وجود

... loading ...

وجود

چھبیس کے بعد پچیس

بدھ 23 اکتوبر 2024 چھبیس کے بعد پچیس

حمیداللہ بھٹی

پچیس اور چھبیس کا کھیل دیکھنے میں محو عوام نتائج جان چکی ہے جس سے یہ طے ہو گیا ہے کہ نہ صرف رواں ماہ پچیس اکتوبرکو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی ملازمت سے سبکدوش ہوجائیں گے اور جسٹس منصورعلی شاہ کا اِس عہدے پر فائز ہونے کاکوئی امکان نہیں رہا بلکہ یہ بھی ابہام دورہوگیا ہے کہ بدلے سیاسی منظر نامے کی وجہ سے وفاداریاں تبدیل کرانااب بھی حکومت کے لیے کچھ خاص مشکل نہیں۔ علاوہ ازیں اِس کھیل میں جمہوریت ،آئین اور ووٹ کی عزت کے کئی دعویدار بھی اِس بُری طرح بے نقاب ہوئے ہیں کہ شاید بقیہ سیاسی حیات اپنے کردار کی صفائیاں دیتے گزار دیں ۔حالانکہ ملک کا اندازِ سیاست بڑی حد تک تبدیل ہو چکا ہے لیکن چھبیسویں ترمیم کی منظوری کے دوران ایک بار پھر آشکار ہو گیا کہ تبدیلی نے سیاست کومتاثر نہیں کیا۔مقبول جماعتوں کی اہمیت اپنی جگہ،مگر اہل اقتدار سے مراسم بنانے اور پُختہ کرنا اب بھی ممبرانِ پارلیمنٹ کی اولیں ترجیح ہے اور جب فوائدپرمبنی پیشکش ہوتو ضمیر کی آواز ،اصول اوربیانیہ قربان کرنے والے کشاں کشاں پہنچ ہی جاتے ہیں لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی رموز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بکنے اور خریدنے کا کھیل اب بھی جاری ہے ۔اگر خریدار حکومت ہو تورمزشناس سودوزیاں اپوزیشن وفادایاں فروخت کر سکتی ہے ۔
چھبیسویں ترامیم کی منظوری پرحکومت نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔ حکومتی حلقے اپنے تئیں مستقبل محفوظ بناکر خوش ہیں۔ اِس خوشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کی سب سے زیادہ مقبول ترین ہونے کی دعویدار جماعت کو بے اثر کرنا بھی ہے مگر کیا حاکمانِ وقت اپنا مستقبل واقعی محفوظ بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ؟ اِس سوال کا وثوق سے حق یا نفی میں جواب دینا ابھی قبل ازوقت ہو گا کیونکہ فی الوقت حکومت اور مقتدرہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت اور مشکل میں ایک دوسرے کی مددگار ہیں لیکن یہ ضرورت تاحیات برقرارنہیں رہ سکتی، بلکہ کسی وقت ختم بھی ہو سکتی ہے۔ جب ایک فریق دوسرے کے لیے بوجھ بن جائے یاکسی کو زیادہ بہتر متبادل مل جائے ایسے حالات میں الزامات لگاتے ہوئے تعلقات اور تعاون کا رتی بھر لحاظ کرنے کی ملکی سیاست میں کوئی نظیر نہیں ملتی غیر مقبولیت ،معاشی تباہی ،ملکی مفاد کے منافی کام سمیت راندہ ٔدرگاہ کرتے وقت ایسے ایسے جوازپیش کیے جائیں گے کہ رُخصت ہونے والا اِتنا بھی کہنے کی جسارت نہیں کر پائے گاکہ
دیکھا جو تیرکھاکے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
کچھ لوگ اب بھی قومی حکومت کی بات کرتے ہیں مگر زمینی حقائق فوری طورپر ایسے کسی خیال کی نفی کرتے ہیں۔ البتہ بلاول بھٹو اپنی بھاگ دوڑ سے یہ یقین دلانے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں کہ اگر انھیں بھی آزما لیا جائے تو نافرمان نہیں بلکہ تابعدارثابت ہو ں گے۔ خیریہ طے ہے کہ حکومت کو مقتدرہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اسی لیے ذرائع ابلاغ سمیت اہم حلقے ہدفِ تنقید بنانے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ حمایت یا تو اپوزیشن کی مقبولیت تک میسر رہ سکتی ہے یا پھر ایسی صورتحال پیدا ہونے تک ،کہ مقتدرہ اور اپوزیشن میں سلسلہ جنبانی کا آغاز ہو جائے اسی لیے اگر مقتدرہ کا تعاون برقرا ررکھنا ہے تو نہ صرف مقبول اور طاقتور اپوزیشن کا ہوابرقراررہنا ضروری ہے بلکہ اپنے کردار وعمل سے یہ بھی ثابت کرنا لازم ہے کہ اپوزیشن سے زیادہ وہ تابعدار ہے لہٰذا کسی نئے تجربے کے لیے اِدھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت نہیں۔
چھبیس کے بعد اب حکومت کی نظر پچیس پر ہے کیونکہ چھبیسویں ترامیم کی منظوری کے بعد اب پچیس اکتوبر کو نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کرنی ہے۔ اِس منصب پر کس کی تقرری کرنا ہے ؟اِس کے لیے مقتدرہ کی پسندکاخیال رکھتے ہوئے ایسے کسی چہرے کو آگے لانا ضروری ہے جس سے نظام کی بقاکو خطرہ لاحق نہ ہو۔اِس حوالے سے گزشتہ روزپارلیمانی کمیٹی کااجلاس ہوچکا۔ آئینی ترامیم سے حکومت کو غلبہ حاصل ہوگیا ہے ۔اب اپوزیشن کوشش کربھی لے تووہ حکومت کو من مانی سے روکنے کے قابل نہیں رہی ۔خیر قابل تو وہ پہلے بھی نہیں تھی۔ اگر ہوتی تو کیا سینیٹ میں صرف چار جبکہ قومی اسمبلی میں بارہ اراکین ہی مخالفت میں ووٹ دیتے ۔مگر ایسا ہواجس کا مطلب ہے کہ اپوزیشن تمام ترشور شرابے کے باوجود اندرکھاتے ملنے والی ہدایات پر عمل پیراہے وہ تو احتجاج بھی ایسے انداز میں کرتی ہے کہ کسی کی جبین شکن آلود ہونے کااحتمال نہ رہے۔ اِس تناظر میں اپوزیشن کا ایوانوں سے غیر حاضر رہناطے شدہ حکمتِ عملی لگتاہے کیونکہ جس جماعت کے اکثر عہدے قانون دانوں کے پاس ہوں وہ ایسی بچگانہ سیاست کرے جس پر عوامی یاسیاسی پختگی کارنگ ناپیدہوناقابلِ فہم ہے ۔ماضی میں بھی اِس جماعت نے پی ڈی ایم کی حکومت بننے پر قومی اسمبلی کوخیرباد کہہ کر اور پنجاب و کے پی کے میں قائم اپنی ہی حکومتیں توڑ کر جس حماقت کا مظاہرہ کیا تھا وہی اندازِ سیاست اب بھی ہے۔ اسی لیا کہا جارہا ہے کہ یاتویہ جماعت ماضی کی حماقتوں سے سیکھنے پر تیار نہیں یا پھر تابعداری کا یقین دلانے کے لیے سخت بے چین ہے۔ اگرایسا نہ ہوتا تو عین گنتی کے وقت ایوانوں میں موجودگی یقینی بناتی اور کم ازکم اپنا اختلافی کردار تو ادا کرتی ۔مگر یہاں تو پارلیمنٹ سے فرار کو ہی آسان نسخہ کیمیاتصورکرلیا گیا ۔اُن سے تو جے یو آئی نے زیادہ فہم و فراست کا مظاہرہ کیا نہ صرف آئینی عدالت بنانے کا تہیہ کیے بلاول کو آئینی بینچ بنانے پر راضی کر لیا بلکہ 2028تک ملک سے مکمل طور پر سودختم کرانے کی شرط حکومتی منظورکرالی جس سے کم ازکم اسلام پسندوں کا دل جیتنے میں تو کامیاب ہو سکتی ہے ۔
شاید کسی نے حکومت کو یقین دلادیاہے کہ قاضی فائز عیسیٰ اگر چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تو حکومت کمزور ہو جائے گی۔ اسی لیے ایک ہی شب میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے آئینی ترامیم منظورکرانے کے لیے تمام وسائل جھونک دیے گئے۔ حالانکہ کوئی بھی ناگزیر نہیں۔ چہرے تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ اصل اہمیت نظام کی ہے جسے مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ایسا نظام جو عوامی مسائل کے حل میں ممدومعاون ہو،سچ یہ ہے کہ جج کا کام انصاف کرنا اور صحافی ہر خاص وعام کو باخبر رکھتا ہے جبکہ نظام کو عوامی و فلاحی بنانے میں سیاستدانوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ لیکن چھبیسویں ترامیم کی منظوری سے کسی کا کردار پوشیدہ نہیں رہا۔اب دیکھنایہ ہے کہ حکومت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی کاوشیں کہاں تک کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں؟اِس کے درست جواب کے لیے طویل عرصہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر