھکڑ میں سارے ادارے مصروف ہوجاتے ہیں اور کچھ نہ ملے تو پھر قیدی نمبر804 کی کردار کشی میں سب کچھ جھونک دیا جاتا ہے۔ اب دنیا تبدیل ہوچکی ہے اور پاکستان میں بھی لوگوں کے ذہن بریانی کی پلیٹوں سے باہر نکل رہے ہیں۔ شائد اسی لیے پنجاب کے وزیر تعلیم کے سوال کہ 76 سال ہوگئے 4 لاکھ اساتذہ ہیں لیکن تعلیم نہیں کے جواب میں پوچھا گیا ہے کہ 76 سال ہوگئے ہیںسیاستدان ہیں لیکن جمہوریت نہیںبیوروکریسی ہے لیکن مینجمنٹ نہیں،پولیس ہے لیکن امن نہیں،ہسپتال ہیں لیکن علاج نہیں، ادارے ہیں لیکن سیکورٹی نہیں۔عدالتیں ہیں لیکن انصاف نہیں۔اس وقت پاکستانی عدالتوں میں تقریباً دو ملین کیسز زیر التوا ہیں۔صرف پنجاب کی عدالتوں میں 1.4 ملین کیسز زیر التوا ہیں۔ قابل احترام وزیر صاحب اگر واقعی ہی آپ انقلابی ہیں اور آپ میں اتنی اخلاقی جرات ہے توپھر کھل کر یہ بھی بتا دیں کہ آپ نے جو الیکشن لڑا ہے وہ قانون کے مطابق لڑا ہے۔ جتنا خرچہ الیکشن کمیشن نے لکھا تھا آپ نے اس سے بڑھ کر ایک پائی بھی خرچ نہیں کی کیا فارم 47والے حکومت کرنے کے اہل ہیں اور یہ بھی بتا دیں کہ کیا واقعی ملک میں جمہوریت کا راج ہے اوریہ بھی بتا دیں کہ گزرے ہوئے 76 سال میں میرٹ پر ترقیاں اور تعیناتیاں ہوئی ہیں اور اگر یہ بھی بتادینگے تو احسان ہوگا کہ جو جو وزیربنائے گئے ہیں انکے سفارشی کون ہیں اورکیا وہ ان اداروںکے میرٹ پر پورا اترتے ہیں جہاں انہیں لگایا گیا ہے اور یہ بھی بتادیں کہ ایک استاد کوایک ہی ا سکیل میں پڑھاتے ہوئے ریٹائر ہونا پڑتا ہے اور اس کی ترقی کیوں نہیں ہوتی اور دوسرے اداروں میں بیٹھے ہوئے دن دگنی اور رات چوگنی ترقیاں کرتے رہتے ہیں۔
کیا ہم اتنے ہی محسن کش،بے وفا اور دوسروں میں کیڑے نکالنے والے بن چکے ہیں کہ ہمیں اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا ۔جبکہ دوسروں کی آنکھ کا تنکا ہم ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ اساتذہ اپنے حق کے لیے سڑکوں پر آئیں تو آپ انہیں مار مار کر سبق سکھانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں نوکریوں سے فارغ کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں اور پولیس کے غنڈوں کے ذریعے انہیں تھانوں میں بند کرادیتے ہیں۔ اگر76سالوں میں آپ نے صرف اساتذہ کا حق دیا ہوتا تو آج پوری قوم آپ کو کھل کر بتا رہی ہوتی کہ آپ لوگوں نے 76سالوں میں کیا کیا۔ آپ نے صرف لوگوں کے حقوق غضب کیے ۔انہیں جاہل رکھا اور ایک پلیٹ بریانی کے لیے انہیں مجبور بنا دیا۔ شائد اسی لیے آج ہم ہر برے کام میں دنیا کے پہلے اور ہر اچھے کام میں آخری نمبروں پر ہیں اور یہ باتیں آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر