... loading ...
زریں اختر
ہمارا شمارخدانخواستہ غرباکے اس قبیل سے نہیں جن کے دوست نہیں۔ہمیں تو ایسی سہیلیاں ملیں جن کی باتوں سے مجرد تخیل کو تجسیم ملی ،عام فہم زبان میںخیال کی زندہ مثالیں روشن ہوگئیں۔ جامعہ کراچی کی ہم شعبہ عائشہ،جو جامعہ میں گزارے گئے دو سال کے دوران نہیں اس کے بعد سہیلی بنی کہ ان کے والد اور چچاصاحبان کا(غالباََ) پندرہ روزہ رسالہ ”انجینئرنگ ریویو” کا دفترقومی اخبارو جرأت کے دفتر کے عین سامنے عمارت میں واقع تھاکہ اس کی سیڑھیاں اترو اور سڑک پھلانگ اس کی سیڑھیاں چڑھ جائو۔ ایک دن سہیلی نے اپنے گھر کے بارے میں بتایا کہ” یہ ہمارے دادا کا گھر ہے ۔اس میں ابو اور چچا (یعنی دو خاندان )رہتے ہیں ، ایک چچااپنے بیوی بچوں کے ساتھ الگ گھر میں منتقل ہوگئے اور پھپھو کی شادی ہوگئی ۔ میرے ابو اور چچابازار میں کرایے کی شرح کے حساب سے الگ رہنے والے چچا اور پھپھو کو اس گھر میں رہنے کا کرایہ دیتے ہیں ۔ میری سہیلی کا اتنا بتانا تھاکہ میرے منہ سے بے ساختہ لفظ نکلا ”تقویٰ” ، اسے تقویٰ کہتے ہیں۔کیا عام دنیا دارآدمی اس طرح سوچ سکتاہے؟ کہنے والے تو اس طرح کہتے ہیں کہ بھائی کو ہم نے تھوڑی کہاتھا کہ الگ گھر رہ کر رہنے لگے ،اس کی مرضی ، وہ جب واپس آنا چاہے آجائے ، ہم جو اس کی جگہ استعمال کررہے ہیں وہ خالی کردیں گے۔بہن کی شادی ہوگئی ،جہیز دے دلا دیا ، بہنوں کو تو ویسے بھی موقع بے موقع دینا دلانا رہتا ہی ہے ،بقول بی اماں کے بہن کو دینے کا کیا ہے چھینک آئے اور دے دو۔کبھی گھر بکے گا تو اس کو حصہ دے دیں گے، بات ختم ۔ عائشہ کے والد صاحب اور چچا صاحب کے لیے یہ بات اس طرح ختم نہیں ہوتی تھی ، میں اس کاتمام تر سہرا ان ہی کے سر باندھوںکہ نیک ( سقراط کے نزدیک ذہانت نیکی سے وابستہ ہے اور بدی کم عقلی سے )مرد تھے یا کچھ تعریف ان کی بیگمات کی بھی کہ ایسی نیک سیرت عورتیں ملیںورنہ تو یہ عمل دو دھاری تلوار تھا۔
میری دوسری سہیلی میری ہم نام ، کبھی خیال کا پہاڑ لیے کہ سمجھ میں نہ آئے اٹھائے ہو ئی ہے یا اس کے تلے دبی ہوئی ہے ، کبھی رائتہ پھیلائے اور پریشان کہ نہیں پھیلانا چاہیے تھا ،باقی اس کو کھچڑی ، کچومر ، بھرتہ ،چوں چوں کا مربہ سب بھاتاہے۔ لیکن ایک تصور جو اس پرمنکشف ہواوہ تھا اُردو کا محاورہ ”بول ہارنا”، میرے اور اس کے درمیان اس ہار پر جو مکالمہ ہوا وہ ملاحظہ فرمائیں:
سہیلی : ‘بول ہارنا’ کسے کہتے ہیں ، پتا ہے؟
میں : (کچھ کہنے کی کوشش میںتھی کہ)
سہیلی : ( یاسیت بھر ے لہجے میں )یہ محاورہ کتنا سچا ہے ، میری زندگی پر تو صد فی صد صادق آتاہے۔
میں: ( ہمیشہ کی طرح اس کی یاسیت بھرے لہجے سے مغلوب ہوتے ہوئے ) وہ کیسے؟
سہیلی : کہنے کو تو میرے شوہر کے اتنے بڑے بڑے کان ہیں (اس نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں اور انگوٹھے کو مخالف سمتوں میں کھینچتے ہوئے کہا)، اتنے بڑے بڑے ،لیکن میرے لیے نہیں۔
میں : (ماحول کو ہلکا کرنے کے لیے )کیوںتمہاری کھنچائی میں نہیں آتے ؟ پہلے ہی پنجے برابر بتا رہی ہو اب کیا چپو سائز کرنا تھے
سہیلی : (میرے مذاقی فقرے کو سنی ان سنی کرتے ہوئے ) وہ میری سنتاہی نہیں
میں: (اس کو بہلانے کی اپنی کوشش جاری رکھتے ہوئے) سنتا تو ہوگا لیکن دوسرے کان سے بھی تو کام لینا ہے
سہیلی : (سنجیدہ آواز میں) میری سمجھ میں آگیاکہ ”بول ہارنا” کسے کہتے ہیں
میں: (ایک لمحے کے لیے مجھے اس کے سنجیدہ گھمبیر لہجے نے گنگ کردیا۔لیکن تھوڑی دیر بعد میں نے پھر اپنی پٹری پکڑی اسے بھی تو زندگی کی پٹری پر ڈالنا تھا) ، سن قرة العین حیدر کا ناولٹ ”اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو” پڑھ کر آرہی ہے کیا؟ کچھ زیادہ ہی اثر لے لیا، تو پارسی تو نہیں ہے نا
سہیلی : (گھورتی ہے، پھر اس کے ہونٹوں پر وہ اطمینان بخش مسکراہٹ کھلتی ہے جس کو پانے کے لیے وہ مجھ سے یہ سب کہہ رہی تھی ،اور اب اس کا شرارتی مزاج بھی فارم میں آگیا، بولی) پہلے مجھے شک تھا ، میں تمہاری ذہنی حالت کی بات کررہی ہوں اور اب یقین ہوگیا ہے
میں : پوری بات تو سن لے
سہیلی : بول
میں : وہ اُردو ادب کے استا د ہیں نا ، ڈاکٹر یونس حسنی ، وہ کہہ رہے تھے کہ رتی جناح پارسی تھی ، پارسی عورت شوہر پرست ہوتی ہے۔ اسی لیے میں نے کہاکہ تو تو پارسی نہیں
سہیلی: پارسی نہیں ہوں توکیا کسی اور کی پرستش شروع کردوں ( یہ کہہ کر وہ خوب زور سے ہنسی کہ اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے ، یہ بھیگے کنارے بھی میرے لیے معمہ بن گئے اور آج تک بنے ہوئے ہیں)۔
اس کی سمجھ میں واقعی آگیا تھا کہ بول ہارنا کسے کہتے ہیں ، جب عورت نکاح کے دوبولوں کے ساتھ بھی شوہر کی شرعی و قانونی محبت سے محروم ہو،اس کا ہاراہواخالی لہجہ آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے ۔اور جب ایک حادثے میں میرے دس سالہ بیٹے کی پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی تو مجھ پر یہ دعائیہ کلمہ جس طرح واشگاف ہوا اس سے قبل نہیں ہوا تھاکہ ”اللہ گھڑی گھڑی کی خیر رکھے”،ذاتی واقعہ لکھنے کا مقصد دعا کی صداقت بیان کرنا ہے۔
اب کچھ وہ تصورات جن کی اشکال دشوار ترین ہیں ۔ ”آئینہ دیکھنا اور دکھانا”، ”خود تنقیدی ” اور ”خود احتسابی”۔ یہ دشوار ترین تصورات کیوں ہیں؟ کیوں کہ عمر گزر چکی ہو تی ہے اور جب عمر گزار دی گئی تو یہ کیسے مان لیں کہ ہم غلط تھے۔ اس لیے ہمارے جیسے معاشروں میں تنقید اور احتساب تاریخ کی ذمہ داری بن جاتی ہے اوریہاں تو یہ حال ہے کہ ماضی کا قرض ہی ابھی تک چکتا نہیں ہوا۔ ڈاکٹر جعفر احمد کسی موقع پر فرما رہے تھے کہ برصغیر کی تاریخ تو ابھی لکھی ہی نہیں گئی ۔
اُردویونیورسٹی گلشن کیمپس کے عبد القدیر آڈیٹوریم میں گزشتہ مہینے ٦ ِ ستمبر روایتی بیانیے کے ساتھ منایا گیا۔جامعات بھی اگر اپنی علمی آزادی کا استحقاق گروی رکھ دیں اور ریاستی پروپیگنڈے کا شکار ہی نہیں بلکہ آلہء کار بن جائیں تو ۔۔۔
مذہب کے نام پرمولوی حضرات سوال کرنا دشوار کردیں تو۔۔۔
ہمارے لیے تو بس پھر”مخروط خاموشی کا نظریہ (اسپرائیل آف سائلنس تھیوری) ہی پڑھانے کے لیے رہ جاتاہے بلکہ ہم طالب علم کو تاکید بھی اسی کی کرتے ہیںاور خود بھی اسی پر عمل کرتے ہیں۔یہاں وسعت اللہ خان کا کالم یاد آرہا ہے جس میں وہ پاکستان تحریکِ انصاف سے اپنی برات کا اعلان کررہے ہیں۔ وہ بھی لگتاہے کہ اسی نظریے کے ڈسے ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔