وجود

... loading ...

وجود

مودی،مقبوضہ وادی میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کاذمہ دار

اتوار 20 اکتوبر 2024 مودی،مقبوضہ وادی میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کاذمہ دار

ریاض احمدچودھری

بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ایک حالیہ حملے میں ہلاک ہونے والے بھارتی فوجیوں کے لواحقین مودی پر برس پڑے ہیں۔لواحقین کا کہنا ہے کہ نریندر مودی اپنے سیاسی فائدے کیلئے مقبوضہ علاقے میں مزید فوجی بھیج رہے ہیں۔حال ہی میںریاست آندھرا پردیش کا رہائشی ساناپالا جگدیشور راو ئوان پانچ بھارتی فوجیوں میں سے ایک تھا جو جموں خطے کے ضلع ڈوڈہ میں ایک حالیہ حملے میں مارے گئے۔راو ئو کے بھائی وگنیشور راو ئو نے اسکی موت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمارے فوجیوں کو تنازعہ والے علاقے میں قتل کیلئے کیوں بھیجا جا رہا ہے”۔ آنجہانی فوجی کے ایک چچا نے کہا کہ جگدیشو کی موت نے نہ صرف اسکے خاندان بلکہ پورے گائوں کو شدید دکھ واذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔
مقبوضہ جموںوکشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے بھی ایک انٹرویو میں تصدیق کی ہے کہ نریندر مودی نے پلوامہ حملہ اپنے سیاسی فائدے کیلئے کرایا تھا۔ فروری 2019 میں ہونے والے اس حملے میں بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس(سی آر پی ایف) کے ساٹھ کے لگ بھگ اہلکار ہلاک ہو ئے تھے۔بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ اور راجوری میں حالیہ عرصے کے دوران بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات اب جموں میں بھی پھیل گئے ہیں۔ راجوری اور پونچھ کے اضلاع پیر پنجال سلسلہ کوہ کے دامن میں واقع ہیں اور یہ دونوں اضلاع کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہیں۔ فوج اور کشمیر پولیس کے مشترکہ آپریشن کے دوران عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے چار اہلکار دم توڑ گئے ہیں۔جموں میں لگ بھگ ڈیڑھ سال کے دوران مختلف کارروائیوں میں 48 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ایک ہفتے کے دوران عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے بھارتی فوج کو پہنچنے والے نقصان کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ 1947 سے پہلے برصغیر کے نقشے پر پونچھ کا جو علاقہ موجود تھا اس کا ایک حصہ کشمیر پر پہلی جنگ کے نتیجے میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے پاس چلا گیا تھا۔اس علاقے میں اکتوبر 2021 سے لے کر اب تک عسکریت پسندوں نے سیکیورٹی فورسز پر ایک درجن سے زائد بڑے حملے کیے ہیں جن میں کئی افسروں سمیت 40 کے قریب فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوچکے ہیں۔ لگ بھگ ڈیڑھ سال کے دوران جموں میں مختلف کارروائیوں کے دوران 48 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جموں کے ضلع ڈوڈہ میں کم از کم چاربھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر جہاں انڈین سوشل میڈیا پر افسوس اور تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں مرکزی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کو خطے میں بڑھتے تشدد پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے اسے بی جے پی حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر جہاں مرنے والوں فوجیوں کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار ہمدردی کے پیغامات ہیں وہیں وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع سے سکیورٹی صورتحال سے متعلق سوالات بھی کیے جا رہے ہیں۔قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور ایک کروڑ سے زائد افراد دنیا کی سب سے بڑی جیل میں قید ہیں۔ وادی میں نام نہاد سرچ آپریشن اورپکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ وادی میں خوراک اور ادویات کی قلت بھی برقرار ہے۔ بھارت نے مظلوم کشمیریوں پر ظلم وبربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے اور ہزاروں کشمیریوں سمیت مقبوضہ وادی کی سیاسی قیادت کو بھی جیلوں میں بند کر رکھا ہے۔وادی میں موبائل فون، انٹرنیٹ سروس بند اور ٹی وی نشریات تاحال معطل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتظامیہ کی طرف سے کشمیری رہنماوں پرکالے قوانین لاگوکرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔سابق وزرائے اعلیٰ مفتی محبوبہ ، عمرعبداللہ کے بعد اب ڈیڑھ درجن سے زائد اورکشمیری رہنماؤں پربھی پی ایس اے لاگوکیا گیا ہے۔
بھارتی مظالم کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبا نہ سکے بلکہ حیریت انگیز امر ہے کہ جوں جوں ان مظالم میں اضافہ ہوتا چلا گیا کشمیریوں کا جذبہ آزادی اتنا ہی پروان چڑھتا چلا گیا۔ بھارتی حکومت نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے ہر حربہ آزما لیا مگر اس میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ پورے مقبوضہ کشمیر میں جا بجا بے گناہ کشمیریوں کے قبرستان دکھائی دیتے ہیں مگر لاکھوں قربانیاں دینے کے باوجود کشمیری آج بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب بھارتی فوجی بے گناہ کشمیریوں پر طاقت کا وحشیانہ استعمال اور نوجوانوں کو گرفتار کر کے شہید نہ کرتی ہو۔ موجودہ مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا مستقل حصہ بنانے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے ہر حربہ آزما رہی ہے۔بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کے نتیجہ میں اب مقبوضہ کشمیر میں امن و امان عزت و آبرو سمیت کچھ نہیں بچا۔ جہاں ہر وقت جنگ جاری ہو، ظلم و بربریت کی نئی داستانیں رقم ہو رہی ہوں وہاں امن و امان کیسے رہ سکتا ہے۔ جو امن و امان کے دشمن ہوتے ہیں وہ عزت و آبرو کے بھی دشمن ہوتے ہیں۔ کسی کی عزت و آبرو پر حملہ کرنا بدترین دہشت گردی ہے مگر کوئی بھی بھارت کے خلاف کارروائی کرنے والا نہیں۔ وہاں زندگی کی رعنائیاں ختم ہو چکی ہیں اور صرف جنگ کا قانون نافذ ہے۔ یہ بات تو تمام دنیا جانتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں زندگی کی تمام رعنائیاں ختم ہو چکی ہیں جہاں 74 سال سے جنگ ہو رہی ہو، قتل و غارت کا ہر وقت بازار گرم ہو وہاں زندگی کی رونقیں کس طرح قائم رہ سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
غیر جانبداری کا پردہ:سہیل وڑائچ کے کالموں کا دُہرا معیار وجود اتوار 20 اکتوبر 2024
غیر جانبداری کا پردہ:سہیل وڑائچ کے کالموں کا دُہرا معیار

ایران کے جوہری اہداف پر اسرائیلی حملے کے ممکنہ نتائج وجود اتوار 20 اکتوبر 2024
ایران کے جوہری اہداف پر اسرائیلی حملے کے ممکنہ نتائج

مودی،مقبوضہ وادی میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کاذمہ دار وجود اتوار 20 اکتوبر 2024
مودی،مقبوضہ وادی میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کاذمہ دار

پاکستان کی بیٹیوں کا المیہ اور ہماری قومی غیرت کا امتحان وجود اتوار 20 اکتوبر 2024
پاکستان کی بیٹیوں کا المیہ اور ہماری قومی غیرت کا امتحان

ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟ وجود هفته 19 اکتوبر 2024
ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر