وجود

... loading ...

وجود

طوفان سے قبل خاموشی

هفته 12 اکتوبر 2024 طوفان سے قبل خاموشی

سمیع اللہ ملک
مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے اسرائیل پرحالیہ بیلسٹک میزائل حملوں کے بعدخطے میں”طوفان سے قبل خاموشی”جیساماحول ہے۔ایک جانب اسرائیل کے ردِعمل کاانتظارتودوسری جانب اسرائیل پرحملے کے حوالے سے امریکی صدرجوبائیڈن سے سوال پوچھے جارہے ہیں جبکہ امریکی انتخابات کی گہماگہمی نے بھی عجیب صورتحال پیداکررکھی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ امریکاکااسرائیل سے قریبی اتحاداورخطے میں تاریخی کردارہونے کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ میں موجود اس کی افواج بھی ہیں۔اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ خطے میں اسرائیل کا کردارامریکاکے سپاہی کاہے جوامریکی مفادات کے بدلے میں ضرورت سے زیادہ امریکاسے اپنی قیمت وصول کررہاہے۔
منگل کی شب ایران کے اسرائیل پرمیزائلوں کی بارش کے متعلق امریکانے اسرائیل کوپیشگی اطلاع کردی تھی۔صدربائیڈن سمیت دیگراہم امریکی عہدیداراس صورتحال کاوائٹ ہاؤس کے سچویشن روم میں براہِ راست جائزہ لے رہے تھے۔امریکانے ان حملوں کے بعدفوری ردِ عمل دیتے ہوئے انہیں”ناقابلِ قبول”قرار دیا تھااورکہاتھاکہ امریکی جنگی بحری جہازوں نے متعددایرانی میزائلوں کونشانہ بنایا۔صدربائیڈن نے پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ میں فوجیں بڑھانے کاحکم دے رکھاہے اوراس سے قبل ستمبرکے اواخرمیں مشرقی بحیرہ روم میں امریکی طیارہ برداربحری جہازیوایس ایس ہیری ایس ٹرومن بھیجاگیاتھاجواس ہفتے کے اختتام تک اپنی پوزیشن سنبھال لے گا۔
امریکی محکمہ دفاع کے مطابق امریکاکے40ہزارسے زیادہ فوجی مشرقِ وسطی میں مختلف ممالک میں تعینات ہیں لیکن امریکی افواج اپنے ملک سے ہزاروں میل دورمشرقِ وسطیٰ میں اتنی بڑی تعداد میں کیوں موجودہیں؟یہ وہ سوال ہے جس کاجواب اس تنازع کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کیلئے اہم ہے۔اس کیلئے ہمیں یہ سمجھناضروری ہے کہ اس وقت امریکی فوج کہاں کہاں موجودہے اور ان کی موجودگی سے خطے میں طاقت کے توازن پرکیسے فرق پڑتاہے۔
دراصل امریکاکی اس خطے میں موجودگی1940کی دہائی سے خلیج فارس میں رہی ہے اوراس میں2001کے ورلڈٹریڈحملوں کے بعد بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔امریکانے1945 میں سعودی شہر”دہران”میں اس خطے میں اپناپہلافضائی اڈہ بنالیاتھا۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق مشرقِ وسطی میں لگ بھگ40 ہزارامریکی فوجی موجود ہیں۔سات اکتوبر سے پہلے امریکاکے مشرقِ وسطی میں34ہزارکے لگ بھگ فوجی تھے مگرگزشتہ ایک سال کے دوران چھ ہزار فوجیوں کااضافہ کیاگیاہے۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑاامریکی اڈہ العدیدایئربیس ہے جوقطرمیں ہے اور1996میں بنایاگیاتھا۔قطرکے علاوہ بحرین،کویت،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،شام،اردن،مصر،قبرص اور عراق میں بھی امریکی فوجی موجودہیں۔امریکاکے کویت میں بھی متعددفوجی اڈے ہیں جبکہ سعودی عرب میں بھی اس کے دواڈے ہیں۔ سعودی عرب،قطر،متحدہ عرب امارات، عمان،کویت،اردن اوربحرین امریکاکی جانب سے فراہم کیے گئے تحفظ کابھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔آپ حیران نہ ہوں کہ اب بھی عراق میں اب بھی امریکاکے دوہزارسے زیادہ اہلکارموجودہیں جو”عین الاسدایئربیس اوریونین تین”جیسی سہولیات کے ارد گرد تعینات ہیں۔
امریکی پالیسی دستاویزات کے مطابق امریکی فوجی مختلف وجوہات کی بنا پرمشرقِ وسطیٰ میں تعینات کیے گئے ہیں اورشام کے علاوہ وہ ہر ملک کی حکومت کی اجازت سے وہاں موجود ہیں۔بتایاجارہاہے کہ عراق اورشام جیسے ملکوں میں امریکی فوجیں دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑنے کیلئے موجودہیں۔یہاں امریکی فوجی مقامی فورسزکوتربیت بھی دیتے ہیں لیکن عجب طرفہ تماشہ ہے کہ خودسابقہ خارجہ سیکرٹری ہیلری کلنٹن خوداس بات کااعتراف کرچکی ہیں کہ”دولت اسلامیہ”کی تشکیل اوران کی مکمل تربیت امریکانے اپنے مفادات مکی تکمیل کیلئے کی تھی اور انہیں باقاعدہ اسرائیل میں ان کوتربیت بھی دی گئی تھی۔
امریکاکے ایک اہم اتحادی ملک اردن میں سینکڑوں امریکی ٹرینرزہیں جہاں وہ سال بھروسیع مشقیں کرواتے ہیں۔ امریکا کا ”ٹاور 22” فوجی اڈہ اردن میں شمال مشرقی مقام پر واقع ہے جہاں اردن کی سرحدیں شام اورعراق سے ملتی ہیں۔رواں سال28جنوری کواس اڈے پرایک ڈرون حملے میں امریکی آرمی ریزروکے تین فوجی ہلاک ہوئے تھے جس کا الزام واشنگٹن نے ایرانی حمایت یافتہ عراقی ملیشیا کتائب حزب اللہ پرلگایاتھا۔
فوجی اڈوں اورفوجیوں کی موجودگی کیعلاوہ بحیرہ احمر،خلیجِ عمان اوربحیرہ روم میں امریکی بحریہ موجودہے۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق یہاں دومزیدامریکی طیارہ بردارجنگی بحری جہاز بھی موجود ہوں گے۔یوایس ایس ابراہم لنکن پہلے ہی خلیج عمان کے قریب موجودہے جبکہ یو ایس ایس ٹرومین نے بحیر روم کے پانیوں میں پوزیشن سنبھال لی ہے۔یوں خطے میں امریکی بری، بحری،اورفضائی تینوں افواج موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخرامریکی فوجی ہزاروں میل دورخطے میں کیوں موجود ہیں؟دراصل دہائیوں سے امریکاکی جانب سے مشرقِ وسطیٰ میں ہزاروں میل دوراپنی افواج بٹھانے کے پیچھے متعددوجوہات ہیں۔ایشیااورشمالی افریقاکے بیچ میں موجودمشرقِ وسطیٰ قدرتی وسائل سے مالامال ہے اوراس کی عالمی نقشے پرایک اہم پوزیشن اسے دوسرے ممالک کی خارجہ پالیسی خاص کرامریکاکی خارجہ پالیسی کیلئے اہم ثابت ہوتی رہی ہے۔
1938میں سعودی عرب کے مشرقی شہردہران سے تیل کاکنواں دریافت ہونے کے بعدسے تیل کی عالمی معیشت میں قدرمیں دن بدن اضافہ دیکھنے کوملا۔اس کی تصدیق کرتے ہوئے برطانوی یونیورسٹی ایس اواے ایس میں ڈیولپمنٹ سٹڈیزکے پروفیسرگلبرٹ ایخکرنے عالمی میڈیاکوبتایاکہ تیل کوجب عالمی معیشت میں اہمیت ملی توظاہرہے کہ اس کی سٹریٹیجک اہمیت بھی بڑھ گئی۔امریکاایسایہاں دیگریورپی ممالک اورچین کے مشرقِ وسطی کے تیل تک رسائی پرنظررکھنے کیلئے بھی اپنی موجودگی ضروری سمجھتاہے تاہم چنددیگراہم عوامل بھی ہیں۔ برطانیہ کے پالیسی انسٹیٹیوٹ چیٹھم ہاؤس کے مطابق”اکثرافرادیہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ امریکا اس خطے میں صرف تیل کی وجہ سے ہے حالانکہ اس حوالے سے امریکاخود کفیل ہے اور2022میں تیل کی سب سے زیادہ پیداوارامریکامیں ہوئی تھی،جواس سال سعودی عرب سے30فیصد زیادہ تھی”۔پروفیسر گلبرٹ کے مطابق امریکا ایسا یہاں دیگر یورپی ممالک اور چین کے مشرقِ وسطیٰ کے تیل تک رسائی پر نظر رکھنے کیلئے بھی کر سکتا ہے۔تاہم چند دیگر اہم عوامل بھی ہیں۔
خیال رہے کہ مشرقِ وسطیٰ روس اورامریکاکی سردجنگ کاشکاررہاہے اورامریکامیں یہ سوچ آج بھی موجودہے کہ وہ جہاں بھی خلا چھوڑے گااسے روس پرُکرلے گاتاہم تاریخی طورپر یہ بات درست نہیں کیونکہ امریکی صدرہیری ٹرومین نے1948 میں معاہدے کے 12 منٹ بعدہی اس پردستخط کرنے کاجوازیہ بتایاکہ یہودیوں کے ساتھ جوکچھ بھی دوسری عالمی جنگ کے دوران ہوا وہ غلط تھااوروہ اسے اپنا حق سمجھتاہے کہ وہ یہودیوں اوران کے ایک علیحدہ خودمختارریاست کے خواب کوپوراکرے۔دراصل امریکانے دنیامیں خودکوایک عالمی پولیس مین کاکردارسونپ رکھاہے اورکیونکہ مشرقِ وسطیٰ ایک اہم خطہ ہے جہاں سے عالمی بحری تجارتی راستے گزرتے ہیں۔
14مئی،1948کوڈیوڈبن گوریان نیاسرائیل کے قیام کااعلان کیااوراس کی تشکیل کے بعدامریکا،برطانیہ،فرانس،چین نے اس کو تسلیم کرلیا۔بھارت کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات توشروع دن سے تھے لیکن اس نے1992میں اس کوباقاعدہ تسلیم کیاجبکہ یواے ای، ترکی کے علاوہ دیگرتین اورمسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کررکھے ہیں اورسعودی عرب نے 2018میں سفر کی اجازت دے رکھی ہے۔
2001کے ستمبر11کے حملوں کے بعدجب امریکانے اسی طرح عراق پربھی حملے کافیصلہ کیاتوایک لاکھ سے زیادہ فوجیوں کو عراق جنگ میں بھیجاگیاتھاتاہم امریکی قبضے کے بعد پیداہونے والی غیریقینی صورتحال نے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کوجنم دیاجس کے قیام کے بارے میں امریکی سیکریٹری ہنری کلنٹن کااعتراف بھی موجودہے اوریہ بھی تاریخ کاحصہ ہے کہ اس تنظیم نے صرف اسلامی ملکوں کے خلاف ہی محاذگرم کر رکھاہے۔اس کے علاوہ امریکاکا بڑاحریف ایران بھی اسی خطے میں موجودہے۔ایک معروف امریکی تھنک ٹینک کے مطابق امریکا کے معاشی،سیاسی اورعسکری ایسٹس مشرقِ وسطی میں موجودہیں جن کی حفاظت کیلئے اسے یہاں فوجیوں کی ایک مخصوص تعدادرکھناضروری ہے۔خطے میں متعددفضائی اڈوں سے امریکاجب چاہے ردِعمل کااظہارکرتاہے اوراکثر موقعوں پرکچھ نہ کیے بغیربھی صورتحال پر اثر انداز ہوتا ہے اورامریکااپنے ان اقدام کوجائزقراردینے کیلئے خطے میں چین اورروس کے بڑھتے اثرورسوخ کوالزام دیتاہے۔
امریکاکی خطے میں عسکری موجودگی ہی کی وجہ سے اسرائیل اپنی بے مہارطاقت کے استعمال سے ساری دنیاکیلئے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ اس حوالے سے واشنگٹن میں پالیسی انسٹیٹیوٹ ولسن سینٹرمیں مڈل ایسٹ پروگرام کے کوارڈینیٹریوسف کین کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں امریکی موجودگی طاقت کاتوازن اسرائیل کے حق میں کرنے میں چارطریقوں سے اہم کرداراداکرتی ہے۔ایک تو امریکی سیاسی حمایت اسرائیل کی کسی بھی قسم،خاص کرعالمی اداروں میں اس کی کارروائیوں کوجائزقراردینے میں اہم کردار اداکرتی ہیں۔ دوسراامریکاکی خطے میں موجودگی کی وجہ سے مقامی اورخطے میں موجودتنازعات کومحدود کرنے میں مددملتی ہے اورشام جیسے ممالک جوسالوں سے تنازعات کا شکار تھے،میں استحکام آتاہے اوراسرائیل کومزیدآزادی ملتی ہے۔تیسرایہ کہ اسرائیلی اورامریکی مفادات خاص کرمعاشی اعتبارسے ایک جیسے ہیں، اورآخری یہ کہ اسرائیل کوامریکاکی موجودگی کے باعث تحفظ ملتاہے،انٹیلیجنس شیئرہوتی ہے اورسٹریٹیجک سپورٹ ملتی ہے۔
امریکا کی بین الاقوامی پالیسی پرگہری نظررکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ”اسرائیل ایک چھوٹی ریاست ہے اورچھوٹی ریاستوں کاایک مسئلہ ان کی ”اسٹریٹیجک ڈیپتھ”کی کمی ہوتی ہے یعنی ان کے پاس خطے میں اپنے دشمنوں کے خلاف لڑنے کیلئے وہ وسعت نہیں ہوتی جوبڑی طاقتوں
کے پاس ہوتی ہے۔امریکاکی مشرقِ وسطیٰ میں موجودگی ایران اوراس کے حمایت یافتہ گروہوں یعنی پراکسیزکیلئے ایک ڈیٹیرنس(یعنی ڈر پیدا کرنے کیلئے)ہے۔امریکی بحری بیڑے خطے میں بحیر احمر،بحیر روم اوربحرِہندمیں بھی موجودہیں اوریہ ایک مربوط نیٹ ورک ہے۔ اسی وجہ سے ایران جب بھی حملہ کرتاہے توامریکاکواس بات کا فوری علم ہوجاتاہے اوروہ اسرائیل کواس حوالے سے خبردارکردیتاہے یاوہ خودبھی ان میزائلوں کوروک دیتاہے”۔
امریکارواں صدی میں مشرقِ وسطیٰ میں عراق اورشام کی جنگ میں براہ راست جبکہ متعددجنگوں میں بالواسطہ یعنی پراکسی کردار ادا کرتا آیا ہے تاہم تجزیہ کاروں کے نزدیک ماضی کے تجربے کودیکھتے ہوئے امریکااب مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کاحصہ نہیں بنناچاہے گا۔ امریکا کاقومی مفادتویہی ہے کہ یہ جنگ طویل نہ ہواوریہیں تک محدودہوجائے۔ ایرانی بھی”سٹریٹیجک صبر”کامظاہرہ کرتے ہیں اورجوایک غیراعلانیہ معاہدہ تھااسرائیل اورایران کے درمیان کہ وہ ایک دوسرے کی پراکسیزپرتوحملہ کرسکتے ہیں لیکن ایک دوسرے پربراہ راست نہیں اور امریکاچاہے گاکہ یہ توازن برقراررہے۔
تاہم نیتن یاہونے اپنااوراسرائیل کامفاددیکھا،امریکاکانہیں اوراس نے امریکامیں الیکشن سیزن کوجنگ کووسیع کرنے کیلئے استعمال کیا ہے جبکہ اسے معلوم ہے کہ اسے امریکا میں ڈیموکریٹ اوررپبلکن دونوں ہی طرف سے حمایت ملے گی،اورجیسے ہی نئی امریکی حکومت آئے گی،توخاص کرڈیموکریٹس کے پاس اسرائیل کوروکنے کامینڈیٹ ہوگاجبکہ ٹرمپ نے تواسرائیل کوایران کے ایٹمی پلانٹ کوتباہ کرنے کا عندیہ بھی دیاہے۔اگرامریکاکی قومی سلامتی کے دستاویزات دیکھیں تواس کااسٹریٹیجک مقصداس وقت تیزی سے ترقی کرتے چین کو قابو کرنا ہے، توہروہ مسئلہ جواس سے ان کادھیان ہٹاتاہے وہ دراصل ان کے قومی مفادمیں نہیں ہے۔
یادرہے کہ چین امریکاکیلئے جتنابھی اہم کیوں نہ ہولیکن امریکاہمیشہ دنیامیں ایسے مواقعوں کی تلاش میں رہے گاجہاں اسے اپنا اثرورسوخ دکھانے کاموقع مل سکے۔یہ صورتحال تبدیل بھی ہوسکتی ہے لیکن اس وقت امریکاپوری طرح سے اسرائیل کے پیچھے کھڑاہے اورجب تک ایسا رہے گا اسرائیل کواپنا نسلی قوم پرست(ایجنڈا)اوراپنااثرورسوخ بڑھانے جیسے اہداف کوحاصل کرنے میں مدد ملتی رہے گی۔انسٹیٹوٹ فار سوشل پالیسی اینڈانڈرسٹینڈنگ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹرکے مطابق”روس اورچین کے کڑے مقابلے کے باوجودامریکا اب بھی مشرقِ وسطیٰ میں موجودوہ واحدعالمی طاقت ہے جس کایہاں اثرورسوخ ہے اوروہ اسے خطے میں توازن کواسرائیل کے حق میں پلٹنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔امریکاخطے میں زیادہ ترممالک پراثراندازہوسکتاہے اوروہ اس چھوٹ کوضرورت پڑنے پراسرائیل کی حفاظت کیلئے استعمال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکاکافوجی اورمعاشی اثرورسوخ اوراس کی جانب سے اسرائیل کی عوامی اورذاتی حمایت کے بعدامریکاکاکرداراسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت دیتاہے۔
قارئین کویاددلانے کیلئے یہاں یہ بھی بتاتاچلوں کہ 13/اگست 2024کوپینٹاگون کے پریس سیکریٹری ایئرفورس میجرجنرل پیٹ رائڈر نے نیوزکانفرنس کے دوران کہاتھاکہ مشرق وسطیٰ میں سفارت کاری کیلئے ابھی بھی وقت ہے تاہم امریکی فوجیں امریکی سینٹرل کمانڈ کے ذمہ داری کے علاقے میں ڈیٹرنس اقدام کے طورپرمنتقل ہورہی ہیں۔ انہوں نے امریکی فوجیں امریکی سینٹرل کمانڈ کے ذمہ داری کے
علاقے میں ڈیٹرنس اقدام کے طور پر منتقل ہو رہی ہیں۔ فضائیہ نے”ایف22ریپٹر”طیاروں کوخطے میں منتقل کردیاہے اور امریکی بحریہ ”یوایس ایس”ابراہام لنکن کیریئراسٹرائیک گروپ کو”ایف 35سی”لائٹنگ کوبھی متعین کردیاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گائیڈڈمیزائل آبدوزیوایس ایس جارجیابھی کسی بھی ہنگامی حالت کیلئے تیارہیں۔
رائڈرنے کہا کہ آج سینٹ کام کے علاقے میں تقریبا40,000امریکی سروس ممبران اس کے علاوہ موجودہیں جومشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پرگہری نظررکھے ہوئے ہیں۔ سکریٹری آف ڈیفنس لائیڈ جے آسٹن اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ اورخطے کے دیگر شراکت داروں کے ساتھ تقریبا روزانہ رابطے میں ہیں۔آسٹن نے اسرائیلی رہنماگیلنٹ کو اسرائیل کے دفاع کیلئے ہرممکن قدم اٹھانے کیلئے امریکی عزم کاپورایقین بھی دلایاہے۔بڑھتے ہوئے علاقائی تناکی روشنی میں پورے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوجی قوت کے انداز میں ہونے والی یہ تبدیلیاں امریکی فورس کے تحفظ کوبہتربنانے،اسرائیل کے دفاع کیلئے ہماری حمایت کو بڑھانے،اوراس بات کویقینی بنانے کیلئے کی گئی ہیں کہ امریکامختلف قسم کے ہنگامی حالات کاجواب دینے کیلئے تیارہے۔
ایران اورایرانی حمایت یافتہ گروپوں نے اسرائیل پرحملہ کرنے کی دھمکی دی ہے اورامریکاان دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیتاہے لیکن ہماری توجہ کشیدگی کوکم کرنے،جنگ بندی کوفعال کرنے اوریرغمالیوں کی واپسی پرہے۔امریکامشرق وسطیٰ میں ایک وسیع،علاقائی جنگ کوروکناچاہتاہے۔کوئی بھی بڑھتاہوانہیں دیکھناچاہتا،کوئی بھی وسیع ترعلاقائی تنازعہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ لہذاامیدہے کہ ہم خودکوان صلاحیتوں کوبروئے کارلانے کی حالت میں نہیں پائیں گے لیکن اگرہمیں اسرائیل کے دفاع میں ضرورت پڑی توہم کریں گے۔اب سوال یہ ہے کہ ایران نے توپینٹاگون کے پریس سیکریٹری ایئرفورس میجرجنرل پیٹ رائڈرکی نیوزکانفرنس سے پتہ چلتاہے کہ امریکااس خطے میں اسرائیل کوکھلی چھٹی دیکرکیاکرنے کاارادہ رکھتاہے۔ایران نے توامریکی جنرل رائڈرکی پریس کانفرنس کے 50 دن بعد اسرائیل پر میزائل حملہ کیا لیکن اس دوران اسرائیل کی بڑھتی ہوئی درندگی کوامریکانے لگام کیوں نہیں دی؟


متعلقہ خبریں


مضامین
غیر جانبداری کا پردہ:سہیل وڑائچ کے کالموں کا دُہرا معیار وجود اتوار 20 اکتوبر 2024
غیر جانبداری کا پردہ:سہیل وڑائچ کے کالموں کا دُہرا معیار

ایران کے جوہری اہداف پر اسرائیلی حملے کے ممکنہ نتائج وجود اتوار 20 اکتوبر 2024
ایران کے جوہری اہداف پر اسرائیلی حملے کے ممکنہ نتائج

مودی،مقبوضہ وادی میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کاذمہ دار وجود اتوار 20 اکتوبر 2024
مودی،مقبوضہ وادی میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کاذمہ دار

پاکستان کی بیٹیوں کا المیہ اور ہماری قومی غیرت کا امتحان وجود اتوار 20 اکتوبر 2024
پاکستان کی بیٹیوں کا المیہ اور ہماری قومی غیرت کا امتحان

ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟ وجود هفته 19 اکتوبر 2024
ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر