... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
ڈاکٹر ذاکر نائیک پاکستان میں ہیں اور ہمارے کچھ علماء کرام ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ ابھی وہ پاکستان پہنچے نہیں تھے لیکن ان پر لفظوں کی گولہ باری شروع ہوچکی تھی۔ سوشل میڈیا پرڈاکٹر صاحب کے حق میں اور مخالفت میں باقاعدہ جنگ چھڑ چکی تھی اور اسی دھینگا مشتی میں ڈاکٹر ذاکر نائیک پاکستان پہنچ گئے ۔ وزیر اعظم یوتھ پروگرام کے سربراہ اور سابق ڈپٹی ا سپیکر پنجاب اسمبلی رانا مشہود نے ان کا پر تپاک خیر مقدم کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ملک کے مختلف شہروں میں خطاب کیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ واقعی عالم فاضل ہیں اور ان کے ادارے میں پڑھنے والے طالبعلم بھی دنیا میں کسی سے کم نہیں۔ ان کے بیٹے کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے ڈاکٹر صاحب نے لاہور کی بادشاہی مسجد میں بتایاکہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ ہم لوگ اپنے نکمے بچوں مدرسوں میں بھیجتے اور ذہین بچوں کو اعلیٰ سکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں جبکہ ان کے ادارے میں پریپ سے لیکر گریجویشن تک پڑھنے والے بچوں میں سے ذہین ترین بچوں کو قران پاک کا عالم بنایا جاتا ہے جبکہ ڈاکٹر ،انجینئر اور زندگی کے دوسرے شعبہ میں ہم ان بچوں کو بھیجتے ہیں جو ذہین بچوں کے مقابلہ میں ذرا کم ذہین ہوتے ہیں۔
دنیا میں ایسے تعلیمی ادارے بہت کم ہیں جہاں چاروں آسمانی کتب تفصیل سے پڑھائی جاتی ہیں، جہاں کے طلبہ اپنی مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ عربی اور انگلش کے بھی ماہر مانے جاتے ہیں ۔اگر اسی طرح کی تعلیمی درسگاہ پاکستان میں بن گئی تو ہمارے ان علماء حضرات کا کیا بنے گا جو پہلے لوگوں کو ایک بات کا یقین دلاتے ہیں بعد میں اپنی کہی ہوئی اسی بات کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے سیاسی بیان کہہ کر جان چھڑوالیتے ہیں۔ ہمارے جیسے طالبعلم ان باتوں سے علماء کو جھوٹا سمجھے یا پھر سیاستدانوں پر یقین کرنا چھوڑ دے خیر ہم ان باتوں کے عادی ہیں۔ شاید اسی لیے کچھ علمائے کرام ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف کھل کر کھڑے ہیں اور ان کے حق میں بھی سوشل میڈیابھرا ہوا ہے ہم دوسروں میں خامیاں تلاش کرنے کی بجائے اپنے آپ کو ہی درست کرلیں تو غنیمت ہوگی، ہمارے ہاں تواسمبلیوں میں جعلی ڈگریوں والے کئی کئی سال حکمران رہے اور تو اور جن اداروں سے پڑھ کر ہم صاحب علم بنتے ہیں ان تعلیمی اداروں میں جعلی ڈگریوں والے براجمان ہیں۔ اوکاڑہ یونیورسٹی کی مثال سامنے ہے جہاں جلیل عاصم عرصہ تقریبا 15سال سے پوری شان شوکت کے ساتھ عوام کا مستقبل تاریک بنانے میں مصروف ہے جب تک ہمارے ہاں گھوسٹ ا سکول،گھوسٹ ملازمین اور جعلی ڈگریوں والے موجود ہیں تب تک ہم تنقید کرنے والے ہی پیدا کریں گے اور انہیں ہی ہم سچا ،پکا اور مخلص سمجھیں گے جبکہ ان کے مقابلہ میں ذاکر نائیک کے پاس ”علمیت و حکمت” تو ہے نہیں وہ تو صرف قران و حدیث میں سے آیات کوٹ کرتا جاتا ہے کہ سورہ نمبر فلاں، چیپٹر نمبر فلاں اور آیت نمبر فلاںمیں کیا لکھا ہوا ہے اور اس کا ترجمہ کیا بنتا ہے ہم نے تو قران کو دیکھنے ،چومنے اور عدالتوں میں قسمیں اٹھانے کے لیے رکھا ہوا ہے آج تک ہم عربی کو سمجھ نہیں سکے اور نہ ہی قران پاک کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی سعادت حاصل کرسکے ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنی بات قران و حدیث سے کوٹ کرتے ہیں۔ پھر اپنی منطق و دلیل، اپنی علمیت اور اپنی ساحرانہ لفاظی سے اس کی ایسی ایسی تشریح کرتے ہیں کہ دل مطمئن ہو جاتا ہے ۔ڈاکٹر صاحب کی مخالفت میں باتیں کرنے والے بھی اپنی اپنی جگہ بلکہ ٹھیک ہی سمجھتے ہونگے کیونکہ ان کے پاکستان آنے سے قبل ہم میں سب اچھے بھلے “اسلام کے مطابق” رہ رہے تھے کہ اچانک ذاکر نائیک کھل نائیک بن کر سامنے آتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے تو اسلام کے مطابق تھوڑا بہت سود لینے دینے کو جائز منوا لیا تھا۔ہم نے اسلام کے مطابق تھوڑی سی رشوت دینے اور لینے کی گنجائش پید اکر لی تھی۔ ہم حرام کمائی کے پیسوں سے مسجد کے ٹائلٹ بنانے کی ٹیکنیک سے واقف ہو چکے تھے۔ ہم نے مدینہ ،مکہ اور محمدی ملک شاپ نام رکھ کر کیمیکل والا دودھ بیچنا جائز سمجھ لیا تھا۔ہم ناجائز منافع خوری کے بعد عمرہ کر کے اللہ کو راضی کرنے کا ہنر بھی جان چکے تھے ۔ہم جوئے میں جیت اور فلموں کی کامیابیوں کو بھی رب کی عطا کہنے لگے تھے ۔ہماری اداکارائیں اپنی فلموں کی کامیابی پر انشاء اللہ کہنا سیکھ گئی تھیں۔ ہم بہن بیٹیوں کی مرضی کے بنا اپنی مرضی سے انکی شادیاں کروانے میں فخر محسوس کرتے ہیںاورہم جائیداد بچانے کے لیے بیٹیوں کی شادی کسی درخت کی بجائے نعوذ بااللہ قران سے کرنے لگے تھے ۔ہماری عورتیں دل و نگاہ کا پردہ کرنے لگی تھیں اور ہمارے مرد ان “دل و نگاہ” کا پردہ کرنے والیوں کو نگاہوں سے سنگسار کرنا سیکھ گئے تھے۔ ہم میں سے اکثر نماز کی بجائے حقوق العباد پر زور دینا سیکھ گئے تھے اور نماز کی معافی لے چکے تھے ۔ہمارے نمازی حقوق العباد کو بھی اللہ سے معاف کروا لینے کا فتوی ایجاد کر چکے تھے ۔گویاہم اپنی ساری زندگی اسلام کے مطابق کر چکے تھے پھر یہ کھل نائیک آ گیااور اس نے چیپٹر نمبر ، سورہ نمبر، آیت نمبر بتا بتا کر ہمیں کہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔نہ جانے یہ کون سا اسلام بتاتا رہا ہے ساری دنیا کو؟
اسلام وہ ہے جو ہم نے پاکستان میں بڑی مشکل سے تفسیر کیا ہے اور یہ کھل نائیک ہمیں بتانے آ گیا کہ ہم اسلام کے مطابق نہیں ہیں۔یہ کون ہوتا ہے ہمیں بتانے والا؟ ہم اس سے بہتر اسلام جانتے ہیںہمارے پاس دین بھی پورا ہے اور ہماری دنیا بھی جنت بنی ہوئی ہے۔ ہمارے مدرسوں میں علماء بھی تیار ہورہے ہیں اور ہمارے تعلیمی اداروں میں ڈاکٹر ،پروفیسر اور محققین بھی پیدا ہورہے ہیں۔ہمارے ہاں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی بھی بھرمار ہے لیکن اس کے باوجود ہم جہالت کی نگری کے باسی ہیں ۔غربت ہماری ہڈیوں میں رچ بس گئی ہے۔ کرپشن ہمارے لیے فخر کا باعث ہے۔ چوری ڈکیتی ہمارا پیشہ بن چکا ہے اور سرکاری ملازمین انسانیت سے باہر نکل چکے ہیں۔ پولیس غنڈی بن چکی ہے، ہم اب وہاں پر پہنچ چکے ہیں جہاں کوئی بھی اچھی بات ہمیں سخت ناگوار گزرتی ہے۔ ہم ترقی یافتہ دنیا سے ایک صدی پیچھے ہیں تو وہیں پر ہم مہذب ،اخلاق اور تہذیب میں کئی صدیاں پیچھے ہیں ۔ہم تو اس نصف ایمان کی حفاظت نہیں کرسکتے جو اللہ تعالی نے صفائی کے نام پر ہمیں دے رکھا ہے۔ اس لیے ہر اچھی بات کرنے والا ہمیںکانٹے کی طرح چبھے گا ضرور خواہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک ہی کیوں نہ ہو ۔