... loading ...
سمیع اللہ ملک
اسرائیل پرایرنی بیلسٹک میزائلوں کے بعدبڑھتی ہوئی خاموشی کے طوفان میں حیرت انگیزتلاطم جاری ہے اورخطے میں ممکنہ ردِعمل کے بارے میں خطرناک قسم کی خبریں بھی گونج رہی ہیں کہ آیایہ حملہ کیسااورکس نوعیت کاہوگا؟ فریقین اب ایک دوسرے کوشدیدترین اور حیران کن جوابات کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔اسرائیلی وزیردفاع یوو گیلنٹ نے دھمکی دیتے ہوئے کہاکہ جب اسرائیل کی طرف سے جوابی کارروائی کی جائے گی تویہ”باقاعدہ ہدف بناکر کی جائے گی اورایسی مہلک ہوگی کہ ایران اس کا اندازہ نہیں لگاپائے گا ”۔ گویا خطے میں ان خطرناک جوابی حملوں کیلئے الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیادنیاکے طاقتورممالک اس دنیاکوتاریک کرنے کی اجازت دیں
گے؟
ایرانی حکومت کے مطابق اس کے بیلسٹک میزائل حملے اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ اورحماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کاجواب تھا،گویایہ ایران کی طرف سے جنگ بندی کابھی پیغام تھالیکن اسرائیل کی طرف سے لبنان اورغزہ میں حملے جاری رہنے کی وجہ سے حزب اللہ نے جوابی وارکرتے ہوئے شمالی اسرائیل میں حیفہ کے جنوب میں تقریباً 33 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبے ایک اہم فوجی اڈے بنیامین پرڈرون حملے میں4/اسرائیلی فوجی کے مرنے اور 60سے زائد شدید زخمی ہونے کی خود اسرائیل کے دفاعی ادارے نے تصدیق کردی ہے۔حزب اللہ کے میڈیاآفس نے اسرائیلی فوجی اڈے پرہونے والے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے جس کے بارے میں کہاگیاہے کہ اس نے تل ابیب اورحیفہ کے درمیان واقع علاقے میں اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) گولانی بریگیڈکے تربیتی کیمپ کونشانہ بنایاگیاہے اوریہ حملہ جمعرات کوجنوبی لبنان اوربیروت میں اسرائیلی حملوں کے جواب میں کیا گیا ہے۔
ادھر امریکی وزیر دفاع لائیڈآسٹن نے اسرائیل کے وزیردفاع سے ٹیلیفونک رابطہ کرتے ہوئے کہاہے کہ لبنان میں”اقوام متحدہ کے امن فوج کے دستوں کی حفاظت”کویقینی بنائے ۔10ڈاؤننگ ا سٹریٹ کے ایک ترجمان نے بھی ان رپورٹس پرشدید حیرانگی کااظہار کیا ہے کہ اسرائیل نے جان بوجھ کرجنوبی لبنان میں اقوام متحدہ کے امن مشن کی ایک چوکی پرفائرنگ کی ہے۔ یورپی یونین سمیت سری لنکا نے بھی لبنان میں امن فوج کے دستوں کو نشانہ بنانے کے واقعے کی مذمت کی ہے۔ اسرائیل نے قبل ازیں تسلیم کیاتھاکہ اس کی فوج کی گولیوں سے جنوبی لبنان میں دوامن فوجی زخمی ہوئے ہیں۔یادرہے اس سے قبل ”یونیفیل” اپنے بیان میں کہہ چکاہے کہ ایسا کوئی بھی جان بوجھ کر حملہ بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
ان بگڑتے حالات کے پیشِ نظرایران نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے والی خلیجی ریاستوں کوخبردارکرتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیل کے ممکنہ جواب میں اپنی فضائی حدود کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں کیونکہ اسرائیل کی مددکرنے والا بھی ایرانی ردعمل کا ہدف ہو گا۔ یہ صرف کچھ ایسے عوامل ہیں جن پرامریکااور اسرائیل کے درمیان اسرائیلی ردعمل کے حوالے سے غورکیا جا رہا ہے۔واشنگٹن پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف کسی بھی اسرائیلی اقدام کا مخالف ہے۔
امریکہ میں5نومبر2024 کوصدارتی انتخاب ہو رہے ہیں اور ایسی صورتحال میں وائٹ ہاؤس ایرانی تیل کی تنصیبات پرکسی بھی ایسے حملے کاخیرمقدم نہیں کرے گاجس کااثرتیل کی قیمتوں پرپڑسکتاہے اورنہ ہی وہ مشرق وسطیٰ کی ایک اورجنگ میں گھسیٹا جاناچاہے گا۔ ادھر دوسری طرف اسرائیل کے اتحادیوں نے رواں برس اپریل میں اسرائیل پرایرانی حملے کے بعدتحمل کے مظاہرے پرجس طرح زور دیا تھا وہ اس مرتبہ دکھائی نہیں دے رہا اور مکمل پراسرار خاموشی ہے۔ اسرائیل کے لبنان، غزہ، یمن اور شام میں اپنے تمام دشمنوں کا ایک ساتھ مقابلہ کرنے کی دھمکیوں کے بعدلگتاہے کہ نتن یاہوکی حکومت پیچھے ہٹنے کاارادہ نہیں رکھتی۔
امریکی سیٹلائٹ انٹیلی جنس اورایران میں موسادکے جاسوسوں کی مدد سے،اسرائیلی فوج کے پاس انتخاب کرنے کیلئے ایران میں وسیع اہداف موجود ہیں جنہیں چاردرجوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔
٭اسرائیل کاپہلااوراہم اہداف ایران کے وہ اڈے ہوں گے جہاں سے ایران نے اسرائیل پرحالیہ بیلسٹک میزائل برسائے گویا ایرانی لانچ پیڈ، کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز، ایندھن بھرنے والے ٹینک اوربنکروں میں بنے گودام کونشانہ بنایاجائے گا۔
٭اسرائیل اس کے علاوہ پاسدارانِ انقلاب کے اڈوں کے ساتھ ساتھ فضائی دفاع کے نظام اوردیگرمیزائل بیٹریوں کوبھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ وہ ایران میں اپنے جاسوسوں کے ذریعے بیلسٹک میزائل پروگرام میں شامل اہم افرادکوقتل کرنے کی کوشش بھی کرسکتاہے۔
٭اسرائیل ایران کے اقتصادی اہداف کونشانہ بناتے ہوئے ایران کے پیٹروکیمیکل پلانٹس، اس کی بجلی کی پیداوارکے کارخانے اور ممکنہ طور پراس کے جہازرانی کے شعبوں پربھی حملہ کرسکتاہے۔ تاہم یہ ایرانی عوام کی نظرمیں ایک انتہائی غیرمقبول اقدام ہو گاکیونکہ اس سے عام لوگوں کی زندگیوں کوفوج پرکسی بھی حملے سے کہیں زیادہ نقصان پہنچے گا جویقیناایران کو غیرروایتی حملے کی جانب لے جاسکتاہے۔
٭کیااسرائیل ایران کے جوہری پروگرام پرحملہ کرکے دنیا کو ایک نئی عالمی جنگ کی طرف لے جانے کی جرأت کرے گا،یہ سب سے بڑا اوراہم قدم ہوگا۔اقوام متحدہ کاجوہری نگراں ادارہ اس معروف حقیقت کی تصدیق کرچکاہے کہ ایران سول نیوکلیئر پاور کیلئے درکار 20 فیصد سے کہیں زیادہ یورینیم افزودہ کر رہاہے۔اسرائیل اوردیگرکوشبہ ہے کہ ایران اس”بریک آٹ پوائنٹ” تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے جہاں سے وہ بہت قلیل مدت میں جوہری بم بنانے کے قابل ہو سکے۔اسرائیل کی ایرانی جوہری اہداف کی ممکنہ فہرست میں ایران کے فوجی جوہری پروگرام کا مرکز پار چین،تہران میں بوناب اوررامسرمیں ریسرچ ری ایکٹرزکے علاوہ بوشہر،نتنز،اصفہان اورفردومیں اہم جوہری تنصیبات شامل ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے ان اقدامات کے بعدیقیناایرانی ردِ عمل بھی اس سے کہیں زیادہ شدیدہوگااوریقینااسرائیل اور اس کے اتحادی ایرانی ردعمل کوناکام بنانے کیلئے بھی سرجوڑکربیٹھیں ہوں گے کہ اس خطرناک عمل کاردِعمل دنیاکوتاریک بھی کر سکتا ہے۔ مغرب اورامریکامیں ان خطرناک حالات کے بارے میں سخت تشویس کاعمل شروع ہوچکا ہے اورکثرت رائے کایہ مانناہے کہ ایرانی مؤقف کوتسلیم کرناچاہئے کہ اس کی جانب سے اسرائیل کے فوجی اہداف پرداغے گئے بیلسٹک میزائلوں کے بعد اب حساب برابر ہو چکا ہے لیکن اگر اسرائیل نے مزید کارروائی کی تووہ پھرجوابی حملہ کرے گا۔
ایران کے صدرمسعودپیزشکیان کایہ بیان کہ یہ ہماری صلاحیتوں کی صرف ایک ہلکی جھلک ہے۔پاسدارانِ انقلاب نے اس پیغام کو تقویت دیتے ہوئے کہاکہ”اگرصیہونی حکومت نے ایران کی کارروائیوں کاجواب دیاتواسے کچل دینے والے حملوں کاسامناکرنا پڑے گا”۔ عالمی دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران اسرائیل کو فوجی طور پر شکست نہیں دے سکتا ۔اس کی فضائیہ پرانی اور خستہ حال ہے،اس کا فضائی دفاع غیرمحفوظ ہے اوراسے گزشتہ کئی برسوں سے سخت مغربی پابندیوں کامقابلہ کرناپڑاہے لیکن اس کے پاس اب بھی بیلسٹک اور دیگر میزائلوںکے ساتھ ساتھ دھماکہ خیزموادسے لدے ڈرونزاورمشرق وسطیٰ میں متعدداتحادی ملیشیاز(عسکریت پسند گروہ)بھی موجود ہیں۔ اس کے میزائل اگلی بارفوجی اڈوں کی بجائے اسرائیلی رہائشی علاقوں کوباآسانی نشانہ بناسکتے ہیں۔2019میں سعودی عرب کی تیل تنصیبات پرایران کی حمایت یافتہ ملیشیاکے حملے نے ثابت کردکھایاتھاکہ ایران کیلئے پڑوسیوں پرحملہ کرناکتناآسان ہے۔
پاسدارانِ انقلاب کی بحریہ جوخلیجِ فارس میں کام کرتی ہے،کے پاس چھوٹی مگرتیزی سے میزائل حملے کرنے والی کشتیوں کے بڑے بیڑے ہیں جوممکنہ طورپرامریکی بحریہ کے پانچویں بحری بیڑے کوایک مربوط حملے میں مغلوب کرسکتے ہیں۔اگراسے ایساکرنے کاحکم دیا گیا تو وہ آبنائے ہرمزمیں بارودی سرنگیں بچھانے کی کوشش بھی کرسکتی ہے،جس سے دنیامیں روزانہ کی بنیادپرتیل کی20فیصدبرآمدات میں شدید ترین خلل پڑسکتاہے،جس کاعالمی معیشت پرتباہ کن بُرااثرپڑے گا۔اورپھرکویت سے عمان تک خلیج فارس کے عرب کنارے پر اوپر اور نیچے امریکی فوجی اڈے موجودہیں۔ایران نے متنبہ کیاہے کہ اگراس پرحملہ کیاگیاتو وہ صرف اسرائیل پرہی جوابی حملہ نہیں کرے گا بلکہ وہ اس حملے کی حمایت کرنے والے کسی بھی ملک کونشانہ بنائے گا۔یہ صرف کچھ ایسے منظرنامے ہیں جن پرتل ابیب اورواشنگٹن کے دفاعی منصوبہ ساز اب غورکررہے ہوں گے۔