وجود

... loading ...

وجود

مقامی کشمیریوں کی اپنی سرزمین سے بے دخلی

جمعرات 24 اکتوبر 2024 مقامی کشمیریوں کی اپنی سرزمین سے بے دخلی

ریاض احمدچودھری

گزشتہ سال جنوری میں قابض انتظامیہ نے تجاوزات ہٹانے کے نام پر ایک نام نہاد مہم کا آغاز کیاتھا جس کا مقصد تقریبا 22لاکھ 40ہزارکنال اراضی پر قبضہ کرنا تھا جس کا رقبہ ہانگ کانگ کے رقبے کے برابر ہے۔قابض انتظامیہ کے اس اقدا م سے مقامی لوگوںمیں اپنی سرزمین اور گھروں سے بے دخلی کا خدشہ بڑھ گیا ہے اور وہ شدید خوف و دہشت میں مبتلا ہیں۔ کشمیریوں کی اراضی اور املاک پرقبضے کو 2019کے بعد مودی حکومت کی طرف سے نافذ کئے گئے نئے قوانین کے تحت تحفظ فراہم کیاگیا ہے۔ان اقدامات کے تحت قابض انتظامیہ نے ایک ماہ کے عرصے میں کشمیریوں کی دس لاکھ کنال سے زائد راضی پر قبضہ کیا۔
فرانس میں قائم حقوق انسانی کی معروف تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ میں غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر زمینوں پر قبضے کے حوالے سے تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ فیڈریشن نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کی گئی “آپ کی سرزمین ہماری ہے”کے عنون سے 56صفحات پر مشتمل رپورٹ میں انکشاف کیاہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں2019کے بعدسے بھارتی حکومت کی طرف سے کی گئی سخت قانونی اور پالیسی ترامیم کی وجہ سے کشمیریوں کے انسانی حقو ق خصوصا اراضی کے مالکانہ حقوق بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے کشمیریوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے اراضی کے مالکانہ حقوق میں ترامیم سے بھارتی قابض حکام کو ہزاروں کشمیریوں کو جبری طورپر ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کااختیار مل گیا ہے۔
بھارت کی طرف سے 2019سے متعارف کرائے گئے نئے قوانین کے تحت اب کوئی بھی بھارتی شہری جموں و کشمیر میں مستقل رہائش اختیار کر سکتا ہے۔ بھارتی شہریوں کو بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں زمین خریدنے، ملازمتوں کے حصول اور انتخابات میں ووٹ دینے کا حق بھی دیاگیا۔ رپورٹ میں اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوںکا حوالہ دیتے ہوئے کہاگیاہے کہ مودی حکومت نے اگست 2019 سے پہلے کے کشمیریوں کے مالکانہ حقوق میں تبدیلی کر کے نئے ظالمانہ قوانین اور پالیسیاںنافذ کی ہیں ، جن کی وجہ سے جموں وکشمیر میں آبادی کے تناسب اور کشمیریوں کے سیاسی ،سماجی اور معاشی حقوق بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ان قوانین کے ذریعے مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرنے خدشات بڑھ گئے ہیں اور کشمیری انہیں جموںوکشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت پر ایک حملہ قراردے رہے ہیں۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ بی جے پی حکومت کے وسیع تر نسلی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد کشمیری مسلمانوں کو نشانہ بنانااورانہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کرکے مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب کو بگاڑناہے۔رپورٹ میں مودی حکومت کی طر ف سے سرینگر میں “خصوصی سرمایہ کاری کوریڈور” کے قیام کی تجویز پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ کوریڈو ر کے ذریعے پیدا ہونیوالی دس لاکھ نئی ملازمتوں پر غیر کشمیری ہندوئوںکو بھرتی کیاجاسکتا ہے۔ رپورٹ میں مستقل رہائش کے قوانین، اراضی کے مالکانہ قوانین، اور جموںوکشمیرتنظیم نو ایکٹ 2019 کے تحت لیز کے معاہدوں میں ترامیم کے علاوہ نئے ریزرویشن قوانین پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس نے بھارتی حکومت سے مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ سمیت دیگر کالے قوناین کی منسوخی اورکشمیریوں کے جمہوری حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔اس رپورٹ کی ریسر چ رواں سال جنوری اور اگست کے درمیان کی گئی ، جس میں کشمیر کے ماہرین تعلیم، وکلا اور صحافیوں کے انٹرویوز کے ساتھ ساتھ میڈیا رپورٹس اور تاریخی دستاویزات کے حوالے بھی شامل کئے گئے ہیں۔ انٹرنیشنل فیڈریشن کی نائب صدر فاتیا مولیدیانتی نے رپورٹ میں کہاہے کہ بھارتی حکومت جموں و کشمیر کو اپنے ظالمانہ ہتھکنڈوں کے استعمال کیلئے ایک تجربہ گاہ کے طورپر استعمال کرر ہی ہے۔ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور سول سوسائٹی پر حملے انتہائی باعث تشویش ہیں۔فیڈریشن نے یہ رپورٹ کشمیری انسانی حقوق کے علمبردار اورتنظیم کے سیکریٹری جنرل خرم پرویز کے نام سے منسوب کی ہے۔خرم پرویز جموں وکشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی اور دوان حراست لاپتہ کشمیریوں کے والدین کی تنظیم کے دیگر کارکنوں کے ہمراہ نومبر 2021سے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت نظربند ہیں۔ انٹرنیشنل فیڈریشن کی ڈپٹی ڈائریکٹربرائے ایشیا ڈیسک جولیٹ روسلوٹ نے کہاہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کے قانونی فریم ورک میں ترمیم کی گئی ہیںجس کے تحت طویل عرصے کشمیریوں کے مالکانہ حقوق کو تحفظ حاصل تھا۔ان ترامیم سے کشمیریوں تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
بھارت کی زمینوں پر جبری قبضے کی کوششیں کشمیریوں کی معاشی حالت کو مزید خراب کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کشمیریوں کے حقوق پامال کررہا ہے۔سیاسی انتقام کینام پربھارتی فورسز کاکشمیری رہنماؤں پر کریک ڈاؤن جاری ہے۔5 اگست 2019 سے کشمیریوں کے اثاثوں پر بھارتی حکومت کا قبضہ، ان کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو دبانے کے لیے غیرقانونی اقدامات کیے۔کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بھارت کی جانب سے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں۔کشمیریوں کی زمینیں ہتھیانے کی کوششیں،بھارت کی معاشی جارحیت کا ثبوت ہے،بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے سخت اقدامات کیے۔آزادی کے حامی کشمیریوں کیخلاف بھارتی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے،بھارت کی جبری بے دخلی کی پالیسیوں نے کشمیریوں کی زندگیوں کو متاثر کیا۔بھارتی حکام کی جانب سے کشمیریوں کے معاشی وسائل کا استحصال، عالمی برادری خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر