... loading ...
دریا کنارے /لقمان اسد
یہ جون 2023کا ایک روز تھا جب وی ٹی بی کے 66سالہ سی ای او آندرے کوسٹن نے بینک کی فلک بوس عمارت کی 59ویں منزل پر اپنے دفتر سے ماسکو کا نظارہ کرتے ہوئے ایک صحافی سے انکشاف کیا تھا ۔روس کے سب سے طاقتور بینکار نے اپنے موقف میں واضح کیا کہ امریکی ڈالر کی اجارہ داری کا عنقریب خاتمہ ہونے والا ہے کیونکہ چینی کرنسی کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے اور یوکرین جنگ میں مغربی ممالک کی جانب سے روس کو پسپا کروانے کی ناکام کوشش بھی سب کے سامنے ہے۔
روس کے دوسرے سب سے بڑے بینک وی ٹی بی کے سی ای او آندرے کوسٹن کے مطابق یہ بحران عالمی معیشت میں بڑی تبدیلیوں کا آغاز ہے اور چین ایک بڑی عالمی اقتصادی طاقت کے طور پر نمودار ہورہا ہے۔آندرے کوسٹن ماسکو کے سب سے طاقتور اور تجربہ کار بینکروں میں سے ایک ہیں، ماضی میں انہوں نے سفارت کار کی حیثیت سے آسٹریلیا اور برطانیہ میں خدمات انجام دیں اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے فوری بعد شعبہ بینکنگ میں چلے گئے، وہ اس سے پہلے ونیشاکم بینک کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں، جو اب وی ای بی کے نام سے جانا جاتا ہے۔2023وہ سال تھا جب امریکہ اور یورپی یونین سینکڑوں بلین ڈالر کے روسی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اقدام اٹھا رہا تھا ان کا یہ کہنا تھا کہ مذکورہ قوتیں کافی نقصان اٹھائیںگی کیونکہ بہت سے ممالک امریکی کرنسی اور یورو کے بجائے دیگر کرنسیوں میں ادائیگیاں کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
یہ حقیقت اپنی جگہ بجا ہے کہ امریکی ڈالر کی اجارہ داری کا طویل اور تاریخی دور بہت جلد ختم ہو رہا ہے، میرے خیال میں وہ وقت آگیا ہے جب چین آہستہ آہستہ کرنسی کی پابندیوں کو ہٹا دے گا۔ امریکی ڈالر 20ویں صدی کے آغاز سے ہی دنیا پر غالب رہا جب اس نے عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر پاؤنڈ اسٹرلنگ کو پیچھے چھوڑ دیا تھا ، عالمی معیشت میں ڈالر کی کمی کے آثار سامنے آرہے ہیں۔ گزشتہ 40 سال کے دوران چین کی شاندار معاشی ترقی اور یوکرین جنگ کے اثرات نے امریکی ڈالر کی حیثیت کو مزید پیچیدگیوں میں مبتلا کردیا ہے۔ فروری 2022میں صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے یوکرین میں فوج بھیجنے کے بعد مغربی ممالک نے روسی معیشت کو کمزور کرنے اور پیوٹن کو جنگ کی سزا دینے کی کوشش میں لگائی جانے والی سخت ترین پابندیاں عائد کیں۔یہ پابندیاں غیر منصفانہ تھیں اور ایک سیاسی فیصلہ تھا جس نے مغرب کو ہی نقصان پہنچایا،مگر روس کی معیشت مغرب سے نہ ٹوٹ پائی کیونکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپریل میں اپنی 2023 روسی جی ڈی پی کی پیشگوئی کو 0.3 فیصد سے بڑھا کر 0.7 فیصد کردیا۔ اپنی 2024کی پیشگوئی کو 2.1 فیصد سے کم کرکے 1.3 فیصد کر دیا۔
روسی صدر پہلی بار دنیا کی نئی کرنسی منظر عام پر لے آئے ہیں ،بریکس گروپ کے اجلاس میں ڈالر کی بادشاہت ختم کرنے کے لیے روس چین کایہ بڑا دھماکہ ہے ،اب دنیا کی لین دین ڈالر کی بجائے بریکس گروپ میں شامل ممالک کی مشترکہ کرنسی میں کی جائے گی.عنقریب پاکستان بھی شاید BRICS کا حصہ بننے جا رہا ہے جہاں دو ویٹو پاورز چائنہ اور روس پاکستان کو سپورٹ کریں گے انڈین مخالفت کے باوجودیہ BRICS وہ پہلا فورم جس نے ڈالر کی کمر توڑنے کے لیے لوکل کرنسی میں ٹریڈ اور ڈالر کے متبادل کرنسی لانے پر کام شروع کیا تھا۔
B ـ Brazil،R ـ Russia، I ـ India،C ـ China، S ـ South Africa یہ شروعاتی ممبر تھے جسمیں اب مزید ممبر ممالک شامل ہو رہے ہیں۔امریکا اپنے اسلحے کے زور پر سپر پاور نہیں بلکہ اپنی کرنسی کی وجہ سے سپر پاور ہے اگرتوجلد ”برکس”کرنسی میں عالمی تجارت شروع ہو گئی تو امریکا کی سپر پاوری مکمل طور پر ختم ہوجائے گی اور امریکا کے ساتھ IMF بھی پکی پکی فارغ ہو جائے گی دنیا کا صیہونی نظام معیشت تباہ و برباد ہو کر جائے گا۔اسکے مثبت اثرات چھوٹے مقروض ممالک بشمول پاکستان پر براہ راست پڑیں گے اور ہر ترقی پذیر ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ چند مہینوں میں زیرو ہو جائے گا IMF پر انحصار مکمل ختم ہو جائے گا۔عالمی سطح پر تیل و گیس کی خرید و فروخت جب امریکی ڈالر میں نہیں ہوگی تو ڈالر کی مانگ ختم ہو جائے گی جس سے امریکی و مغربی و اسرائیلی بدمعاشی 70 فیصد تک ختم ہو جائے گی اور امریکا جو اپنے ڈالر دنیا کو بیچ کر اپنی کھربوں ڈالر کی معیشت چلاتا ہے اسکی مانگ ختم ہونے سے اسکی آمدن کا بیڑا غرق ہو جائے گا اور مقروض تو وہ پہلے سے ہے اس لئے اسکی معیشت زیادہ دیر اس بحران کو برداشت نہیں کر سکے گی آخر دیوالیہ ہونا اسکا مقدر بن جائے گا اور اسکی 53 ریاستیں ٹوٹ کر علیحدہ ہونے میں زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہی لگیں گے۔ پاکستان کو اسکا فائدہ یہ ہوگا کہ جب پاکستان کو عالمی منڈیوں سے تیل و دوسرا اشیا ضروریا خریدنے کیلئے سرکاری و نجی سطح پر ڈالر کی ضرورت نہیں پڑے گی تو ڈالر کی ڈیمانڈ کم ہوتی چلی جائے گی ۔ یوں ڈالر کی مانگ کم ہونے سے ڈالر سستا ہونے لگے گا اور روپیہ مستحکم ہو کر مہنگا ہونے لگے گا اس انقلابی تبدیلی سے پاکستانی معیشت کو ایک نئی زندگی ملنے کی توقع ہے اور جو ملک پر اربوں ڈالرز کے قرضے ہیں انکی ادائیگی بھی حکومت کیلئے بہت آسان ہو جائے گی لیکن ظاہرہے تھوڑی جرات کامظاہرہ کرنے کے لئے پاکستان کو امریکی کیمپ کو مکمل طور پر خیر باد کہہ کر روسی اور چینی بلاک میںا علانیہ شمولیت اختیار کرنیکا دلیرانہ فیصلہ کرناہوگا۔اسکی سادہ سی مثال یہ ہے کہ جب کوئی سبزی یا پھل مارکیٹ میں کمی ہونے کے باعث شارٹ ہو جاتا ہے تو اسکی قیمت میں ہوشربا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے لیکن جب وہی پھل یا سبزی کی مارکیٹ میں بہتات ہو جائے تو وہ کوڑیوں کے بھاؤ بکتا نظر آتا ہے جیسے کے ٹماٹر شارٹ ہونے پر 400 روپے کلو تک چلے جاتے ہیں لیکن جب مارکیٹ میں ضرورت سے زیادہ میسر ہو تو 25 روپے کلو میں بھی ملنے لگتا ہے ۔اسے معاشی زبان میں طلب و رسد کا قانون بولا جاتا ہے بالکل اسی طرح جب ڈالر کی ملکی اور عالمی سطح پر بہتات ہو جائے گی اور مانگ کم ہو جائے گی تو اسکی قیمت اچانک سے نیچے آ سکتی ہے۔اب بات کرتے ہیں اس کے نقصانات پر تو صیہونی اور مغربی ممالک اپنے اس شیطانی نظام معیشت کو تباہ ہوتے دیکھ نہ پائیں گے اور اس عمل سے اہل مغرب اور اہل مشرق کے درمیان عالمی جنگ یقینی نظر آتی ہے۔ اس جنگ میں بظاھر اہل مشرق قدرے طاقتور نظر آتے ہیں کیونکہ اہل مشرق کے تقریباً 90 فیصد ممالک کی اقوام اور افواج جنگجو ہیں جبکہ مغرب کے بیشتر ممالک ایسے بھی ہیں جنکے پاس اپنی افواج ہی نہیں ہیں۔لہٰذا برکس کا لانچ ہونا اہل مغرب کے غروب آفتاب کا پروانہ ہے جس سے روس چین اور دیگر مشرقی ممالک بخوبی واقف ہیں ۔