وجود

... loading ...

وجود

شریف خاندان کا بلٹ پروف وضو اور جاوید چوہدری کی کالم نگاری

اتوار 27 اکتوبر 2024 شریف خاندان کا بلٹ پروف وضو اور جاوید چوہدری کی کالم نگاری

عماد بزدار

پاکستانی صحافت میں خوشامد کا عنصر ہمیشہ سے ہی طاقتور سیاسی شخصیات کے زیر سایہ پھلتا پھولتا رہا ہے ۔ بعض کالم نگاروں کا قلم صرف تعریف و توصیف تک محدود ہوتا ہے ، گویا ان کا مقصد محض سیاسی خاندانوں کے حق میں مدح سرائی کرنا ہو۔ جاوید چوہدری بھی انہی کالم نگاروں میں شامل ہیں، جن کی تحریریں شریف خاندان کے معمولات کو عقیدت اور محبت کی چادر میں لپیٹ کر پیش کرتی ہیں۔جاوید چوہدری کے کالموں کے اقتباسات پڑھ کر احمد بشیر کا وہ کالم یاد آتا ہے جو انہوں نے عطا الحق قاسمی کے خلاف لکھا تھا، جس میں وہ کہتے ہیں:
”آج ہی میں نے فقرہ پڑھا کہ شہوت انگیز دواؤں میں سب سے مؤثر دوا خوشامد ہے ، اور علی محمد راشدی
کے بقول ہمیشہ خوشامد ہی کامیاب ہوتی ہے جو گھٹیا الفاظ میں گر کر کی جائے” ۔
چاہے سردی ہو یا گرمی، آندھی ہو یا طوفان، جاوید چوہدری کے کالموں میں شریف خاندان اور ان کے قریبی افراد کا ”وضو”قائم و دائم رہتا ہے ۔ آئیے ان کے لکھے ہوئے کچھ کالموں پر نظر ڈالتے ہیں۔”نواز شریف بدل گئے”مورخہ ( 04جولائی 2023)
”چنانچہ میں نے موضوع میاں نواز شریف کی عادتوں کی طرف موڑ دیا”حاجی شکیل خوش ہوگئے اور یہ
اس خوشی میں بولتے چلے گئے ۔ ان کا کہنا تھا”میاں صاحب ہر وقت باوضو رہتے ہیں اور قرآن مجید
کی تلاوت کر تے رہتے ہیں”۔میں ان کے لیے پاکٹ سائز کا قرآن مجید جیب میں رکھتا تھا،یہ جب
بھی کام کے دوران میری طرف دیکھتے تھے،میں فوراً قرآن مجید ان کی طرف بڑھا دیتا تھا اور یہ قرآن
مجید کو چوم کر تلاوت شروع کر دیتے تھے ۔ ان کے ساتھ رہ کر میں بھی ہر وقت باوضو رہنے لگا اور قرآن
مجید کا وہ نسخہ اس وقت بھی میری جیب میں ہے”۔میں نے پوچھا ”میرا خیال ہے میاں صاحب بے انتہا
صفائی پسند ہیں”یہ فوراً بولے”بے انتہا”کمرے یا آفس میں جس جگہ گرد ہوگی۔ ان کی نظریں سیدھی
وہاں جائیں گی”میں نے پوچھا ”کیا یہ زیادہ کھاتے ہیں”؟یہ ہنس کر بولے ”یہ ان کے بارے میں
پروپیگنڈا ہے’میں نے انھیں کبھی نہاری اور پائے کھاتے نہیں دیکھا’ یہ آلو گوشت پسند کرتے ہیں۔ یہ
سخت غصے میں بھی کسی سے بدتمیزی نہیں کرتے بس ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے”عاجزی اور تمیز بہت زیادہ
ہے’ ملازموں کو بھی آپ کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں’مجھے ان کی وجہ سے خانہ کعبہ اور روضہ رسولۖ کے اندر تک
جانے کا موقع ملا’ یہ میرے جیسے شخص پر ان کی خاص مہربانی تھی ورنہ ملازموں پر کون اتنی مہربانی کرتا ہے”۔
نواز شریف کے بعد ان کے بیٹے حسین کا وضو کتنی دیر تک رہتا ہے آیئے جاوید چوہدری کے کالم سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔”خدا کے لئے”مورخہ ( 07اپریل 2016)
”میں شریف فیملی میں حسین نواز اور سلمان شہباز دونوں کا بہت احترام کرتا ہوں۔۔ حسین نواز
حافظ قرآن ہیں، یہ ہر وقت حالت وضو میں رہتے ہیں۔۔حسین نواز نے یہ عادت اپنے دادا
میاں شریف سے سیکھی”۔
چوہدری صاحب، اسحاق ڈار صاحب کی عبادت گزاری نیکی و پرہیز گاری کے کس قدر مداح ہیں”ڈار ڈے”(مورخہ 13 مارچ 2014) میں پڑھتے ہیں
”ہم اسحاق ڈار کی کامیابی کی طرف واپس آتے ہیں’ہم ڈار صاحب پر درجنوں اعتراضات کر سکتے ہیں
لیکن جہاں تک ان کی خوبیوں کا تعلق ہے ان سے انکار ممکن نہیں،یہ ہر وقت درود شریف کا ورد کرتے
رہتے ہیں’ یہ اس درود شریف کی برکت ہے ‘یہ جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں یہ اس میں کامیاب ہو جاتے
ہیں’یہ صرف اپنی وزارت کا کام نہیں کرتے بلکہ کھاد کی قیمتوں کا تعین ہو’ملک میں کینسر کی ادویات کی سستی
ڈلیوری ہویا پھر وزارت خارجہ کے امور ہوں حکومت کے زیادہ تر کام ان کی میز پر آ جاتے ہیں اور یہ
مسئلہ حل بھی کر دیتے ہیں’یہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پرہونے کی وجہ سے بلٹ پروف گاڑی استعمال
کرتے ہیں مگر یہ واحد وزیر ہیں جنہوں نے بلٹ پروف گاڑی اپنی جیب سے خریدی’یہ سرکاری بلٹ
پروف گاڑی استعمال نہیں کرتے اور یہ ہفتے میں سات دن صبح سے رات تین تین بجے تک کام کرتے ہیں
اور ان کاموں کا کریڈٹ بھی نہیں لیتے ‘یہ ان کی خوبیاں ہیں”۔
میاں صاحب صرف باوضو ہی نہیں رہتے باقاعدہ نماز بھی پڑھتے ہیں عجز و انکساری کے پیکر ہیں ۔یہ اطلاع بھی ہمیں چوہدری صاحب کے کالم سے ملتی ہے۔
”میاں نواز شریف سے دوسری ملاقات”(مورخہ 27 ستمبر 2022)
”میاں صاحب اپنے احباب کے ساتھ دفتر ہی میں نماز پڑھتے ہیں،نماز کے لیے کمرہ مخصوص ہے’وہاں
جائے نماز بچھی ہوئی ہے اور دفتر کا سارا اسٹاف باجماعت نماز اداکرتا ہے’چوہدری عبدالشکور امامت
کرتے ہیں’ یہ نماز جمعہ بھی پڑھاتے ہیں’ میاں نوازشریف کے بہت قریب ہیں’نماز کے بعد لنچ شروع
ہو گیا۔ہم میاں نواز شریف کے سیاسی فیصلوں سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں۔ ہم ان کی زندگی کے فلسفے
کو بھی ناپسند کر سکتے ہیں لیکن جہاں تک ان کی شخصیت کا تعلق ہے’یہ بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں اور
ان کی ہر خوبی قابل تعریف بھی ہے مثلاً ان کی شخصیت میں عاجزی ہے’۔یہ تمام لوگوں سے اٹھ کر ملتے
ہیں’گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہیں،دوسروں کی گفتگو توجہ اور اطمینان سے سنتے ہیں’سوال پر سوال کرتے
جاتے ہیں اور جواب خواہ کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو یہ خاموشی سے سنتے جاتے ہیں۔ مہمان نواز بھی ہیں اور
یہ سب سے پہلے عام اور چھوٹے ملازمین کو کھانا کھلاتے ہیں اور پھر آخر میں کھانا لیتے ہیں’اس دن بھی
انھوں نے سب سے پہلے اپنے دفتر کے ملازمین ،سیکیورٹی اہلکاروں اور خاتون سیکریٹری کو کھانا سرو کیا
اور آخر میں باقی تمام لوگوں کی باری آئی’میاں نواز شریف کے بارے میں یہ تاثر سو فیصد غلط ہے یہ
کشمیری کھانے مثلاً سری پائے ،گشتابہ اورہریسہ کھاتے ہیں’یہ مرغن خوراک بالکل نہیں کھاتے’ انھیں
آلو گوشت’ابلے ہوئے چاول اور دال کھانے کا شوق ہے اور یہ بھی یہ تھوڑا سا کھاتے ہیں اس دن بھی
انھوں نے تھوڑی سی مقدار میں کھانا لیا تاہم کھانے کے دوران گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا’۔چوہدری عبدالشکور
قرآنی واقعات اور احادیث سناتے رہے اور باقی حضرات توجہ سے سنتے رہے”۔
یہ کالم ہمیں بار بار یاد دلاتے ہیں کہ پاکستانی صحافت میں طاقتوروں کے ساتھ عقیدت ایک خاص حد تک پہنچ چکی ہے ، جہاں شخصیات کے وضو، تلاوت، اور نمازیں خبر بن جاتی ہیں۔ جاوید چوہدری جیسے کالم نگار اپنے قارئین کو ایسے سرابوں میں الجھا دیتے ہیں، جہاں شخصیت پرستی اور خوشامد اصل موضوعات پر غالب آ جاتے ہیں۔
شریف خاندان کے ”بلٹ پروف وضو” اور اسحاق ڈار کے ”درود شریف”کا ورد ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارا قومی مکالمہ کس طرح خوشامدی تحریروں کے ذریعے سطحی موضوعات تک محدود ہو چکا ہے ۔آخر میں، سوال یہ ہے :کیا ہمارا میڈیا سیاسی شخصیات کی عقیدت میں غرق ہو کر عوامی مسائل اور حقائق کو نظر انداز کرتا رہے گا؟ یا ہمیں کبھی وہ صحافت دیکھنے کو ملے گی جو حکمرانوں کے وضو اور کھانے کی بجائے ان کے فیصلوں اور اقدامات کو سوالوں کے کٹہرے میں کھڑا کرے ؟ شاید جاوید چوہدری جیسے قلم کاروں کے لیے یہ سوال غیر اہم ہو، لیکن عوام کو اب سوچنا ہو گا کہ ان کی رہنمائی کرنے والے کالم نگار کن حقائق پر روشنی ڈال رہے ہیں اور کن کو دانستہ نظر انداز کر رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر