... loading ...
جاوید محمود
حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کی شہادت کئی دہائیوں میں تنظیم کو پہنچنے والے سب سے بڑے نقصانات میں سے ایک ہے۔ اگرچہ ان کا متبادل لانا ایک چیلنج ہے لیکن حماس کی 1990کی دہائی سے قیادت کے نقصانات برداشت کرنے کی تاریخ رہی ہے۔ اگرچہ اسرائیل حماس کے زیادہ تر رہنماؤں اور بانیوں کو ہلاک کرنے میں کامیاب رہا ہے لیکن تحریک نئے رہنماؤں کو تلاش کرنے کی اپنی صلاحیت میں لچکدار ثابت ہوئی ہے۔ اس بحران کے دوران غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کی قسمت کے حوالے سے یہ سوال اب بھی موجود ہیں کہ ان کی حفاظت اور سلامتی کا ذمہ دار کون ہوگا ؟اس تناظر میں یحییٰ سنوار کے بھائی ایک اہم شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں ۔حال ہی میں شمالی غزہ کے جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی فوج کے حملوں میں درجنوں افراد شہید ہو گئے تھے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس یہاں دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یحییٰ سنوار کی موت حماس کے لیے بڑا دھچکا ہے ۔اگست میں اسماعیل ہنیہ کی موت کے بعد حماس نے انہیں منتخب کرتے ہوئے یہ اشارہ دیا تھا کہ حماس اسرائیل کے سامنے جھکنے والی نہیں ہے۔ یحییٰ سنوار نے 1988 سے 2011تک یعنی لگ بھگ 22 سال اسرائیلی جیلوں میں گزارے ،وہاں ان کا کچھ وقت قید تنہائی میں بھی گزرا جس کے باعث ان میں عسکریت پسند عنصر مزید شدت پکڑ گیا۔ رپورٹ کے مطابق وہ طاقت کے ذریعے اپنا دبدبہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے خود کو قیدیوں میں بطور رہنما منوایا اور جیل انتظامیہ سے ان کے لیے مذاکرات بھی کیے اور قیدیوں میں نظم و ضبط قائم کرنے کی کوشش بھی کی۔ جیل میں انہوں نے عبرانی زبان پر عبور حاص کر لیا تھا اور اسرائیلی اخبارات پڑھتے تھے ۔سنوار کو 2011میں ایک معاہدے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ قیدیوں کے اس تبادلے میں 1028فلسطینی اور اسرائیلی عرب قیدی رہا ہوئے تھے جس کے بدلے میں ایک اسرائیلی فوجی جلاد شالیت کی رہائی ممکن ہوئی تھی۔ خیال رہے کہ جلاد شالیت کو اغوا کے بعد پانچ سال تک یرغمال رکھا گیا تھا اور یہ کام حماس کے دیگر کارکنوں سمیت سنوار کے بھائی نے کیا تھا جو اس وقت کے بھی حماس کے سینئر فوجی کمانڈر ہیں ۔سنوار نے اس کے بعد مزید اسرائیلی فوجیوں کے اغوا پر زور دیا اس وقت تک اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا قبضہ ختم کر دیا تھا اور اس پر حماس کا کنٹرول تھا۔ یہ الیکشن جیتنے اور اپنے حریف یاسر عرفات کی جماعت الفتح پارٹی کو غزہ کی پٹی سے مکمل طور پر ختم کرنے کی وجہ سے ہوا۔ اس دوران الفتح پارٹی کے متحدہ کارکنوں کو عمارتوں کے اوپر سے نیچے پھینکا گیا تھا ۔
یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد حماس کے ایک عہدے دار کا کہنا ہے کہ تنظیم سیکورٹی وجوہات کی بنا پر اپنے نئے سربراہ کی شناخت خفیہ رکھے گی۔ 2003 میں حماس کے اس وقت کے سربراہ شیخ احمد یاسین اور ان کے جانشین عبدالعزیز کو اسرائیل کی جانب سے شہید کیا گیا تھا۔ اس دور میں بھی حماس نے اپنے سربراہ کا نام ظاہر نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔امکان ہے کہ حماس کے نئے سربراہ کا انتخاب مارچ 2025 میں کیا جائے گا اور تب تک یہ تنظیم پانچ رکنی کمیٹی چلائے گی۔ اس کمیٹی میں خلیل الحیا، خالد مشعل ،ظاہر جبارین اورشور کونسل کے سربراہ محمد درویش شامل ہیں۔ جبکہ پانچویں رکن کی شناخت خفیہ رکھی گئی ہے۔ امکان ہے کہ پانچویں رکن ہی حماس کے سربراہ منتخب کیے جائیں گے۔ حماس کے ایک اہلکار نے انکشاف کیا ہے خلیل الحیا نے سیاسی و خارجی امور کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔ وہ غزہ کے معاملات کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں۔ وہ اس تنظیم کے قائم مقام سربراہ کی طرح کام کر رہے ہیں۔ یحییٰ سنوار کی شہادت سے حماس کو مایوسی ہوئی ہے کیونکہ خیال تھا کہ وہ اس سے کہیں زیادہ محفوظ مقام پر موجود ہیں۔ یرغمالیوں کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ حماس کے پاس یہ صلاحیت اور افرادی قوت ہے کہ وہ ان کا تحفظ یقینی بنا سکے۔ انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ جون سے بہت کم بات چیت ہو سکی ہے ۔حماس کے دو عہدے داروں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ تنظیم کے رہنما یحییٰ سنوار کی جانشین کے انتخاب کے لیے بات چیت بہت جلد شروع ہو جائے گی۔ دوسری جانب حلقوں میں یحییٰ سنوار کے نائب اور حماس کے سینئر عہدے دار خلیل الحیا کو اس عہدے کے لیے ایک مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا ہے۔ غزہ سے باہر موجود حماس کی قیادت میں خلیل الحیا ایک انتہائی سینئر عہدے دار ہیں۔ قطر میں مقیم خلیل الحیا اس وقت حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں حماس کے وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔ خلیل الحیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غزہ کی صورتحال کے بارے میں گہری معلومات رابطے اور تفہیم رکھتے ہیں۔
یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد اب آئندہ آنے والے دنوں میں حماس کے رہنما ایک بار پھر اکٹھے ہوں گے تاکہ ان کے جانشین کا انتخاب کر سکیں۔ یاد رہے یحییٰ سنوار رواں اکتوبر 2024میں تہران میں سابق حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد تنظیم کے سربراہ بنے تھے۔ اسرائیل میں یحییٰ سنوار کو 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر ہونے والے حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جاتا تھا اور ماہرین کے مطابق ان کی تقریر اسرائیل کے خلاف بغاوت کا ایک جرأت مندانہ پیغام تھا۔ جولائی 2024 کے بعد سے غزہ جنگ بندی سے متعلق مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ سنوار کی قیادت جنگ بندی معاہدے کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ تھی۔ یحییٰ سنوار سفارتی ذرائع سے غزہ کے مسئلے کے حل کے بجائے عسکری حل پر زیادہ زور دیتے تھے۔ حماس جنگ بندی کے عوض غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلا انسانی امداد کی بلا روک ٹوک غزہ آمد اور جنگ زدہ علاقوں کی تعمیر نو کا مطالبہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ان شرائط کو اسرائیل نے یکسر مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ حماس کو ہتھیار ڈال دینے چاہیے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو کی جانب سے حماس سے ہتھیار ڈالنے کے مطالبے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں حماس کے عہدے دار نے کہا کہ ہمارے لیے ہتھیار ڈالنا ممکن نہیں، ہم اپنے لوگوں کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں اور ہم ہتھیار ڈالنے کو قبول نہیں کریں گے ۔ہم آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑیں گے جیسا کہ سنوار نے کیا تھا۔ واضح رہے کہ 2015 میں امریکہ کی وزارت خارجہ نے باضابطہ طور پر سنوار کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔ مئی 2021 میں غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملے میں ان کے گھر اور دفتر کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔اپریل 2022 میں ٹیلی ویژن پر ایک خطاب میں انہوں نے لوگوں کو کسی بھی طرح سے اسرائیل پر حملہ کرنے کی ترغیب دی تھی ۔سنوار ایران سے بھی قریب رہے۔ ایک شیعہ ملک اور ایک سنی تنظیم کے درمیان اتحاد کبھی بھی واضح نہیں ہوتا۔ لیکن دونوں کا ایک ہی ہدف ہے اور یہ کہ اسرائیل کو ختم کرنا ہے اور یروشلم کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کروانا ہے۔ سنوار نے 2021میں ایک تقریر میں ایران کا شکریہ بھی ادا کیا ۔وہ کہتے تھے کہ اگر ایران نہ ہوتا تو فلسطین میں مزاحمت موجودہ صلاحیتوں پر نہ چلائی جا سکتی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حماس کے اگلے سربراہ بھی سنوار کی طرح باصلاحیت ہوں گے اگرچہ کا ان کا نام خفیہ رکھا جائے گا۔