... loading ...
عماد بزدار
پاکستانی صحافت میں خوشامد کا عنصر ہمیشہ سے ہی طاقتور سیاسی شخصیات کے زیر سایہ پھلتا پھولتا رہا ہے ۔ بعض کالم نگاروں کا قلم صرف تعریف و توصیف تک محدود ہوتا ہے ، گویا ان کا مقصد محض سیاسی خاندانوں کے حق میں مدح سرائی کرنا ہو۔ جاوید چوہدری بھی انہی کالم نگاروں میں شامل ہیں، جن کی تحریریں شریف خاندان کے معمولات کو عقیدت اور محبت کی چادر میں لپیٹ کر پیش کرتی ہیں۔جاوید چوہدری کے کالموں کے اقتباسات پڑھ کر احمد بشیر کا وہ کالم یاد آتا ہے جو انہوں نے عطا الحق قاسمی کے خلاف لکھا تھا، جس میں وہ کہتے ہیں:
”آج ہی میں نے فقرہ پڑھا کہ شہوت انگیز دواؤں میں سب سے مؤثر دوا خوشامد ہے ، اور علی محمد راشدی
کے بقول ہمیشہ خوشامد ہی کامیاب ہوتی ہے جو گھٹیا الفاظ میں گر کر کی جائے” ۔
چاہے سردی ہو یا گرمی، آندھی ہو یا طوفان، جاوید چوہدری کے کالموں میں شریف خاندان اور ان کے قریبی افراد کا ”وضو”قائم و دائم رہتا ہے ۔ آئیے ان کے لکھے ہوئے کچھ کالموں پر نظر ڈالتے ہیں۔”نواز شریف بدل گئے”مورخہ ( 04جولائی 2023)
”چنانچہ میں نے موضوع میاں نواز شریف کی عادتوں کی طرف موڑ دیا”حاجی شکیل خوش ہوگئے اور یہ
اس خوشی میں بولتے چلے گئے ۔ ان کا کہنا تھا”میاں صاحب ہر وقت باوضو رہتے ہیں اور قرآن مجید
کی تلاوت کر تے رہتے ہیں”۔میں ان کے لیے پاکٹ سائز کا قرآن مجید جیب میں رکھتا تھا،یہ جب
بھی کام کے دوران میری طرف دیکھتے تھے،میں فوراً قرآن مجید ان کی طرف بڑھا دیتا تھا اور یہ قرآن
مجید کو چوم کر تلاوت شروع کر دیتے تھے ۔ ان کے ساتھ رہ کر میں بھی ہر وقت باوضو رہنے لگا اور قرآن
مجید کا وہ نسخہ اس وقت بھی میری جیب میں ہے”۔میں نے پوچھا ”میرا خیال ہے میاں صاحب بے انتہا
صفائی پسند ہیں”یہ فوراً بولے”بے انتہا”کمرے یا آفس میں جس جگہ گرد ہوگی۔ ان کی نظریں سیدھی
وہاں جائیں گی”میں نے پوچھا ”کیا یہ زیادہ کھاتے ہیں”؟یہ ہنس کر بولے ”یہ ان کے بارے میں
پروپیگنڈا ہے’میں نے انھیں کبھی نہاری اور پائے کھاتے نہیں دیکھا’ یہ آلو گوشت پسند کرتے ہیں۔ یہ
سخت غصے میں بھی کسی سے بدتمیزی نہیں کرتے بس ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے”عاجزی اور تمیز بہت زیادہ
ہے’ ملازموں کو بھی آپ کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں’مجھے ان کی وجہ سے خانہ کعبہ اور روضہ رسولۖ کے اندر تک
جانے کا موقع ملا’ یہ میرے جیسے شخص پر ان کی خاص مہربانی تھی ورنہ ملازموں پر کون اتنی مہربانی کرتا ہے”۔
نواز شریف کے بعد ان کے بیٹے حسین کا وضو کتنی دیر تک رہتا ہے آیئے جاوید چوہدری کے کالم سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔”خدا کے لئے”مورخہ ( 07اپریل 2016)
”میں شریف فیملی میں حسین نواز اور سلمان شہباز دونوں کا بہت احترام کرتا ہوں۔۔ حسین نواز
حافظ قرآن ہیں، یہ ہر وقت حالت وضو میں رہتے ہیں۔۔حسین نواز نے یہ عادت اپنے دادا
میاں شریف سے سیکھی”۔
چوہدری صاحب، اسحاق ڈار صاحب کی عبادت گزاری نیکی و پرہیز گاری کے کس قدر مداح ہیں”ڈار ڈے”(مورخہ 13 مارچ 2014) میں پڑھتے ہیں
”ہم اسحاق ڈار کی کامیابی کی طرف واپس آتے ہیں’ہم ڈار صاحب پر درجنوں اعتراضات کر سکتے ہیں
لیکن جہاں تک ان کی خوبیوں کا تعلق ہے ان سے انکار ممکن نہیں،یہ ہر وقت درود شریف کا ورد کرتے
رہتے ہیں’ یہ اس درود شریف کی برکت ہے ‘یہ جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں یہ اس میں کامیاب ہو جاتے
ہیں’یہ صرف اپنی وزارت کا کام نہیں کرتے بلکہ کھاد کی قیمتوں کا تعین ہو’ملک میں کینسر کی ادویات کی سستی
ڈلیوری ہویا پھر وزارت خارجہ کے امور ہوں حکومت کے زیادہ تر کام ان کی میز پر آ جاتے ہیں اور یہ
مسئلہ حل بھی کر دیتے ہیں’یہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پرہونے کی وجہ سے بلٹ پروف گاڑی استعمال
کرتے ہیں مگر یہ واحد وزیر ہیں جنہوں نے بلٹ پروف گاڑی اپنی جیب سے خریدی’یہ سرکاری بلٹ
پروف گاڑی استعمال نہیں کرتے اور یہ ہفتے میں سات دن صبح سے رات تین تین بجے تک کام کرتے ہیں
اور ان کاموں کا کریڈٹ بھی نہیں لیتے ‘یہ ان کی خوبیاں ہیں”۔
میاں صاحب صرف باوضو ہی نہیں رہتے باقاعدہ نماز بھی پڑھتے ہیں عجز و انکساری کے پیکر ہیں ۔یہ اطلاع بھی ہمیں چوہدری صاحب کے کالم سے ملتی ہے۔
”میاں نواز شریف سے دوسری ملاقات”(مورخہ 27 ستمبر 2022)
”میاں صاحب اپنے احباب کے ساتھ دفتر ہی میں نماز پڑھتے ہیں،نماز کے لیے کمرہ مخصوص ہے’وہاں
جائے نماز بچھی ہوئی ہے اور دفتر کا سارا اسٹاف باجماعت نماز اداکرتا ہے’چوہدری عبدالشکور امامت
کرتے ہیں’ یہ نماز جمعہ بھی پڑھاتے ہیں’ میاں نوازشریف کے بہت قریب ہیں’نماز کے بعد لنچ شروع
ہو گیا۔ہم میاں نواز شریف کے سیاسی فیصلوں سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں۔ ہم ان کی زندگی کے فلسفے
کو بھی ناپسند کر سکتے ہیں لیکن جہاں تک ان کی شخصیت کا تعلق ہے’یہ بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں اور
ان کی ہر خوبی قابل تعریف بھی ہے مثلاً ان کی شخصیت میں عاجزی ہے’۔یہ تمام لوگوں سے اٹھ کر ملتے
ہیں’گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہیں،دوسروں کی گفتگو توجہ اور اطمینان سے سنتے ہیں’سوال پر سوال کرتے
جاتے ہیں اور جواب خواہ کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو یہ خاموشی سے سنتے جاتے ہیں۔ مہمان نواز بھی ہیں اور
یہ سب سے پہلے عام اور چھوٹے ملازمین کو کھانا کھلاتے ہیں اور پھر آخر میں کھانا لیتے ہیں’اس دن بھی
انھوں نے سب سے پہلے اپنے دفتر کے ملازمین ،سیکیورٹی اہلکاروں اور خاتون سیکریٹری کو کھانا سرو کیا
اور آخر میں باقی تمام لوگوں کی باری آئی’میاں نواز شریف کے بارے میں یہ تاثر سو فیصد غلط ہے یہ
کشمیری کھانے مثلاً سری پائے ،گشتابہ اورہریسہ کھاتے ہیں’یہ مرغن خوراک بالکل نہیں کھاتے’ انھیں
آلو گوشت’ابلے ہوئے چاول اور دال کھانے کا شوق ہے اور یہ بھی یہ تھوڑا سا کھاتے ہیں اس دن بھی
انھوں نے تھوڑی سی مقدار میں کھانا لیا تاہم کھانے کے دوران گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا’۔چوہدری عبدالشکور
قرآنی واقعات اور احادیث سناتے رہے اور باقی حضرات توجہ سے سنتے رہے”۔
یہ کالم ہمیں بار بار یاد دلاتے ہیں کہ پاکستانی صحافت میں طاقتوروں کے ساتھ عقیدت ایک خاص حد تک پہنچ چکی ہے ، جہاں شخصیات کے وضو، تلاوت، اور نمازیں خبر بن جاتی ہیں۔ جاوید چوہدری جیسے کالم نگار اپنے قارئین کو ایسے سرابوں میں الجھا دیتے ہیں، جہاں شخصیت پرستی اور خوشامد اصل موضوعات پر غالب آ جاتے ہیں۔
شریف خاندان کے ”بلٹ پروف وضو” اور اسحاق ڈار کے ”درود شریف”کا ورد ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارا قومی مکالمہ کس طرح خوشامدی تحریروں کے ذریعے سطحی موضوعات تک محدود ہو چکا ہے ۔آخر میں، سوال یہ ہے :کیا ہمارا میڈیا سیاسی شخصیات کی عقیدت میں غرق ہو کر عوامی مسائل اور حقائق کو نظر انداز کرتا رہے گا؟ یا ہمیں کبھی وہ صحافت دیکھنے کو ملے گی جو حکمرانوں کے وضو اور کھانے کی بجائے ان کے فیصلوں اور اقدامات کو سوالوں کے کٹہرے میں کھڑا کرے ؟ شاید جاوید چوہدری جیسے قلم کاروں کے لیے یہ سوال غیر اہم ہو، لیکن عوام کو اب سوچنا ہو گا کہ ان کی رہنمائی کرنے والے کالم نگار کن حقائق پر روشنی ڈال رہے ہیں اور کن کو دانستہ نظر انداز کر رہے ہیں۔