... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
ملت کے بہت سارے دانشور مسلمانوں میں سیاسی شعور کی کمی کا رونا روتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو ہریانہ اور جموں کشمیر کے نتائج کا موازنہ کرنا چاہیے ۔ انہیں پتہ چلے گاکہ مسلمانوں نے بی جے پی کی ساری سازشوں کو ناکام کرکے کس طرح اسے رسوا کیا جبکہ ہریانہ کے لوگ پھر سے اس کے جھانسے میں آ گئے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی تاریخ گواہ ہے کہ ایک بار اگر وہ کسی کے کندھے پر سوار ہوکر سرکار بناتی ہے تو آگے چل کر اسے نیست و نابود کرکے اپنے بل بوتے پر اقتدار میں آجاتی ہے ۔ اس کی بے شمار مثالیں مثلاً ہریانہ میں بھی وہ علاقائی جماعتوں کی مدد سے اقتدار میں حصے دار بنی تھی ۔ اڑیشہ میں بیجو جنتا دل کی جونیر پارٹنر تھی ۔ مہاراشٹر کے اندر شیوسینا کے کندھوں پر سوار ہوکر آئی تھی بلکہ گجرات ، مدھیہ پردیش ، اترپردیش اور راجستھان میں بھی جنتا پارٹی کا نقاب اوڑھ کر حکومت سازی کی تھی لیکن پھر اس نے اپنے محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اپنی حکومت بنالی ۔ جموں کشمیر میں بھی اس نے مفتی محمد سعید کی شدید مخالفت کرکے 2014میں الیکشن لڑا اور پھر انہیں کے ساتھ ہاتھ ملا کر حکومت میں شامل ہوگئی ۔ اب کی بار اپنے بل پر اقتدارمیں آنے کے لیے ا س نے کیا کیا نہیں کیا؟ مگر ‘سپنا میرا ٹوٹ گیا’ والی حالت ہوگئی۔
جموں کشمیر میں اپنا وزیر اعلیٰ مسلط کرنے کی خاطر بی جے پی نے سب سے پہلے تو وہاں خود اپنی ہی سرکار گرادی ۔ اس کے بعد آئین کی دفعہ 370 ختم کرکے بڑے بڑے دعویٰ کیے ۔ اس کے بعد نئی حد بندی کرکے جموں کی نشستیں بڑھا دیں اور وادی سے تعداد کے فرق کو کم کیا۔ ریزرویشن دے کر رائے دہندگان میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ الطاف بخاری اور سجاد لون جیسے اپنے حامیوں کے علاوہ 40 فیصد آزاد امیدوار کھڑے کروا دئیے ۔ انجنیر رشید کو انتخابی مہم کے لیے عدالت سے چھٹی دلوائی ۔ جماعت اسلامی جموں کشمیر کو بھی پابندی کے باوجود اپنے آزاد امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکا ۔ اس کے علاوہ قومی انتخاب کے بعد سے حفاظتی دستوں پر حملوں کا لامتناہی سلسلہ جاری رہا ۔ سب سے خطرناک معاملہ تو لیفٹننٹ گورنرکا نتائج سے قبل اپنی پسند کے پانچ ارکان اسمبلی کو نامزد کرنا تھا۔ ان سب کے باوجود اگر بی جے پی کا دوبارہ اپنے بل بوتے پر آزاد امیدواروں کی مدد سے حکومت بنانے میں ناکام ہوجانا اس کی بہت بڑیو رسوائی ہے ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی ان سازشوں کا قدرے تفصیل سے جائزہ لینا ضروری ہے ۔ بی جے پی کا دعویٰ تھا کہ جموں کشمیر کی یکجہتی اور ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ آئین کی دفع 370ہے ۔ اس کے ختم ہوتے ہیں علٰحیدگی پسندی یا اس کے نتیجے میں ہونے والا تشدد یا دہشت گردی ازخود مٹ جائے گی ۔ صوبے میں ترقی ہونے لگے ۔ بی جے پی دراصل اس کو ختم کرکے پورے ملک کے ہندووں کو ہمنوا بنانا چاہتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس نے سب سے پہلے ہریانہ اور مہاراشٹر کے صوبائی انتخابات میں اسے اچھالا لیکن کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا ۔ ہریانہ میں چونکہ فوج کا رجحان زیادہ ہے اس لیے اسے بڑی امیدیں تھیں ۔ یہ بھی کہا گیا تھا اب ہریانوی نوجوان کشمیری دلہن لاسکیں گے لیکن یہ حربہ ناکام رہا اور اسے پچھلی بار جے جے پی کی مدد سے حکومت بنانی پڑی جبکہ اس سے پہلے اور بعد میں وہ اپنے بل پر سرکار بنانے میں کامیاب ہوگئی۔
ہریانہ کے علاوہ 2019 کے انتخابی مہم کے دوران ایک مہاراشٹر کا فوجی جنگجووں کے ہاتھوں ہلاک ہوگیا ۔ اس کاکو بھی بھنانے کی کوشش کی گئی اور 370کے خاتمے کا جواز پیش کیا مگر مہاراشٹر میں بی جے پی دوبارہ سرکار نہیں بناسکی ۔ یہ عجیب اتفاق ہے 2020کے اندر بہار کی انتخابی مہم کے وقت ایک بہاری فوجی کشمیر میں ہلاک ہوگیا اور بی جے پی نے اس سے بھی فائدہ اٹھانے کی سعی کی مگر وہاں بھی کامیابی نہیں ملی ۔ درمیان میں دہلی اور جھارکھنڈ کے انتخاب میں بھی وہ مسئلہ اچھالا گیا مگر اروند کیجریوال اور ہیمنت سورین نے دال نہیں گلنے دی۔ سیاسی سطح پر پہ درپہ ناکامیوں کے بعد بی جے پی نے خوداسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا لیکن کم ازکم جموں کشمیر میں اس کا فائدہ ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس کا دعویٰ تھا کہ یہ کشمیری عوام کے دل کی آواز ہے ۔ یہ بات اگر درست ہوتی تو ریاست کے لوگ اس کو کامیاب کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ توتشدد کے واقعات نے جموں کے ہندووں میں عدم تحفظ اور نفرت کا جو احساس پیدا کیا اس کے سبب بی جے پی کی تھوڑی بہت عزت بچ گئی ورنہ جموں والے بھی اس آئینی ترمیم سے ناراض ہیں کیونکہ ان کا وادی کے مسلمانوں سے زیادہ معاشی نقصان ہوا ہے ۔
آئین میں ترمیم کرتے وقت یہ اعلان کیا گیا تھا کہ جموں کشمیر کو حاصل خصوصی امتیاز کو ختم کرکے اسے دوسرے صوبوں کے برابر کیا جارہا ہے حالانکہ دفع351کے تحت ملک کے کئی علاقوں کو جوسہولیات مہیا ہیں ان کوتفریق نہیں کہا جاتا۔ ملک میں کئی یونین ٹریٹیریز( مرکز کے زیر نگرانی علاقوں) کو صوبہ بنایا گیا مگر اس کے الٹ کبھی نہیں کیا گیا۔ ریاست کے درجہ سے محرومی کی زیادتی صرف جموں کشمیر کا مقدر بنی اور اس کا شکار جموں کے ہندو بھی ہوئے ۔ترمیم سے قبل سال میں ٦ ماہ ریاستی دارالخلافہ جموں کے اندر آتا تھا وہ امتیاز بھی ختم کردیا گیا ۔ ملک میں کہیں بھی گورنر کو اپنی مرضی سے ارکان اسمبلی نامزد کرنے کا حق نہیں ہے دہلی کا لیفٹننٹ گورنر بھی یہ نہیں کرسکتا مگر کشمیر میں تھا ۔ اسے ختم کرنے کے بجائے جاری رکھا گیا ۔ یعنی ترمیم کے باوجود اپنے فائدے کا امتیاز جاری رہا ۔ کشمیر میں یہ کام نئے وزیر اعلیٰ سے صلاح و مشورے سے ہوتا تھا مگر بی جے پی کو اقتدار میں لانے کی خاطر لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے حلف برداری سے پہلے پانچ بھگوادھاری ہندووں کو نامز دکردیا ۔ اس کے باوجود ہار کی کھائی اتنی وسیع ہے کہ یہ سازش کام نہیں آئی ۔ کیا یہ تفریق دیگر ریاستوں کے ساتھ مساوات ہے؟
2022 میں حد بندی کے نام پر اسمبلی کی 90 نشستیں بناتے وقت بھی ڈنڈی ماری گئی یعنی جموں میں تو سامبا، راجوری اور کٹھوعہ کے نئے حلقوں کا اضافہ کیا گیا،مگرکشمیر کوصرف کپواڑہ کو ایک اضافی نشست ملی۔ اس طرح کشمیر کی 47 کے مقابلے جموں کو43 پر لے آیا گیا۔ مسلم رائے دہندگان میں پھوٹ ڈالنے کے لیے پہلی بار شیڈولڈ ٹرائب (ایس ٹی) کے لیے نو سیٹیں مختص کی گئیں تاکہ قبائلی آبادی پر احسان
جتا کر ان کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالا جا سکے مگر مسلمان اس جھانسے میں نہیں آئے اور انہوں نے ان سبھی نشستوں پربی جے پی کو شکست فاش سے دوچار کردیا ۔ بہت سارے لوگ مسلمانوں کے ذات پات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سیاسی اعتبار سے ان خطوط پر ملت کو بانٹنا ممکن نہیں ہے ۔ اسی لیے بی جے پی ہریانہ میں تو ذات پات کی تفریق کرکے جیت گئی مگر جموں کشمیر میں یہ حربہ کام نہیں آیا۔
بی جے پی رہنما کویندر گپتا نے ان کی پارٹی کے واحد سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے پیشنگوئی کرتے ہوئے اس کی یہ وجہ بتائی تھی اس نے جموں و کشمیر میں لوگوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے ۔ اس نے پتھراؤ ختم کروادیا ۔ علیحدگی پسندی، دہشت گردی، بدعنوانی اور موروثی سیاست سے نجات دلادی ۔ بولیٹ کی جگہ بیلٹ اور دہشت کے بجائے سیاحت کا بول بالا کردیا اس لیے لوگ بی جے پی کو ووٹ دے کر سب سے بڑی پارٹی بنائیں گے مگر چونکہ عوام نے کمل کے ان تمام دعووں کو مسترد کردیا ۔ جموں اور کشمیر اسمبلی انتخابات کے نتائج والے دن ریاست کے بی جے پی سربراہ رویندر رینا نے علی الصبح ہون کر کے دعویٰ کیا تھاکہ ان کی پارٹی 30-35 سیٹیں جیت لے گی۔ نیز اس کے 15-20آزاد حمایتی امیدوار بھی وادی میں کامیاب ہوجائیں گے اور ان کی مدد سے وہ اپنی سرکار بنائے گی ۔
اس طرح رویندر رائنا نے چالیس فیصد آزاد امیدواروں کے اپنے آلۂ کار ہونے کا ازخود اعتراف کرلیا۔جموں کشمیر میں بی جے پی کے تین حلیف غلام نبی آزاد،الطاف بخاری اور سجاد لون تو پہلے سے ہی موجود تھے مگر پھر آزاد امیدواروں کا سیلاب آگیا۔ ریاست کی عوام نے کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو مسترد کردیا ۔ سجاد لون کسی طرح خود جیتے مگر الطاف بخاری تو اپنی نشست بھی نہیں بچا سکے ۔ انجینئر رشید کو جیل کے اندر بیٹھے بیٹھے زبردست فرق کے ساتھ کامیاب کرکے عمر عبداللہ کو دھول چٹانے والے رائے دہندگان نے اس بار صرف رشید کے بھائی خورشید کے علاوہ ان کے سبھی امیدواروں کو ناکام کردیاحالانکہ وہ انتخابی مہم چلا رہے تھے ۔ جماعت اسلامی جموں کشمیر کے بھی سارے امیدواروں کو مسترد کرکے عوام نے اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا کیونکہ اس موقع پر انتشار بی جے پی کو بلاواسطہ فائدہ پہنچاسکتا تھا۔ کشمیری عوام نے بی جے پی سے ہاتھ ملانے والی پی ڈی پی کو بھی ٣ پر سمیٹ دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ کشمیر کے مسلم ووٹرس نے اپنی ذہانت و ذکاوت سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایسا دھوبی پچھاڑ مارا کہ اب اس پر ‘کشمیر فائل’ کا دوسرا سیکویل بننا چاہیے ۔ یہ اس قدر دلچسپ ہوگا کہ شائقین ‘کشمیر فائلس’ کے پہلے حصے کو بھول جائیں گے ۔