... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
نفرت کا لاوہ اُبلا تو مال روڈ پر یہ منظر بھی دیکھا گیاکہ کتوں اور گدھوں کے گلوں میں حکمرانوں کے نام کی تختیاں ہیں اور وہ جلوس کی قیادت کررہے ہیں ۔پاکستان کی آمرانہ تاریخ میں ایوب خان کو آمرانہ دستور کا بانی گردانا جائے گا جس نے جمہوری روایات کو پامال کر کے آمریت کے ننگے جسم کو جمہوریت کا چیتھڑا چیتھڑا پیراہن پہنا کر جوان کیا۔ اس کے آمرانہ دستور 1962ء کے مطابق وزراء کا انتخاب صدر کرتا تھا اور قومی اسمبلی کا رکن ہونا ضروری نہیں تھا۔ صدر جب چاہتا ان کو نکال سکتا تھا۔قومی اسمبلی کے پاس شدہ قانون میں ترامیم ، تجاویز، اسے مسترد یا قبول کرنے کے اختیارات صدر کے پاس تھے۔
عدلیہ کے ججوں کی تقرری اور تبادلہ بھی ایک آمر کے مرہون منت تھے وہ ہنگامی حالت کا اعلان کر کے عوا م کے بنیادی حقوق معطل کر سکتا تھا ،تمام دستوری اداروں کی بساط لپیٹ سکتا تھا،وزارتیں اور اسمبلیاں توڑ سکتا تھا بلکہ خود دستورایک آمر کے رحم و کرم پر تھا۔اس نے انتظامیہ میں بھی منتقم مزاج افراد کی تقرریاں خوب کیں ۔مشرقی پاکستان میں ذاکر حسین کو بطور آئی جی، عبدالمنعم کو بطور گورنر تعینات کیا جبکہ مغربی پاکستان میں نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کو گورنر بنایا گیا جس نے مادر ملت فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایک آمر کی جیت کی راہ ہموار کی
ان افراد کی تقرریاں ایک ایسا عمل تھا جس میں دور ،دور تک سیاسی مخالفین کے خلاف تشدد اور انتقام کی راہ دکھائی دیتی تھی۔ لاہور میں بیرون بھاٹی گیٹ پر ہونے والے ایک اجتماع میں ایک جماعت کے سربراہ پر فائرنگ کرائی گئی۔غرض یہ تینوں حکومتی اشخاص جبرو استبداد کا نشان بن گئے ۔رسم انتقام چلی تو عوام میں نفر ت نے جنم لیا۔
پولی ٹیکنیکل کالج راولپنڈی کے طلباء نے مقامی مسئلہ پر ہڑتال کی تو ریاستی پولیس نے طلباء کے جلوس پر گولی چلادی۔ایک آمر وقت کے خلاف یہ تحریک کی ابتدا تھی۔حکومت کے خلاف طلباء کے جلوس نکلے کسی نے آمر سے پوچھا،حکومت کے خلاف یہ جلوس چہ معنی دارد؟
ایوب خان نے کہا چند من چلے نوجوانوں کی شرارت ہے جو سیاستدانوں کے بہکاوے میں آکر ایسا کر رہے ہیں۔ جلسوں کی شدت تحریک کی شکل اختیار کر گئی ایوب خان کو مستعفی ہوناپڑا ۔
پاکستان کے تاریخی باب میں ایک آمر کا ازخوداستعفیٰ باعث حیرت ٹھہرا۔معروف صحافی مرحوم زیڈ اے سلہری ایوب خاںکے پاس پہنچے اچانک مستعفی ہونے کا سبب پوچھا،سلہر ی کا کہنا تھا کہ اس سوال پر ایوب خان کی آنکھوں میں آنسو آگئے،ایک آمر کی آواز شدت جذبات سے کانپ رہی تھی گویا ہوئے “کل صبح برآمدے میں بیٹھا تھا دیکھا کہ ان کے معصوم پوتے ایک عددجلوس کی قیادت فرما رہے ہیں جس کے مظاہرین میں ایوان صدر کے مالیوں ،قاصدوں،ڈرائیوروں کے بچے شامل ہیں،جلوس کی قیادت کرنے والا میرا پوتا ایوب ہائے ہائے کے نعرے بلند کر رہا ہے اور صدر سے کرسی چھوڑدینے کا مطالبہ بھی”۔تحریک میرے گھر تک پہنچ گئی اور میں مستعفی ہو گیا۔
مجھے یاد ہے جسٹس افتخار محمد چودھری کی معطلی کے بعد جب ان کا قافلہ اسلام آباد سے لاہور کی طرف عازم سفر ہوا تھاتو حکومت کی طرف سے راستہ میں بنائی گئی تمام رکاوٹیں عوامی جذبات کے سیل رواںمیں بہہ گئیں ،ہزاروں افراد کا میلوں لمبا جلوس کارواں بن گیا یہ کارواں جب جہلم پہنچا تو ضلعی حکومت نے بازار اور دوکانیں بند کرا رکھی تھیں لیکن جہلم کے لوگوں نے گھروںکی چھتوں پر کھڑے ہوکر چیف جسٹس کا استقبال کیا۔ پیاسے لوگوں کی پیاس بجھانے کیلئے لوگ سڑکوں پر کھڑے ہوگئے یہی کچھ چودھریوں کے شہر گجرات میں ہوا۔سچی لگن اور عوامی محبت کے سائے میں اس قافلہ نے پانچ گھنٹے کا سفر ستائیس گھنٹے میں طے کیا اور وقت کی آنکھ نے دیکھا کہ تئیس برس بعدکسی غیر سیاسی شخصیت کا اتنا غیر معمولی اور فقیدالمثال استقبال ہوا کہ آمریت کے ایوان لرز رہے تھے ۔یہ حکمرانوں کے خلاف تحریک عدم اعتماد تھی ۔ 18 کروڑ لوگوں کی جانب سے حکمرانوں کے خلاف ریفرنڈم تھا۔ایک آمر حکمران کے ترکش میں باقی آخری تیر سے یہ آخری شکار تھاجس نے ایک طاقتور آمر کے اقتدار کی بساط لپیٹ کر رکھ دی۔
26 ویں ترمیم کے ذریعے محض ایک منصف جسٹس منصور علی شاہ کو رستہ روکا گیا ،مگر عوام یحییٰ آفریدی کو مسیحا سمجھتے ہیں ،قاضی فائز عیسیٰ نے جس طرح انسانی حقوق کی پامالی کی ،اپنے ادارہ کے خلاف ایک غدار کا کردار ادا کیا اس نے ریاست کے اہم ستون کو اپنے ناپاک فیصلوں کے ہتھوڑے سے کاری ضربیں لگائیں ،25کروڑ عوام سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کے خالصتاً مبنی بر انصاف اورعوام دوست فیصلے ان زخموں کا مداوا بنیں گے جو فائز عیسیٰ جیسے ننگ ِ وطن نے لگائے ،اس نے عوامی لٹیروں اور فارم 47کے حکمرانوں کو عدلیہ کی راسیں تھمادیں جنہوں نے اپنی کرپشن ،غیر آئینی اقدامات کو پارلیمنٹ کے سہارے قانونی شکل دینے کیلئے پی ٹی آئی کے ممبران کی خواتین اور بچوں کو اغوا کرکے 26ویں غیر آئینی ترمیم کی بنیاد رکھی ، عدلیہ کے متصادم ایک غیر آئینی اور من پسند افراد کو بطور جج تعینات کرنا جسکی پہلی کڑی ہوگی جس کے تحت چند بڑے لٹیرے جس طرح چاہیں گے عدلیہ کے ساتھ بدمعاشی کریںگے ۔ان کو کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی ،26کروڑ عوام آپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اوریہ باور کرانا ہے کہ وقت کے غیر عوامی حکمرانوں کو کوئی غلط قدم اٹھانے سے پہلے سوچنا ہو گا کہ اس بار عوام کے سامنے نہ کوئی ایوب خان ہے اور نہ ہی اپنی وردی کو کھال قرار دینے والا لامحدود اختیارات اور طاقت کا مالک بھگوڑا مشرف ۔