... loading ...
سمیع اللہ ملک
رات کے گھپ اندھیرے میں مسجدِ اقصیٰ کے سنہرے گنبدکو13اپریل2024کاوہ منظرضروریادہوگاجب اس کے اوپرسے گزرتاہوا ایرانی بیلسٹک میزائل اورڈرون پہلی بار اسرائیل اوراس کے اتحادیوں کے مشہوردفاعی نظام”آئرن ڈروم”یعنی آہنی دیوارسے بچتے ہوئے اسرائیلی فضائی اڈے اورمختلف مقامات پراپنی دسترس کی گواہی چھوڑآئے۔اسرائیلی کی درندگی کے جواب میں 6 ماہ بعد یکم اکتوبر 2024 کو ایک بارپھریہ کہہ کرحملہ دہرایاگیاکہ ہم نے اسماعیل ہانیہ اورحسن نصراللہ کی شہادتوں کے جواب میں اپناوعدہ پورا کر دیا ہے تاہم اس مرتبہ ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے زیادہ بڑی تعدادمیں اسرائیل اہداف کونشانہ بناتے ہوئے اسے ہلکی جھلک قراردیتے ہوئے متنبہ بھی کیاکہ آئندہ حملوں کے جواب میں غیرروایتی جواب دیاجائے گا۔
سٹمسن انسٹیٹیوٹ کے محقق اورنیٹوکے آرمزکنٹرول پروگرام کے سابق ڈائریکٹر کے مطابق”ایران کے حالیہ حملے نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال کوہمیشہ کیلئے بدل کررکھ دیاہے۔واضح رہے کہ اس حملے کی بنیاد فراہم کرنے والاایرانی میزائل پروگرام گزشتہ کئی دہائیوں میں حیران کن رفتارسے اپنے اہداف کونشانہ بنانے کی بھرپورصلاحیت کے ساتھ ترقی کرتا ہوااس قدقابلِ بھروسہ ہوگیاہے کہ اب اس کیلئے ”پوائنٹر” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس کی وجہ سے مغربی دنیااسے خوفناک حدتک سنجیدہ لیتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ کے دیگر اتحادیوں کیلئے بھی شدید خطرہ قراردے رہی ہے۔خطے میں اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی جارحیت کوعالمی منظرنامے سے محوکرنے کیلئے اب سارا رخ ایرانی بیلیسٹک میزائلوں سے درپیش خطرات کی طرف موڑدیاگیاہے کہ آخر اس قدرشدیدترین عالمی پابندیوں کے باوجودایران نے اس قدرجدیدمیزائل پروگرام کا سفرکیسے طے کرلیااوراس وقت ایران کے پاس کس قسم کے اورکتنے فاصلے تک مارکرنے والے میزائل ہیں۔
امریکی ادارے پیس انسٹیٹیوٹ کے مطابق مشرق وسطی میں ایران کے پاس سب سے بڑا اورمتنوع بیلسٹک میزائلوں کا ذخیرہ موجود ہے اورایران خطے کاواحدملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیارتونہیں لیکن اس کے بیلسٹک میزائل دوہزارکلومیٹرکے فاصلے تک پہنچ سکتے ہیں۔ بیلسٹک ٹیکنالوجی تودوسری عالمی جنگ کے وقت بن چکی تھی،تاہم دنیامیں صرف چند ہی ممالک کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ خود اس ٹیکنالوجی کی مددسے بیلسٹک میزائل بنا سکیں۔جبکہ2006میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک قراردارمنظورکی جس کے تحت کسی بھی قسم کی جوہری ٹیکنالوجی یاموادکی ایران کو فروخت پرپابندی عائدکر دی۔اس میں ایساسامان بھی شامل تھا جسے کسی اور مقصد کے ساتھ ساتھ عسکری مقاصد کیلئے بھی استعمال کیاجاسکتاہے۔
تین ہی ماہ بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک اورقراردادمیں ایران سے روایتی ہتھیاروں یااسلحہ کی لین دین پربھی مکمل پابندی لگا دی جس میں عسکری ٹیکنالوجی بھی شامل تھی۔ اس قرارداد کے تحت لگنے والی پابندیوں کی زدمیں ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ بیلسٹک میزائل پروگرام بھی آ گیا۔ایسے میں ایران کیلئے روس اور چین جیسے ممالک سے بھی اسلحہ خریدنا ممکن نہ رہا جن سے وہ عراق جنگ کے وقت سے سامان خریدرہاتھا۔ تاہم ایرانی رہبراعلی خامہ ای نے حال اپنے ایک خطاب میں واضح کر دیاکہ جس عسکری اور میزائل پروگرام سے مغرب پریشان ہے،وہ سب پابندیوں کے دوران بنا۔ ایران نے گزشتہ دودہائیوں کے دوران شدید نوعیت کی بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود یہ ٹیکنالوجی حاصل بھی کی اور بیلسٹک میزائل تیار بھی کیے۔
بیلسٹک میزائل جوہری وارہیڈلے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اورمغربی ممالک کے مطابق چونکہ ایران نے بیلسٹک ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے۔ اس لیے وہ جوہری توانائی کے حصول اورجوہری ہتھیاربنانے کیلئے ضروری سطح تک یورینیم کوافزودہ کرنے کی کوئی کوشش ترک نہیں کرے گا۔جولائی2015میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان مشترکہ جامع پلان آف ایکشن معاہدے کے اختتام اور پھر قرارداد 2231کی منظوری کے بعد،ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تمام پابندیاں ہٹادی گئیں لیکن ”ٹرگر سنیپ بیک میکانزم” کے نام سے جانی جانے والی شق نے ہتھیاروں کی پابندیوں کوبرقراررکھاجس کے تحت خاص طور پرپانچ سال تک ایران کے میزائل پروگرام کی نگرانی ہونی تھی۔یہ ایران پردباؤڈالنے اوراس کے میزائل پروگرام کوکنٹرول کرنے کا ایک حربہ تھا۔
تاہم ایران نے اپنا میزائل پروگرام اس حدتک بڑھایاکہ مارچ2016میں امریکا،برطانیہ،فرانس اورجرمنی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوایک مشترکہ خط لکھتے ہوئے ایران پرمیزائل تجربات کرنے کاالزام لگایاکہ اس نے”جے سی پی اواے”معاہدے کے بعد سلامتی کونسل کی قرارداد2231کی خلاف ورزی کی ہے۔بالآخر2020میں ٹرمپ نے ایران کے میزائل پروگرام کے خطرے سے نمٹنے اور اس پروگرام کامعائنہ اورتصدیق کرنے کیلئے درکار طریق کار کی کمی کاالزام لگاکراس معاہدے سے دستبرداری کااعلان کردیا۔اگرچہ ایران نے یہ ظاہرکرنے کی کوشش کی کہ وہ مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کاحصہ ہے لیکن قرارداد2231میں طے شدہ ڈیڈلائن کے خاتمے کے ساتھ ہی،روحانی حکومت نے اکتوبر2021میں روس اورچین سے ہتھیاروں کی خریداری کیلئے اشتہارات دیے لیکن عالمی پابندیوں کی بناپرایران اب تک اپنی ان کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ایران اس وقت 50 سے زیادہ قسم کے راکٹ،بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے ساتھ ساتھ عسکری ڈرونزتیارکرتاہے،جن میں سے کچھ روس اوریوکرین کی جنگ جیسے عالمی تنازعات میں استعمال بھی ہوئے ہیں۔
ایران، عراق جنگ کے دوران ایران کے توپ خانے کی مارکرنے کی حد35کلومیٹرتھی جبکہ عراقی فوج کے پاس300کلومیٹرتک مار کرنے والے”سکِڈبی”بیلسٹک میزائل تھے، جوایران کے اندرمختلف شہروں کونشانہ بناتے تھے۔جب عراقی فوج نے میزائل حملوں کی بنیاد پر برتری حاصل کی توایران نے بھی میزائل استعمال کرنے کاسوچااوراس وقت روح اللہ خمینی نے عراق کے میزائل حملوں کامقابلہ کرنے کی اجازت دی۔نومبر1984میں حسن تہرانی مقدم کی سربراہی میںپاسدرانِ انقلاب کی ایرو سپیس فورس کے کمانڈرامیرعلی حاجی زادہ، میزائل یونٹ کی تشکیل کے ذمہ داربنے اورمیزائل سرگرمیوں کیلئے ایران کے مغرب میں واقع شہر کرمان میں پہلااڈہ تیارکرتے ہوئے میزائل کمانڈکاآغازکیاگیا۔ 1985 میں پہلی بارلیبیاسے روسی ساختہ”اسکڈبی”میزائل خریدے اور30میزائلوں کی کھیپ کے ساتھ ہی لیبیاکے تکنیکی مددسے میزائل آپریشن ان کی مددسے ہی سرانجام پایا۔
عراق پر ایران کی جانب سے پہلامیزائل حملہ21مارچ1985کوہواجس میں کرکوک شہرکونشانہ بنایاگیا۔دودن بعد،دوسراایرانی حملہ بغداد میں عراقی آرمی آفیسرزکلب پرکیا گیا جس میں تقریبا200عراقی کمانڈرمارے گئے۔ایران کے اِن میزائل حملوں کے بعد عرب ممالک کی جانب سے لیبیاسے شدیداحتجاج کیاگیاجس کے نتیجے میں لیبیاکے مشیروں نے ایران چھوڑدیااورجانے سے پہلے میزائلوںاورلانچنگ سسٹم کوناکارہ بھی کردیا۔اس صدمے کے بعدایرانی فضائیہ کے ارکان کے ایک گروپ نے خودان میزائلوں کی آزمائش کاسلسلہ شروع کردیا۔آئی آرجی سی کے ارکان کے اس چھوٹے سے گروپ نے راکٹوں اورلانچروں کے پرزے کھول کران کی ریورس انجینئرنگ شروع کی۔
حسن تہرانی مقدم،جنہیںاسلامی جمہوریہ ایران کے میزائل پروگرام کاباپ کہاجاتاہے،”زیروٹوون ہنڈرڈمیزائل پروگرام”نامی دستاویزی فلم میں دکھایاگیاکہ ایران سے لیبیاکے مشیروں کی روانگی کے بعد پاسداران انقلاب کے13ارکان کوسکڈبیلسٹک میزائلوں پر کام کی تربیت کیلئے شام بھیجاگیااورایک محدود وقت کے اندرانہوں نے سکڈمیزائل کے کام کوسمجھ لیا۔1986میں مقدم کوایرانی فضائیہ کا میزائل کمانڈرمقررکیاگیااورپھر1988کے بعدسے ایرانی پاسدارانِ انقلاب کورنے سنجیدگی سے میزائل بنانے کی کوشش شروع کردی۔
سٹمسن انسٹیٹیوٹ میں عالمی سلامتی اوراس سے منسلک ٹیکنالوجیز کے محقق اورنیٹوکے اسلحہ کنٹرول پروگرام کے سابق ڈائریکٹر ولیم البرک کے مطابق”ان برسوں میں چین اورشمالی کوریانے بھی ایران کے ساتھ وسیع پیمانے پرمیزائلوں کے حوالے سے تعاون کیا تھااوربعدمیں ایران کواپنے میزائل پروگرام کوبڑھانے کیلئے روس کاتعاون بھی حاصل ہوگیا۔اس حقیقت کونظراندازنہیں کیاجاسکتاکہ ایران ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بہت ترقی یافتہ ملک ہے اوراس نے ریورس انجینئرنگ کرکے ان میزائلوں کے پرزوں کوالگ کرنے اوراسے دوبارہ ترتیب دینے کاطریقہ سیکھنے کے حوالے سے کافی مؤثرتحقیق کی ہے۔1980کی دہائی میں شمالی کوریااوربعدمیں چین ایران کے میزائل پروگرام کی مددکوآئے۔کچھ عالمی طاقتوں نے چین کو”میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم”کارکن بنانے کی کوشش کی،جوکہ میزائلوں کی پیداوار،ترقی اورٹیکنالوجی کومحدودکرنے کیلئے35رکن ممالک کے درمیان ایک غیررسمی سیاسی مفاہمت ہے۔چین اس معاہدے کاحصہ بننے پرتوراضی نہ ہو الیکن اس نے معاہدے کی شرائط پرکاربندرہنے کاعہدضرورکیا۔
”نازعات”اور”مجتمع”راکٹ ایران میں بنائے گئے راکٹوں کی پہلی نسل تھے،اوراس کے فورابعد”تھنڈر-6”میزائل سامنے آیاجوبنیادی طورپرمختصرفاصلے تک مارکرنے والا چینیB610 بیلسٹک میزائل ہے،جسے ایرانی مسلح افواج نئے سرے سے ڈیزائن کرلیاہے۔ایران کے میزائل پروگرام کی ترقی،پاسداران انقلاب کے ایروسپیس میزائل یونٹ میں حسن تہرانی مقدم کی نگرانی میں اوراس وقت آئی آرجی سی ایئرفورس کے کمانڈراحمدکاظمی کی مددسے2000کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوئی تھی تاکہ مزیدجدید ٹیکنالوجیزجیسے بیلسٹکس اورسیٹلائٹ انجن کی تعمیرمیں کامیابی حاصل کی جاسکے۔ تاہم ایران کے میزائل پروگرام کے دوسرے اور سنجیدہ مرحلے کاآغاز”فتح 110میزائل” کی تیاری سے ہوا۔ ایران کے میزائل پروگرام کی ترقی میں حسن مقدم سب سے اہم شخصیت تھے۔2009میں انہوں نے ایک پروگرام کے دوران پہلی بار ”ایکسٹراہیوی سیٹلائٹ انجن ”سیریزکا تجربہ کیا۔ایرانی اہم ذرائع کے مطابق12نومبر2011کوفوجی اڈے پرتخریب کاری کے نتیجے میں ہونے والے دہماکے میں 16/افرادسمیت حسن تہرانی مقدم اس وقت مارے گئے جب وہ ایک نئے میزائل تجربے کی تیاری کررہے تھے۔دھماکے کی اصل وجہ کا کبھی تعین نہیں ہوسکالیکن حسن مقدم ہی تھے جن کی قبرپرلکھاگیاتھاکہ”یہاں وہ شخص دفن ہے جو اسرائیل کوتباہ کرناچاہتاتھا”۔اس وقت امیرعلی حاجی زادہ کی سربراہی میں پاسداران انقلاب کی ایروسپیس فورس،ایران کی مسلح افواج کیلئے میزائل اورڈرونز بنانے والاسب سے بڑاادارہ ہے اورگزشتہ برسوں میں،یہ دراصل ایرانی فوج کی جگہ اسلامی جمہوریہ کی بیرون ملک کارروائیوں کی ذمہ داررہی ہے۔
ایران ہمیشہ اپنے میزائلوں کی نمائش کرتاہے اورانہیں فوجی ہتھیاروں کی تیاری کے میدان میں ایک اہم کامیابی کے طورپرپیش کرتاہے تاہم اس کے میزائل پروگرام اور میزائل اڈوں کی ترقی اوران پرہونے والی پیشرفت اب تک کوئی نہیں جان سکا۔پاسدارانِ انقلاب کے مطابق ان کے پاس سنگلاخ پہاڑوں میں سرنگوں کی شکل میں خصوصی انجینئرنگ اورڈرلنگ کے ساتھ بنائے گئے کئی میزائل اڈے ہیں۔پہلی مرتبہ2004 میں آئی آرجی سی فضائیہ کے کمانڈرامیر علی حاجی زادہ نے ایسے میزائل اڈوں کے بارے میں بات کی تھی جو ایران کے مختلف صوبوں میں زمین سے 500 میٹرنیچے تک کی گہرائی میں بنائے گئے ہیں۔اِن زیرِزمین میزائل اڈوں کی تعمیر کب ہوئی اس بارے میں باوثوق معلومات دستیاب نہیں ہیں لیکن مہدی بختیاری نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ مغربی ایران میں 1984 میں میزائل پروگرام کے آغازمیں پہلازیرِ زمین اڈہ بنالیاگیاتھا۔ایرانی میڈیا اور پاسدارانِ انقلاب نے اب تک کئی زیرزمین میزائل اڈوں کی مختلف تصاویرشائع کی ہیں ،جنہیں وہ”میزائل سٹی”کہتے ہیں۔ان میزائل اڈوں کاصحیح مقام معلوم نہیں اورنہ ہی سرکاری طورپراس کے بارے میں کوئی اطلاعات فراہم کی جاتی ہیں۔ان خفیہ زیرزمین اڈوں کی شائع ہونے والی تصاویرکے مطابق ان میں سے ایک میں، جو دیگر اڈوں سے بڑامعلوم ہوتاہے،پاسدارانِ انقلاب کے سب سے اہم میزائل اورڈرون ہتھیاررکھے گئے ہیں اورساتھ ہی میزائلوں کی تیاری اورانہیں داغنے کی جگہ(لانچرز)ہے۔جاری کی گئی ویڈیوزمیں سے ایک میں میزائل اوران کے لانچروں سے بھری راہداری دکھائی گئی ہے اورساتھ ہی وہ جگہ بھی جہاں میزائل فائر کیے جانے کیلئے تیاررہتے ہیں۔
مارچ 2019میں پاسدارانِ انقلاب نے خلیج فارس کے ساحل پرایک”سمندری میزائل شہر”کی نقاب کشائی کی۔اس اڈے کے اصل مقام کو ماضی کی طرح ظاہرنہیں کیا گیالیکن صوبہ ہرمزگان کے مقامی میڈیانے اس اڈے کے بارے میں خبریں دیں۔سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈرانچیف حسین سلامی نے خلیج فارس کے ساحلوں پراس ”میرین میزائل سٹی”کے بارے میں کہاتھاکہ”یہ کمپلیکس پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ کی سٹریٹجک میزائلوں کے ذخیرہ کرنے کی متعدد تنصیبات میں سے ایک ہے،جہاں میزائل اور لانچر سسٹم نصب ہیں”۔
ایران کے زیرزمین میزائل اڈوں کی صحیح تعدادمعلوم نہیں ہے لیکن ایران کی زمینی افواج کے کمانڈر،احمدرضاپوردستان نے جنوری 2014میں اعلان کیاتھاکہ میزائلوں والے زیرِ زمین شہرصرف پاسداران انقلاب کیلئے مخصوص نہیں ہیں اورایرانی فوج بھی ان میں سے کئی کی مالک ہے۔امیرعلی حاجی زادہ،آئی آرجی سی کی جانب سیایران میں میزائل بنانے والے تین زیرزمین کارخانوں کی موجودگی موجودگی کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ ایران کی مسلح افواج،خاص طورپرپاسدارانِ انقلاب کی ایروسپیس فورس،راکٹ،کروزاوربیلیسٹک میزائلوں کی ایک وسیع رینج تیار کرتی ہے۔
بیلسٹک میزائل ایران میں تیارکیے جانے والے میزائلوں کی سب سے اہم قسم ہے۔بیلسٹک میزائل اونچائی پراورایک قوس میں پرواز کرتا ہے۔اس کی فائرنگ کے تین مراحل ہوتے ہیں،دوسرے مرحلے میں اس کی رفتارتقریبا24ہزارکلومیٹرفی گھنٹہ تک ہوجاتی ہے۔ طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل داغے جانے کے بعدزمین کی فضاسے باہرنکل جاتے ہیں اورفضامیں دوبارہ داخل ہونے پر آواز کی رفتارسے زیادہ تیزرفتارتک پہنچ جاتے ہیں۔کروزمیزائل مکمل طورپرگائیڈڈہوتے ہیں اورکم اونچائی پرپروازکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ریڈارکامقابلہ کرنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔کروزمیزائل کی رفتار800کلومیٹرفی گھنٹہ سے شروع ہوتی ہے۔ایران کے پاس چاراقسام کے میزائل ہیں۔راکٹ،کروزمیزائل،بیلیسٹک میزائل اورہائپرسونک میزائل۔ایرانی ساختہ میزائلوں کے ان چار گروپوں میں بنیادی طورپرسطح سے سطح اورسطح سے سمندرمیں مارکرنے والے میزائل شامل ہیں۔البتہ دفاعی نظام کے میزائل بھی ایران کے ہتھیاروں میں شامل ہیں جن میں سے کچھ روس اورچین کے بنائے ہوئے ہیں اورکچھ ایرانی مسلح افواج کی اپنی ایجادہیں۔
اپریل2024میں اسرائیل پراپنے میزائل حملے میں ایران نے”عمادتھری”بیلسٹک میزائل”پاوہ”کروزمیزائل اور ”شاہد136” ڈرون کا استعمال کیاتھاتاہم ایران کی سرکاری خبرایجنسی نے”خیبرشِکن”بیلسٹک میزائل داغنے کابھی دعویٰ کیاتھا۔عماد میزائل القدر بیلسٹک میزائل کی بہترشکل ہے۔2015میں درمیانے فاصلے1700کلومیٹرتک مارکرنے والے عماد بیلسٹک میزائل کی لمبائی15میٹرہے اور اس کے وارہیڈ کاوزن 750کلوگرام ہے۔پاوہ میزائل کی فروری2023میں نقاب کشائی ہوئی جس کی رینج1650کلومیٹر ہے اور کہا جاتاہے کہ یہ میزائلوں کی ایک نسل ہے جوہدف تک پہنچنے کیلئے مختلف راستے اختیارکرسکتاہے۔پاوہ میزائل گروپ میں حملہ کرنے اورحملے کے دوران ایک دوسرے سے رابطے کی صلاحیت رکھتاہے اورایران نے دعویٰ کیاتھاکہ یہ میزائل اسرائیل تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، شاید اسی وجہ سے اسے اسرائیل پرحملے کیلئے چناگیاتھااور جو13اپریل کوہونے والے حملے میں ثابت بھی ہوا۔
ایران کے پاس اس وقت میزائلوں کی زیادہ سے زیادہ مؤثررینج دوسے ڈھائی ہزارکلومیٹرکے درمیان ہے اوروہ فی الحال یورپی ممالک کونشانہ بنانے کے قابل نہیں ہے۔ایران کی مسلح افواج نے دعویٰ کیاہے کہ ایساعلی خامنہ ای کی ہدایت پرہے کہ فی الحال ایرانی میزائلوں کی رینج دوہزارکلومیٹرسے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔اس ہدایت کے بعدطویل فاصلے تک مارکرنے والے میزائلوں کی تیاری کا سلسلہ روک دیاگیاہے۔آیت اللہ خامنہ ای کے مطابق اس فیصلے کی وجہ بیان نہیں کی۔
”ذوالفقار”ایک اورمختصرفاصلے700کلومیٹرتک مارکرنے والابیلسٹک میزائل ہے جسے2017اور2018میں داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کیلئے استعمال کیاگیاتھا۔اس میزائل کی لمبائی10میٹرہے،اس میں ایک موبائل لانچ پلیٹ فارم ہے اوراس کے ریڈارپرنظرنہ آنے کی صلاحیت سے لیس ہونے کادعویٰ کیاجاتاہے۔ایک اور”ذوالفقار10” میزائل کی بہترشکل ہے اوراس کے وار ہیڈ کا وزن 450 کلو بتایاجاتاہے۔
عالمی سلامتی کے ماہرولیم ایلبرک کے مطابق ایران کے پاس میزائلوں کی تیاری کی بہت اچھی صلاحیت ہے اورایران کے میزائل پروگرام کی ترقی دوسرے ممالک سے میزائلوں کوادھارلینے اوران کی نقل بنانے سے ہوئی ہے:وہ مائع ایندھن سے ٹھوس ایندھن والے
راکٹوں اورمیزائلوں کی جانب بڑھے ہیں۔میزائلوں کی درست طریقے سے ہدف کونشانہ بنانے کی صلاحیت میں ڈرامائی طورپراضافہ ہوا
ہے، اس لیے ایران نے اس معاملے میں بہت ترقی کی ہے اوراس وقت اس کاپروگرام مختصراوردرمیانے فاصلے تک مارکرنے والے بیلسٹک اور کروزمیزائلوں کیلئے جدیدترین میزائل پروگراموں میں سے ایک ہے۔حالیہ برسوں میں ایران اور روس کے درمیان قریبی فوجی تعاون سے ایران کوروسیوں سے سیکھنے کا موقع ملاہے اوراس تعاون کے بدلے میں ایران کومزیدجدیدمیزائلوں کے ڈیزائن،ٹیکنالوجی اور صلاحیتیں حاصل ہوئی ہیں۔لیکن ایران نے دعویٰ کیاہے کہ اس کے میزائلوں کی نئی نسل ہائپرسونک ہتھیاروں کی نسل سے ہے۔ہائپرسونک سے مرادوہ ہتھیارہیں جن کی رفتارعام طورپرآوازکی رفتارسے پانچ سے پچیس گنا تک ہوتی ہے۔ایران نے پہلی بار”فتح”میزائل کوبیلسٹک اور کروزدونوں زمروں میں ہائپرسونک میزائل کے طورپرمتعارف کرایا۔”الفتح”کے ہائپرسونک میزائل کی رینج 1400کلومیٹرہے اورآئی آر جی سی نے دعوی کیاہے کہ وہ میزائل کوتباہ کرنے والے تمام دفاعی نظاموں کوچکمہ دے کرانہیں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ”الفتح” ٹھوس ایندھن کے میزائلوں کی ایک نسل ہے جس کی رفتارہدف کونشانہ بنانے سے پہلے13سے15میک تک ہے۔ میک 15 کا مطلب پانچ کلومیٹرفی سیکنڈکی رفتارہے۔
پاسدارانِ انقلاب ایرو سپیس آرگنائزیشن کے کمانڈرامیرعلی حاجی زادہ نے الفتح میزائل کی نقاب کشائی کی تقریب میں کہا تھا کہ یہ میزائل تیزرفتاراورفضاکے اندراورباہرجاسکتاہے ۔ساتھ ہی حاجی زادہ نے یہ دعویٰ بھی کیاتھاکہ”فتح کوکسی میزائل سے تباہ نہیں کیا جا سکتا”۔ الفتح بیلسٹک میزائل کی نقاب کشائی کے بعد تہران کے فسلطین سکوائرمیں اسرائیل کودھمکی دینے کیلئے ایک اشتہارنصب کیا گیاجس پر ”400سیکنڈزمیں تل ابیب”تحریرتھا۔اس ہائپرسونک میزائل بنانے کی دہمکی کے جواب میں اسرائیل کے وزیردفاع یووگیلنٹ نے کہا
”ہمارے دشمن اپنے بنائے ہوئے ہتھیاروں پرشیخی بگھاررہے ہیں۔ہمارے پاس کسی بھی ٹیکنالوجی کابہترجواب ہے،چاہے وہ زمین پرہو،ہوامیں ہویاسمندرمیں”۔
الفتح-1کی نقاب کشائی کے چارماہ بعدپاسدارانِ انقلاب نے1500کلومیٹرتک مارکرنے والے الفتح-2کی نقاب کشائی کی جو بہت کم اونچائی پرپروازکرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اورپروازکے دوران کئی باراپناراستہ بھی بدل سکتاہے۔اس میزائل کی نقاب کشائی علی خامنہ ای کے آئی آر جی سی سے وابستہ ایروسپیس سائنسز اینڈ ٹیکنالوجیز کی عاشورہ یونیورسٹی کے دورہ پرکی گئی تاہم اس میزائل کی رینج کے بارے میں کوئی معلومات شائع نہیں کی گئیں۔اگرچہ ایران نے فتح میزائل کواسرائیل کے خلاف خطرے کے طورپرمتعارف کروایاتھا لیکن اس نے13اپریل اورپھریکم اکتوبرکے حملے میں ان میزائلوں کااستعمال نہیں کیا تھا۔گزشتہ دہائی میں ایران مختلف وجوہات کی بناپرعلاقائی تنازعات میں شامل ہواہے ،اس نے اپنی سرزمین سے مخالف گروہوں، جماعتوں اورممالک کے خلاف سرحدپار کاروائیاں کی ہیں۔ایران کی تمام بیرون ملک کارروائیاں پاسدارانِ انقلاب کی فضائیہ نے کی ہیں اورپاسداران کے اس شعبے نے ایران کی فوج کی جگہ تنازعات میں شمولیت اورردِعمل کی ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں۔اگرچہ پاسداران انقلاب کی بیرون ملک شاخ قدس فورس کی افواج ایران،عراق جنگ کے خاتمے کے بعدافغانستان سے لے کربوسنیااور ہرزیگوینا ، عراق،شام، لبنان وغیرہ میں موجودتھیں لیکن اسے ایران کی سرکاری طور پرموجودگی یاردعمل نہیں سمجھاگیا۔ایران،عراق جنگ کے خاتمے کے بعدایران کی سرزمین سے دوسرے ملک پرپہلا حملہ شام کے شہر دیرالزورمیں داعش کے خلاف ہوا۔یہ آپریشن جسے”لیلتہ القدر”کانام دیاگیاتھا،اسلامی کونسل پرداعش کے حملے کے جواب میں کیا گیا تھا۔ اس میں کرمان شاہ اور کردستان سے داعش کے ہیڈکوارٹرپردرمیانے فاصلے تک مارکرنے والے چھ ذوالفقاراورقیام بیلسٹک میزائل داغے گئے تھے۔پھرعراق کے کردستان ریجن میں واقع کوئسنجق میں کردستان ڈیموکریٹک پارٹی آف ایران کے ہیڈکوارٹرکوسات الفتح -110میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔ایک بیان میں پاسدارانِ انقلاب نے اعلان کیاکہ یہ جولائی2017میں ماریوان میں سیدالشہدا حمزہ بیس پرحملے کابدلہ تھا۔
نواکتوبر2017کوایران کے پاسدارانِ انقلاب نے اہوازمیں مسلح افواج کی پریڈپرحملے کاجواب دیتے ہوئے”محرم کاحملہ”نامی آپریشن میں شام میں چھ قیام اورذوالفقار میزائلوں کے علاوہ سات جنگی ڈرونزکی مدد سے دریائے فرات کے کنارے داعش کے ٹھکانوں کو تباہ کردیا۔18جنوری2018کوعراق میں امریکاکے ہاتھوں قدس فورس کے کمانڈرقاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں پاسداران انقلاب کی فضائیہ نے13فتح-313اورقیام-2بیلسٹک میزائل عراق میں امریکی فوج کے سب سے بڑے اڈے عین الاسد پر داغے۔ اس کے علاوہ عراق کے کردستان خطے کے دارالحکومت اربیل میں ایک اڈے پربھی حملہ کیاگیا۔قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعدہمسایہ ممالک پرایران کے میزائل حملوں کی شدت میں اضافہ دیکھاگیا۔پھرمارچ2002میں اسلامی انقلاب گارڈنیبزکریم بزنجی کے ملکیتی مکان پر12فاتح،110بیلسٹک میزائل فائرکیے جس کے بارے میں ایران کادعوی تھاکہ یہ کردستان کے علاقے میں اسرائیل کے ”اسٹریٹیجک مراکز”میں سے ایک تھا۔
اگلے برس پاسداران انقلاب کی فضائیہ نے”ربیع””اور”ربیع 2”نامی کارروائیوں میں عراقی کردستان میں ایرانی کردپارٹیوں کے ہیڈ کوارٹر پرفتح 360میزائلوں سے حملہ کیا۔ جنوری2004میں آئی آرجی سی نے ایک بارپھرعراقی تاجرکے مکان پرحملہ کیاجسے اس نے موسادکاہیڈکوارٹرقراردیاتھااورساتھ ہی ادلب میں داعش اورحزب الترکستانی کے اڈوں پربھی حملہ کیا گیا تھا۔ 16 جنوری 2024 کو اسلامی انقلابی گارڈکی فضائیہ نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ایک سرحدی گاؤں ”سبزکوہ””کے رہائشی علاقے میں جیش العدل گروپ کے مرکزپرمیزائل سے حملہ کیاجس کے اگلے ہی دن پاکستان نے ایران کے صوبہ سیستان اوربلوچستان میں کئی مقامات پرمیزائل داغے۔ یہ پہلاموقع تھاجب کسی ملک نے ایران کے میزائل حملوں پربراہ راست ردِعمل ظاہرکیاتھا۔اس تناؤ کوکم کرنے کیلئے تیز ترکوششوں کے نتیجے میں ایرانی وزیرخارجہ نے پاکستان کادورہ کیااوربعدازاں ایرانی صدرکے پاکستانی دورہ نے حالات کومعمول پرلانے میں کافی مدد کی۔دمشق میں ایران کے قونصل خانے کی عمارت پراسرائیلی میزائل حملے میں ایرانی جرنیل محمدرضازاہدی اورآئی آرجی سی کے چھ دیگر افسران کی ہلاکت کے بعدایران نے”وحد الصادق ”نامی آپریشن کے دوران سینکڑوں ڈرونز،کروزاوربیلسٹک میزائلوں سے اسرائیل میں مختلف مقامات پرحملہ کیا۔ایران نے دعویٰ کیاکہ اس حملے میں گولان کی پہاڑیوں میں نوواتیم فضائی اڈے اورسیری ہرمون بیس کونشانہ بنایا گیا۔
عالمی سلامتی کے ایک محقق ولیم ایلبرک کے مطابق اسرائیل پرایرانی میزائل حملے میں ہدف کونشانہ بنانے اوردرست ہدف تک پہنچنے میں ایرانی میزائلوں کی صلاحیت میں کمی کسی حد تک نظرآئی لیکن ایران نے اس حملے سے اسرائیل کی دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں بلکہ ایرانی میزائلوں کوپسپاکرنے کیلئے اسرائیل کے ساتھ شامل دیگرممالک کے بارے میں بھی بہت کچھ جان لیا۔انقلابِ ایران سے پہلے ایران کاسب سے بڑااتحادی امریکاتھااورزیادہ ترفوجی ہتھیار،جن میں بنیادی طورپرلڑاکاطیارے شامل تھے، امریکاسے خریدے گئے تھے۔ایران نے 160 ایف فائیولڑاکا طیارے خریدے جوان ممالک کیلئے سستے لڑاکاطیارے کے طورپربنائے گئے تھے جومہنگے لڑاکا طیارے نہیں خریدسکتے تھے۔پہلوی دورحکومت میں ایران کیلئے میکڈونل ڈگلس ایف فورجنگی طیاروں کی ایک بڑی تعداد بھی خریدی گئی تھی جو آج بھی فضائی بیڑے میں موجودہیں۔پھرشاہ ایران نے انہیں ایک نئے لڑاکا طیارے سے تبدیل کرنے کافیصلہ کیا اور 60 ایف 16 ٹام کیٹ طیارے خریدے گئے۔اس وقت ایران مشرقِ وسطی میں سب سے زیادہ جنگی طیارے رکھنے والے ممالک میں سے ایک تھا۔
اسلامی انقلاب کے بعد تہران میں سفارت خانے پرحملے اورقبضے کی وجہ سے ایران اورامریکاکے تعلقات ہمیشہ کیلئے منقطع ہو گئے۔ اسلحے کی پابندی سمیت مختلف امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ایران کونشانہ بنایاگیااورچونکہ جدیدہتھیاروں اورجنگی طیاروں کاحصول ممکن نہیں تھااورجنگ کے دوران عراق کے بیلسٹک میزائلوں نے ایران کواندرتک نشانہ بنایا سواس وجہ سے اس نے راکٹ پروگرام شروع کرنے کافیصلہ کیا۔ایسے میں ایران کیلئے میزائل پروگرام بہترین انتخاب تھاجواسے دفاعی ہتھیارکے طورپراستعمال کر سکتاتھااورجنگ کی صورت میں اس کی رسائی دوسرے ممالک تک بھی ہوجاتی۔اسی وجہ سے اس وقت ایران کامیزائل پروگرام اس ملک کے جدیدترین اوراہم ترین ہتھیاروں کے پروگراموں میں شمارہوتاہے۔جیسے جیسے ایران کامیزائلوں کے بارے میں علم اوراسلحہ خانہ دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے، علاقائی تنازعات اورکشیدگی کادائرہ بھی بڑھتاجارہاہے لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ مغرب اورمشرق وسطی کے ممالک کایہ ا سٹریٹجک صبرکہاں تک جاتاہے، اوردوسری طرف کیاایران اپنے میزائل پروگرام کے بارے میں دوبارہ غورکرتے ہوئے ان کی رینج بڑھانے پرمجبورہوگا۔