... loading ...
جاوید محمود
اسماعیل ہنیہ کے بعد اسرائیل ایک ایک کر کے حماس کے لیڈروں کو اپنے راستے سے ہٹا رہا ہے، تاکہ فلسطینیوں کے حوصلے پست ہو سکیں۔ یحییٰ سنوار کو اسرائیل پر 7اکتوبر 2023 کے حملے کا منصوبہ ساز تصور کیا جاتا تھا اور اسرائیلی فوج نے حماس کی دیگر شخصیات کے ساتھ ان کا نام بھی اپنی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا۔ سنوار کی غیر تصدیق شدہ تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں اور ان تصاویر میں ایک شخص کو شدید زخمی حالت میں زمین پر لیٹے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ وہ اس ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کچھ ہی گھنٹوں کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلانٹ اور وزیراعظم بنجمن نتن یاہو نے سنوار کے خاتمے کا اعلان کر دیا، بعد میں اسرائیلی فوج نے ڈرون کی مدد سے بنائی گئی ویڈیو شیئر کی جس میں اس کے مطابق حماس کے سربراہ کی زندگی کے آخری لمحات دکھائے گئے تھے۔ اس ویڈیو میں ایک شخص کا چہرہ نقاب سے ڈھکا ہوا تھا اور وہ اپنے اطراف سے ڈرون کو ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے۔
اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 17اکتوبر کو حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کی ہلاکت پر غزہ میں دکھ تکلیف ہے ۔سنوار غزہ میں تنازع شروع ہونے کے ایک برس بعد شہید کیے گئے ہیں۔ ان کی شخصیت کے حوالے سے لوگوں کی رائے مختلف ہو سکتی ہے لیکن یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ جس وقت انہیں شہید کیاگیا وہ پوری طرح مسلح تھے اور انہوں نے اسرائیلی فورسز سے مقابلہ بھی کیا۔ وہ کسی انٹیلی جنس آپریشن میں نہیں مارے گئے جیسا کہ اسرائیلی فوج دعویٰ کر رہی ہے۔ انس الجمال نامی سماجی سیاسی کارکن سنوار کی موت پر لکھتے ہیں کہ یہ وہ اقدام نہیں ہے جو نتن یاہو چاہتے تھے نتن یاہو نہیں چاہتے تھے کہ سنوار کسی ہیرو کی طرح نظر آئیں ۔اپنا عسکری لباس پہنے ہوئے اور رفح میں اگلے مورچوں پر قابض فوجیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے دکھائی دیں۔ نتن یاہو نہیں چاہتے تھے کہ سنوار کسی جھڑپ میں اچانک مارے جائیں۔ وہ چاہتے تھے کہ سنوار کو مارا جائے اور تصویر میں وہ خود سنوار کو مارنے کا حکم دیتے ہوئے نظر آئیں ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ نتن یاہو ان فوجیوں کا احتساب کریں گے جنہوں نے سنوار کی تصویر لیک کی اور اب یہ تصویر فلسطینی افراد کے لیے فخر کا ذریعہ بنے گی۔ اس حوالے سے بدع الولا سوشل میڈیا پر لکھتے ہیں کہ وہ جنگ کے دوران رفح میں شہید ہوئے نہ کہ کسی آپریشن میں ،وہ لڑے اور فرار نہیں ہوئے۔ ان کے گردن میں کوفیہ لپٹا ہوا تھا اور ہاتھ میں بارود تھا۔ انہوں نے ماتھے اور سر پر گولیاں کھائیں نہ کہ پیٹھ پر یا ہاتھوں پر وہ آگے بڑھتے ہوئے شہید ہوئے۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سنوار کی ہلاکت سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے گی ۔اس کے بعد غزہ میں لوگوں کے پاس زیادہ آپشن نہیں بچیں گے اور اس سبب جنگ اور طویل اختیار کر جائے گی ۔امریکی اور اسرائیلی کہتے ہیں کہ سنوار اور حماس کے بغیر غزہ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ ایک تجزیہ نگار کے مطابق جب بھی کوئی مرتا ہے تو اس کی جگہ کوئی اور لے لیتا ہے جو پچھلے شخص سے زیادہ ضدی ہوتا ہے۔ سنوار ایک ضدی شخص ہے اور ہمیں امید ہے کہ ان کی جگہ بھی کوئی ان کے جیسا ہی شخص یا پھر ان سے زیادہ ضدی شخص لے گا۔
اردن کی سرحد اسرائیل سے ملتی ہے اور اس کے دارالحکومت عمان میں ہزاروں افراد یحییٰ سنوار کی موت کی مذمت کرنے اور حماس سے یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ ایک احتجاج کرنے والے شخص نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سنواراور مزاحمت ، نظریات کے نام ہیں۔ اور نظریہ کبھی مرتا نہیں۔ لاشیں گرتی ہیں نظریات نہیں مٹتے ۔ان کے مطابق سنوار کی موت سے صورتحال مزید خراب ہی ہوگی۔ عراق میں اسماعیل ہنیہ کی موت پر بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے لیکن سنوار کی موت کے بعد جو مظاہرے ہوئے وہ ماضی کے مقابلے میں کافی بڑے تھے۔ عراقی رکن پارلیمان رئیس المالکی نے کہا کہ سنوار کی موت کا منظر اتنا ہی تکلیف دہ تھا جتنی لاکھوں فلسطینیوں کی اموات اور ہزاروں بھوکے افراد کی نقل مکانی۔ عراقی صحافی و بلاگر احمد اور شیخ ماجد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ سنوار نے وہ زندگی گزاری ہے جس کا وجود صرف شاعری میں ہی نظر آتا ہے۔ عراق میں موجود ہم سب جانتے ہیں کہ اس سب کی وجہ کیا ہے اور ہم بلیک میلرز اور شیروں میں فرق بھی جانتے ہیں۔
مصر میں واقع جامع الازہر نے سنوار کا نام لیے بغیر ان کی موت کو فلسطینی مزاحمت میں ہیرو کی شہادت قرار دیا۔ ایکس پر جاری ایک بیان میں جامعہ الازہر کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کے ذہنوں میں فلسطینی مزاحمت کا نشان سمجھے جانے والے افراد کی ساکھ کو مسخ کرنے کی کوشش کو ناکام بنانا ہوگا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ اس کو دہشت گردی نہ قرار دیا جائے بلکہ مزاحمت اپنی سرزمین کا دفاع کرنا اور مرجانا ایک ایسے رتبہ ہے جس کی برابری ممکن نہیں۔ مصری سیاستدان اور سابق صدارتی امیدوار احمدین صبائی نے سنوار کی موت کے بعد ایک تقریب میں شرکت کی اور کہا کہ آپ ہیرو کی طرح جیے اور شہادت کے رتبے پر فائض ہو گئے۔ آپ غزہ کے دیگر لوگوں کی طرح کسی ہیرو کی طرح شہید ہوئے اپ کسی ٹنل میں نہیں چھپے۔ قیدیوں کے پاس پناہ نہیں لی بلکہ جب آپ کا دشمن سے سامنا ہوا تو اپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کر رہے تھے۔ مصری اخبار الحرام الشروق کے سابق ایڈیٹر ان چیف عبدالعظیم حماد نے حماس کے سیاسی بیورو کے سربرا ہ کی موت پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل مزاحمت کے تمام مراکز کو ختم کرنا چاہتے ہے تاکہ اس خطے میں اسرائیل کی بالادستی کی راہ ہموار ہو سکے۔ سنوار کی موت پر فلسطینی شاعر کی شاعری ایکس پر شیئر کی گئی جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ اگر میں مر جاؤں تو میری ماں تم رونا مت۔ میں مروں گا تاکہ میرا ملک زندہ رہ سکے۔
کچھ بلاگرز اور سیاسی کارکنان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے سنوار کی لاش کی تصاویر نے چی گویرا کی موت کے بعد کی تصاویر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ چی گویرا ارجنٹائن میں پیدا ہونے والی انقلابی تھے جو گزشتہ صدی کے دوسرے حصے میں دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں کی علامت بن کر سامنے آئے ۔حقیقت یہ ہے کہ یحییٰ سنوار ایک شخص نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام تھا۔