... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
دنیابھر کے ترقی یافتہ ممالک میں قانون اور سرکاری ادارے اپنی عوام کو سہولت،آسانیاں اور خوشیاں دینے کے لیے کام کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ہمارا قانون مکڑی کا جالا اور سرکاری ادارے اذیت گاہیں ہیں اور تو اورجہاں ہر روز لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا جن میں ہمارے تعلیمی ادارے ،ہسپتال اورتھانے سر فہرست ہیں ،جہاں جنسی دہشت گردی،جعلی ڈگریوں والے اور بدمعاش بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ جیلوں کو تو ویسے بھی جرائم کی یونیورسٹیاں کہا جاتا ہے۔ شاید اسی بگڑے ہوئے نظام کی وجہ سے ہمارے ملک کا کوئی ایک ادارہ بھی دنیا بھر کی رینکنگ میں پہلے سو نمبروں میں تو کیا پہلے 2سو کی لسٹ میں بھی شامل نہیں ہے ۔پنجاب یونیورسٹی ورلڈ رینکنگ پر 669ویں نمبر پر ہے ۔شاید اسی لے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائی کی بجائے جنسی زیادتیوں،کرپشن اور لوٹ مار کی طرف زیادہ توجہ ہے ہمارے ملک کی صف اول کی پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ احتجاج کرتے ہیںتو سیکورٹی گارڈ ان پر لاٹھیاں برساتے ہیں ۔لڑکیوں کے ہاسٹل میں تعداد سے زیادہ لڑکیاں رہ رہی ہیں اور ان کے واش رومز اتنے گندے ہیں جتنے یونیورسٹی کو لوٹنے والے ڈاکو گندے ہیں۔ یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل نمبر3کی سپرنٹنڈنٹ نے 2018کو ہاسٹل کی خستہ حالی کا لکھ کر بتایا جو انتہائی خطرناک ہے ۔لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کے کان تک جوں تک نہیں رینگی۔ سابق وی سی کے خلاف ایک خاتون جنسی ہراسمنٹ کی کئی سال سے دہائیاں دے رہی ہیں لیکن ہمارے اداروں کی ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھی ۔اوکاڑہ یونیورسٹی میں ایک ڈپٹی رجسٹرار جعلی ڈگریوں پر کئی سالوں سے براجمان ہے جس کے خلاف متعدد درخواستوں پر کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں کیا کیا کہانیاں گردش کررہی ہے، وہ لاوا ہے جب پھٹے گا تو بہت کچھ اپنے ساتھ بہا لے جائیگا۔
اسی طرح ہمارے ہسپتالوں میں مریضوں اور ان کے لواحقین کا جو حشر کیا جاتا ہے وہ بھی مثالی ہے کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم ہسپتال کے بجائے کسی تھانے میں آ گئے ہیں ۔شاید اسی لیے پاکستان کادنیا بھر کے سرکاری ہسپتالوں5,911 نمبر ہے ۔آپ ملک کے 1,276 ہسپتالوں، 5,558 بی ایچ یو، 736 دیہی مراکز صحت، 5,802 ڈسپنسریاں، 780 میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ہیلتھ سینٹرز اور 416 ٹی بی مراکز کو چھوڑیں بلکہ پنجاب کے 34ڈسٹرکٹ ہسپتال ،88تحصیل کی سطح پرTHQ اور23تدریسی ہسپتال کو بھی ایک طرف رکھیں صرف لاہور کے سروسز ہسپتال کی بات کرلیتے ہیں مگر اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ پبلک ہسپتال کام کیسے کرتے ہیں اور وہاں کون کون سے ڈاکٹرز موجود ہوتے ہیں نمبر1 پرنسپل جو کالج اور ہسپتال دونوں کو سپروائز کرتا ہے،نمبر2 میڈیکل سپرنٹنڈنٹ(ایم ایس) جو ہسپتال کا سپروائزرہوتا ہے،نمبر3 پروفیسرز جو سٹوڈنٹس کو پڑھاتے ہیں اور مریضوں کو بھی دیکھتے ہیں،نمبر4 ایسوسی ایٹ پروفیسرز جو پروفیسرز کا معاون ہوتا ہے،نمبر5 اسسٹنٹ پروفیسر ز جو ان دونوں کا معاون ہوتا ہے ان تینوں کا بنیادی مقصد میڈیکل ا سٹوڈنٹس کو پڑھانا ہوتا ہے ،اس لیے ان کو ٹیچنگ اسٹاف بھی کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ پروفیسرز کا گریڈ 20 ہوتا ہے، ایسوسی ایٹ کا گریڈ 19 اور اسسٹنٹ پروفیسرز کا گریڈ 18 ہوتا ہے،نمبر6 سینئر رجسٹرار جو ہسپتال کا ا سٹاف ہوتا ہے اور یہ بھی گریڈ 18 کا ہوتا ہے اور ان کا بنیادی کام مریضوں کا علاج بالخصوصی ایمرجنسی کے مریضوں کا علاج کرنا ہوتا ہے ۔اس کے بعد میڈیکل آفیسر اور پوسٹ گریجویٹ رجسٹرار ہوتے ہیں جو گریڈ 17 کے افسران ہوتے ہیں جبکہ ا سٹاف نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف ڈاکٹرز کی علاج مہالجے میں مدد کرتے ہیں۔ سروسز اسپتال جو کہ ایک ٹیچنگ ہسپتال ہے اور شہر کے درمیان جیل روڈ پر واقع ہے۔ یہاں ایمرجنسی میں مریض کو بیڈ نہیں ملتا ،آگ لگنے سے بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔بارشوں میں ہسپتال پانی میں ڈوب جاتا ہے۔ غریب مریضوں اور بااثر مریضوں کے لیے الگ الگ قانون ہے۔ پروٹوکول کے نام پر 24گھنٹے اسٹاف ڈیوٹی پر موجود رہتا ہے جو اشارہ ملتے ہی متحرک ہوجاتا ہے اور پھر گھنٹوں کے کام منٹوں میں ہوجاتے ہیں۔ اس کی سرجیکل ایمرجنسی سینئر رجسٹرار کے بغیر چل رہی ہے۔ سروسز ہسپتال کے ساتھ ہی دل کا ہسپتال ہے جہاں غریب لوگوں کو ٹیسٹوں کے لیے کئی کئی ماہ کا وقت دیاجاتا ہے اور آپریشن کے لیے ایک مریض کو کتنا انتظار کرنا پڑتا ہوگا اسکا اندازہ پڑھنے والے خود لگالیں لیکن اگر کسی مریض نے اوپر سے ٹیلی فون کروالیا تو پھر پورا ہسپتال اس ایک مریض کے لیے متحرک ہوجاتا ہے۔ ہر قسم کا ٹیسٹ فوراً اور آپریشن کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ امیر، غریب اور بااثرافراد کے درمیان یہ پروٹوکول کا کلچر ہر ادارے میں بھر پور موجود ہے۔ عام لوگوں کو کسی نہ کسی مسئلہ کے حل کے لیے تھانہ یا کچہری میں بھی جانا پڑتا ہے ۔آپ پنجاب کے 737،سندھ کے1046،خیبر پختون خواہ کے 511 ، بلوچستان کے 383 اور اسلام آباد کے 25تھانوں میں سے کسی ایک بھی تھانے میں غریب اور مجبور انسان کا بھیس بدل کر چلے جائیں اور دوسری طرف کوئی اور شخص SHOکواس کے ایس پی یا ڈی ایس کا ٹیلی فون کروا کر چلا جائے اور پھرجو آئو بھگت اور فوری کام سفارشی کا ہوگا وہ عام انسان کا دھکے کھانے اور رشوت دینے کے بعد بھی نہیں ہوسکتا جن تین اداروں کا میں نے ذکر کیا ہے وہاں عام لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے جبکہ اس سے ہٹ کر جو درجنوں ادارے ملک میں عوام کی خدمت کے لیے بنے ہوئے ہیں وہاں بھی عام لوگوں کو ذلیل و خوار ہی کیا جاتا ہے۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں عام لوگوں کو تو رشوت دینی ہی پڑتی ہے ،ساتھ میں سرکاری ملازمین بھی اپنی ریٹائرمنٹ کے وقت اپنے کاموں کو مکمل کروانے کے لیے اکائونٹس دفتر والے بابوئوں کو پیسے دینے پڑتے ہیں ۔یہی ادارے والے جب کسی محکمے کا آڈٹ کرنے جاتے ہیں تو کروڑوں کے غبن کو بھی برابر کردیتے ہیں۔ شائدیہی وجہ ہے کہ ہم ہر اچھی رینکنگ میں دنیا کے آخری کونے پر ہوتے ہیں اور ہر برے کام میں ہم دنیا کو مات دے رہے ہیں لیکن کیا کریں ہمیں حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور آئینی ترمیموں سے فرصت نہیں ملتی ۔
سیاستدانوں کو ایک دوسرے کو غدار اور ملک دشمن ثابت کرنے سے وقت نہیں ملتااورحکومت کے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ ہماری پسماندگی ،غربت،جہالت اور بے بسی سمیت کسی بھی عوامی مسائل پر توجہ دے سکے کیونکہ حکمران اس وقت اپوزیشن کو پورا پورا سبق سکھانے میں مصروف ہیں ۔رہ گئی عوام وہ بھی ایک دوسرے سے دست وگریبان ہے۔ معمولی سی معمولی بات پر بات ہی ختم کردیتے ہیں۔