... loading ...
جاوید محمود
امریکہ نے 2022میں اسرائیل کو امریکی فوجی امداد میں 225.2بلین ڈالر دیے جو افراط زر 1951کے لیے ایڈجسٹمنٹ کیے گئے ۔
تمام ذرائع سے اس کی امداد کا تقریبا 71فیصد ہے ۔2000کے بعد سے اسرائیل کو سالانہ امریکی امداد کا 86 فیصد سے زیادہ فوجی کوششوں کی مالی معاونت کرتا ہے۔ اسرائیل اور عالمی سطح پر شائع ہونے والی رپورٹس میں یہ واضح اشارے مل رہے ہیں کہ اسرائیل کو یہ جنگ مہنگی پڑے گی ۔
اسرائیل کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ حماس کو جڑ سے ختم کر کے دم لے گا جبکہ اسرائیل کے وزیر خزانہ بزالیل سموترج نے اسرائیلی اسمبلی کو ستمبر میں بتایا تھا کہ یہ اسرائیلی تاریخ کی سب سے طویل اور مہنگی جنگ ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ جنگ کا خرچہ 54ارب سے 68ارب تک ہو سکتا ہے ۔گزشتہ ایک سال کے دوران اسرائیل نے ہزاروں فوجی غزہ اور جنوبی لبنان بھیجے۔ ہزاروں فضائی حملے کیے اور اپنے فضائی دفاعی نظام پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے تاکہ میزائلوں اور ڈرون حملوں کو روکا جا سکے ۔اسرائیلی حکومت کا تخمینہ ہے کہ حماس اور حزب اللہ کے خلاف جو جنگ اس نے شروع کر رکھی ہیں، اس کی قیمت مجموعی طور پر 60ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ ایسے میں اسرائیلی معیشت پر ان جنگوں کے اثرات واضح ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے لبنان پر بمباری اور پھرجنوبی لبنان پر زمینی حملے کے ساتھ ساتھ ایران کے خلاف میزائل حملے اس کی قیمت کو مزید بڑھا دیں گے ۔برطانیہ کی شففیلڈ حا لم یونیورسٹی کے ماہر معیشت ڈاکٹر امر کا کہنا ہے کہ جنگ میں وسعت کے بعد لاگت کا تخمینہ 93ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے ۔اگر یہ جنگ 2025تک بھی جاری رہتی ہے ،یہ اسرائیل کی سالانہ آمدن کا چھٹا حصہ ہوگا جو مجموعی طور پر 530ارب ڈالر ہوتا ہے۔ بینک آف اسرائیل نے حکومتی بانڈز کی فروخت میں اضافہ کیا ہے۔ تاکہ جنگ پر اٹھنے والے اخراجات کے لیے قرضہ لیا جا سکے۔ صرف مارچ 2024 میں 8ارب ڈالر کی رقم ایسے ہی حاصل کی گئی۔ اسرائیل ملک کے اندر اورباہر بھی بانڈز فروخت کرتا ہے جن میں بیرون ملک مقیم اسرائیلیوں کے لیے خصوصی بانڈز شامل ہوتے ہیں ۔تا ہم بینک آف اسرائیل کے اعداد و شمار سے علم ہوتا ہے کہ اب بیرون ملک رہنے والے لوگ اسرائیلی حکومت کے بانڈز خریدنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ بینک کے مطابق نو فیصد سے بھی کم بانڈز بیرون ملک مقیم لوگوں کے پاس ہیں ۔یہ تعداد ستمبر 2023کے مقابلے میں تقریبا پانچ فیصد تک کم ہے۔ جبکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع کا آغاز ہوا تھا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومتی بانڈز پر شرع سود میں اضافہ ہوا اور یوں غیر ملکی خریداروں کی دلچسپی بڑھی ہے۔ حکومت کو جو قرضہ واپس کرنا ہوگا اس پر شرائط سود میں ڈیڑھ فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ اگر 2024کے آغاز سے تین بین الاقوامی مالیاتی کریڈٹ ایجنسیوں موڈیز فنچ اور اسٹینڈرڈ نے اسرائیلی حکومت کے قرضوں کی ریٹنگ میں کمی کی ہے ۔تل ابیب کے انسٹیٹیوٹ آف نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز کے ڈاکٹر سمر کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے نہیں کیا گیا کیونکہ ان ایجنسیوں کو یہ لگتا ہے کہ اسرائیلی حکومت قرضہ واپس نہیں کر سکتی ۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان ایجنسیوں کو حکومت کی حکمت عملی کی وجہ سے خسارے کے بارے میں خدشات ہیں۔ اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ کے ماہر معیشت اور بینک آف اسرائیل کے سابق گورنر پروفیسر کرنیٹ فلک کہتی ہیں کہ اسرائیلی حکومت تقریبا 10ارب ڈالر تک ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ اور ساتھ ساتھ نئے ٹیکسوں پر غور کر رہی ہے ۔ان کے مطابق ایسے اقدامات کی مخالفت ہوگی جس میں چند حکومتی اتحادی بھی شامل ہوں گے۔ پروفیسر اسٹیون کا کہنا ہے کہ عسکری حکمت عملی کے ساتھ کوئی معاشی اسٹریٹجی موجود نہیں ہے۔
اکتوبر 2023میں اسرائیلی معیشت مضبوطی سے ترقی کر رہی تھی لیکن جنگ کے بعد سے یہ زوال پذیر ہوئی۔ گزشتہ سال عالمی بینک کے مطابق اسرائیلی جی ٹی پی اشاریہ ایک فیصد تک کم ہوا دوسری جانب بینک آف اسرائیل کا اندازہ ہے کہ رواں سال ترقی کی رفتار صرف اعشاریہ پانچ فیصد تک رہے گی۔ ایک سال کے دوران اسرائیل میں کئی کمپنیوں کو حملے کی کمی کی شکایت کا سامنا بھی رہا جس کی وجہ سے ان کی کاروباری صلاحیت اور پیداوار متاثر ہوئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حماس سے جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج نے تین لاکھ 60 ہزار ریزرو اہلکاروں کو بلا لیا تھا۔ اگرچہ ان میں سے بہت سے واپس ا چکے ہیں تاہم لبنان میں کارروائی کے وقت 15 ہزار کو واپس بلا لیا گیا تھا اس کے علاوہ اسرائیلی حکومت نے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر غزہ اور غرب اردن سے دو لاکھ 20 ہزار فلسطینیوں پر بھی اسرائیل میں داخل ہونے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ اس سے خصوصی طور پر تعمیراتی شعبہ متاثر ہوا ہے جس میں 80 ہزار فلسطینی کام کرتے تھے ان کی جگہ لینے کے لیے اب سری لنکا ،انڈیا اور ازبکستان سے ہزاروں مزدوروں کو رکھا جا رہا ہے ۔پروفیسر فلک کے مطابق اسرائیلی معیشت جنگ ختم ہونے کے بعد دوبارہ مضبوط ہو سکتی ہے ۔انہیں اسرائیلی ٹیکنالوجی شعبے پر اعتماد ہے جو ملکی معیشت کا پانچواں حصہ فراہم کرتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ یہ جنگ کسی بھی جنگ سے زیادہ عرصے تک چلی ہے اور اس نے آبادی کے بڑے حصے کو متاثر کیا ہے جس سے معیشت کی بحالی کا عمل کمزور اور زیادہ طویل ہو سکتا ہے جبکہ اسرائیلی معاشی ماہرین نے اعتراف کیا ہے کہ یہ جنگ اسرائیل کو مہنگی پڑے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔