وجود

... loading ...

وجود

آئی پی پیز کا گھنائوناکاروبار

پیر 21 اکتوبر 2024 آئی پی پیز کا گھنائوناکاروبار

دریاکنارے/لقمان اسد

پاکستان میں آئی پی پیز کی شروعات 90 کی دہائی میں اس وقت ہوئی جب وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے نجی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ یوں پاکستان میں پہلی مرتبہ آئی پی پیز نے کام شروع کیا۔بجلی کے ریگولیٹر ادارے نیپرا کی ویب سائٹ پر پاکستان میں اس وقت کام کرنے والے بجلی کے کارخانوں کی تفصیلات موجود ہیں جو سنہ 1994 سے کام کر رہے ہیں یا اس کے بعد کی حکومتوں میں لگائے گئے۔ایسے نجی کارخانوں کی کُل تعداد 200 سے تجاوز کر چکی ہے جو بجلی پیدا کر کے حکومت کو فروخت کر رہے ہیں،اس وقت ملک میں 41 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے وسائل ہیں جبکہ ضرورت اس وقت 30 سے 31 ہزار میگا واٹ بجلی کی ہے۔ لیکن بجلی کی تقسیم کے ڈسٹری بیوشن نظام میں صرف 22 ہزار میگا واٹ بجلی لے جانے کی سکت ہے۔دوسرے لفظوں میں اگر لوڈ شیڈنگ بھی ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ملک میں بجلی نہیں ہے۔ بجلی تو ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن ہمارا نظام اپ گریڈ نہیں ہے۔ ‘اب یہ جو بجلی بن رہی ہے اس میں زیادہ تر پروڈکشن آئی پی پیز کر رہے ہیں۔ اور ان کے معاہدے میں یہ لکھا ہے کہ وہ اتنی بڑی سرمایہ کاری اس لیے کر رہے ہیں کہ حکومت ان سے بجلی خریدے گی۔ حکومت اگر ان سے بجلی نہیں بھی لیتی تو ان کی پیدوار کی کیپیسٹی کی 80 فیصد ادائیگی حکومت کو ہر صورت کرنا ہو گی۔’
اب عوام کے دبائو اورسوشل میڈیاپرعام آدمی کی مسلسل کمپیئین کی وجہ سے ا بتدائی طور پرحکومت نے پانچ آئی پی پیز حبکو پاور، روش پاور، اے ای ایس لال پیر پاور، صبا پاور اور اٹلس پاور سے”بجلی خرید معاہدے” ختم کر دیے ہیں اور نہ ہی ان پلانٹس کو کیپیسٹی سمیت آئندہ کے لیے کوئی ادائیگی کی جائے گی۔ ان پلانٹس کی منظوری کب دی گئی، مالکان کون ہیں، گزشتہ ایک سال میں کیپسٹی پیمنٹ کتنی کی گئی، گزشتہ ایک سال میں مجموعی ادائیگی کتنی کی گئی اور گزشتہ دس سالوں میں ان پانچوں پلانٹس کو کیپیسٹی پیمنٹ کتنی کی گئی، اس کے علاوہ معاہدے کے خاتمے کے بعد بچت کتنی ہو گی۔ میری نظر میں یہ پانچوں پرچون پاور پلانٹس ہیں، بڑی واردات پر بھی فوراً ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے چار پاور پلانٹس 1994 اور ایک پاور پلانٹ 2002 کی پاور پالیسی کے تحت لگایا گیا ہے۔
حبکو پاور پلانٹ حبکو کمپنی نے لگایا ہے جس کے مالک حبیب اللہ صاحب ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں اس پلانٹ نے کوئی پیداوار نہیں کی یعنی ایک یونٹ بھی بجلی پیدا نہیں کی اس کے باوجود اس پلانٹ کو صرف ایک سال میں کیپیسٹی کی مد میں 24.24 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔ گزشتہ دس سالوں میں اسی پلانٹ کو صرف کیپیسٹی کی مد میں 205.034 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔ حبکو گروپ کے تمام پاور پلانٹس کو صرف ایک سال میں مجموعی ادائیگی 355.993 ارب روپے کی گئی جس میں صرف 267.90 ارب روپے کیپیسٹی پیمنٹ شامل ہے۔
روش پاور داؤد گروپ کی ملکیت ہے جو گزشتہ ایک سال میں 4 فیصد چلا ہے یعنی سال میں 14 دن، اس پیداوار پر خرچہ 37.19 کروڑ روپے وصول کیے گئے۔ کیپیسٹی پیمنٹ 6.884 ارب روپے یعنی 706.86 روپے فی یونٹ جبکہ مجموعی ادائیگی 7.256 ارب یعنی 745.05 روپے فی یونٹ۔ گزشتہ دس سالوں میں صرف کیپیسٹی کی مد میں 60 ارب کی وصولی کی گئی۔
اے ای ایس لال پیر میاں منشاء گروپ کی ملکیت ہے۔ گزشتہ ایک سال میں اس پلانٹ نے بھی صرف 11 فیصد پیداوار دی ہے یعنی سال میں صرف 41 دن چلا ہے، اس پیداوار پر خرچہ وصولی 14.96 ارب روپے یعنی 41.73 روپے فی یونٹ۔ کیپیسٹی پیمنٹ 8.49 ارب روپے یعنی 23.69 روپے فی یونٹ جبکہ مجموعی ادائیگی 23.45 ارب روپے یعنی 65.41 روپے فی یونٹ کے حساب سے کی گئی ہے۔ اس پاور پلانٹس کو گزشتہ دس سالوں میں کیپیسٹی کی مد میں 52.081 ارب روپے کی ادائیگی۔ منشاء گروپ کے چاروں پلانٹس کا گزشتہ ایک سال میں کیپیسٹی کی مد میں 25.77 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی جبکہ گزشتہ دس سالوں میں 184.126 ارب روپے کی کیپیسٹی ادائیگی کی گئی۔صبا پاور پلانٹ کوسٹل صبا پاور کمپنی لمٹیڈ نے لگایا جسے بعد میں اوریئنٹ کمپنی کا نام دے گیا۔ اس پاور پلانٹ نے گزشتہ ایک سال میں صرف 17 دن پیداوار دی ہے، اس پیداوار پر خرچہ وصول 3.36 ارب روپے یعنی 60.70 روپے فی یونٹ۔ کیپیسٹی پیمنٹ 3.132 ارب روپے یعنی 56.58 روپے فی یونٹ جبکہ مجموعی وصولی 6.50 ارب روپے کی گئی۔ اس پاور پلانٹ کو گزشتہ دس سالوں میں کیپیسٹی کی مد میں 17.833 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔اٹلس پاور پلانٹ شیرازی خاندان کی ملکیت ہے، اس پلانٹ نے بھی گزشتہ ایک سال میں 47 دن پیداوار دی ہے اس پیداوار پر خرچہ وصولی 10.103 ارب روپے یعنی 39.94 روپے فی یونٹ۔ کیپیسٹی پیمنٹ 4.47 ارب روپے یعنی 17.65 روپے فی یونٹ جبکہ مجموعی وصولی 14.57 ارب روپے یعنی 57.59 روپے فی یونٹ۔ گزشتہ دس سالوں میں اس پاور پلانٹ کو 43.173 ارب روپے صرف کیپیسٹی کی مد میں ادا کیے گئے۔اس حساب سے گزشتہ ایک سال میں ان پانچوں پاور پلانٹس کو 76.016 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی جس میں 47.216 ارب روپے صرف کیپیسٹی شامل ہے، اسی طرح گزشتہ دس سالوں میں ان پانچوں پاور پلانٹس کو 378.061 ارب روپے کیپیسٹی کی مد میں ادا کیے گئے۔
ان پانچوں پاور پلانٹس کی پیداواری صلاحیت 2465 میگاواٹ ہے۔ گزشتہ صرف ایک سال میں تمام 101 آئی پی پیز کو مجموعی ادائیگی 3127 ارب روپے جس میں 1929 ارب روپے کیپیسٹی پیمنٹ شامل ہے۔ ان پانچوں پاور پلانٹس کے معائدہ خاتمے سے مجموعی طور پر 76.016 ارب یعنی 2.43 فیصد ادائیگیوں میں کمی آئے گی۔ مزید 18 پلانٹس کی کیپیسٹی ختم کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے ان پلانٹس کو صرف بجلی پیداوار ادائیگی کی جائے گی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارت کا جنگی جنون،عالمی امن کے لیے خطرہ وجود پیر 21 اکتوبر 2024
بھارت کا جنگی جنون،عالمی امن کے لیے خطرہ

بنام صدرِ مملکت بہ حیثیت چانسلر وفاقی جامعہ اُردو وجود پیر 21 اکتوبر 2024
بنام صدرِ مملکت بہ حیثیت چانسلر وفاقی جامعہ اُردو

آئی پی پیز کا گھنائوناکاروبار وجود پیر 21 اکتوبر 2024
آئی پی پیز کا گھنائوناکاروبار

غیر جانبداری کا پردہ:سہیل وڑائچ کے کالموں کا دُہرا معیار وجود اتوار 20 اکتوبر 2024
غیر جانبداری کا پردہ:سہیل وڑائچ کے کالموں کا دُہرا معیار

ایران کے جوہری اہداف پر اسرائیلی حملے کے ممکنہ نتائج وجود اتوار 20 اکتوبر 2024
ایران کے جوہری اہداف پر اسرائیلی حملے کے ممکنہ نتائج

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر