... loading ...
ریاض احمدچودھری
مقبوضہ جموں وکشمیر میں دس سال بعد اسمبلی انتخابات مکمل ہوگئے ہیں ، مقبوضہ جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمرعبداللہ مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلی ہوں گے۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے عمرعبداللہ کو وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کا مقبوضہ کشمیر میں ہندو وزیر اعلی لانے کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے ، کشمیری عوام نے بی جے پی اور 5اگست 2019کو کیے گئے غیر قانونی اقدامات کو مکمل طورپر مسترد کرتے صرف ہندو اکثریتی علاقوں تک محدود کر دیا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی 90 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف 28 نشستیں ملیں جسے ووٹرز کی مودی سرکار کے خلاف ” بیلیٹ احتجاج” قرار دیا جا رہا ہے۔اس کے برعکس اپوزیشن جماعت کانگریس کا انتخابی اتحاد 90 میں سے 52 نشستیں حاصل کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گیا۔ اس انتخابی اتحاد میں 43 نشستیں فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس کو ملیں۔سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی 2 نشستیں حاصل کرپائی جو حکومت میں شامل ہوتی ہیں تو مجموعی نشستوں کی تعداد 53 ہوجائے گی۔مقبوضہ کشمیر میں انتخابات میں بی جے پی کو شکست فاش ہوئی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں نیشنل کانفرنس اورکانگریس اتحاد کو 90نشستوں میں سے 52پر برتری حاصل ہے ،محبوبہ مفتی کی جماعت کو 2نشستیں ملیں،حکومتی جماعت 26سیٹوں پر آگے ہے جبکہ ہریانہ میں بی جے پی نے کامیابی کی ہیٹرک کرلی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے جبری الیکشن میں مودی سرکار ہر قسم کے ہتھکنڈوں اور سرکاری مشینری استعمال کرنے کے باوجود برے طریقے سے الیکشن ہار گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں 18 ستمبر سے یکم اکتوبر کے دوران 3 مراحل میں مکمل ہونے والے الیکشن کے نتائج کا اعلان کردیا گیا۔ ووٹرز کی اکثریت نے الیکشن کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے بائیکاٹ کیا۔یاد رہے کہ مودی سرکار نے کالے قانون کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے لداغ سے جدا کیا اور پھر انھیں اکائیوں کی صورت دیکر وفاق میں ضم کرلیا تھا۔اس غیر آئینی اقدام پر مسلم رہنما عدالت گئے لیکن تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا جس کے بعد ہونے والے دو انتخابات میں کشمیری عوام نے حریت جماعت کی اپیل کے باعث ٹرن آؤٹ نہایت کم رہا ہے۔ سیاسی اور قانونی ماہرین نے بھارت کے مسلط کردہ لیفٹیننٹ گورنر کی طرف سے پانچ ارکان اسمبلی کی نامزد گی کے اختیارکو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھائے ہیں۔ پی ڈی پی رہنما التجا مفتی نے نامزدگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے نتائج سے پہلے دھاندلی قراردیا۔ پانچ ارکان کی نامزدگی سے ارکان اسمبلی کی مجموعی تعداد 95ہوجائے گی۔نیشنل کانفرنس، کانگریس اور پی ڈی پی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے پانچ ارکان اسمبلی نامزد کرنے کے لیفٹیننٹ گورنر کے اختیار کی شدید مخالفت کی ہے۔
کشمیری عوام نے مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کے بھارتی ڈھونگ کو مسترد کر دیا ہیکل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں نے مقبوضہ کشمیر میں الیکشن کے موقع پرسیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اقوام عالم اور انسان دوست ممالک سے اپیل کی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا نوٹس لیں اور کشمیر میں رائے شماری کرائیں۔ اسکے ساتھ ساتھ اسلامی کانفرنس کو بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خاتمے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیے۔ کشمیری عوام نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتخابات کا ڈرامہ ایک بار پھر مسترد کر کے عالمی برادری پر واضح کردیا ہے کہ وہ بھارت کے تسلط کو تسلیم نہیں کرتے۔ چنانچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر با مقصد مذاکرات جلد شروع ہونے چاہئیں۔بھارتی سرکار اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے گمراہ کن پروپیگنڈے سے یہ تاثر دینے کی کوشش میں مصروف ہے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس اور تشویشناک ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے اک بار پھر بھارت کی جانب سے انتخابات کے نام پر ریاست میں رچائے جانے والا ڈرامہ مسترد کرتے ہوئے عالمی طاقتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل انتخاب نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی خواہشات کے تحت آزادانہ ماحول میں استصواب رائے یا ریفرنڈم کا انعقاد ہے۔ بصورت دیگر جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔
بھارت نے 10 لاکھ فوجی اہلکاروں کی بندوقوں کے زیر سایہ کشمیر کے تنازعہ خطے میں کچھ بھی کر گزرنے کی ٹھان لی ہے۔ حراستی ہلاکتیں ، خواتین پر دست اندازیاں، عزتوں پر حملے اور املاک کی تباہی روزانہ کا معمول بنادیا گیا ہے۔ کٹھ پتلی حکومتیں جعلی الیکشن کا ڈرامہ رچا کر قائم کی جاتی ہیں جو جمہوریت کا دعوی تو کرتی ہیں اور سیاسی سرگرمیوں پر کٹھ پتلی حکومت کے رکاوٹ نہ ڈالنے کا یقین تو دلاتی ہیں لیکن وہ ایک لمحے کے لئے بھی کشمیری حریت پسند عوام کو اظہار رائے کا حق دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔ ہم بھارتی حکمرانوں پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستانی اور کشمیری عوام کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اور نہ ہی کشمیرکی تقسیم کی بنیاد پر کوئی حل قبول کریں گے۔ مسئلہ کشمیر کا واحداور پائیدار حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری سے ہو سکتاہے۔ جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو نی چاہیے اور اس میں کشمیری جو بھی فیصلہ کریں وہ ہندوستان اور پاکستان کو قبول کرنا ہوگا۔
مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کی تحریک ہے اور کشمیر کے مسئلے کو پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی طور پر حل ہونا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی سے پاکستان کے عوام گہری جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ اسے کسی طرح بھی دہشت گردی کا نام نہیں دیاجا سکتا۔ پاکستان کے اس اصولی مؤقف کا تقاضا ہے کہ تمام انصاف پسند اقوام کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے بھارت پر اپنا دباؤ ڈالیں اور بھارتی افواج کے مظالم بند کرائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔